اسلام آباد(نمائندہ نوائے وقت) سپریم کورٹ نے نیب کے ملازم محمد شفیق کی جبری ریٹائرمنٹ سے متعلق نیب کی اپیل پر ہائی کورٹ کا فیصلہ کالعدم قرار دیتے ہوئے کہا کہ بظاہر محکمہ اس کا مجاز ہے۔ چیف جسٹس گلزار احمد نے نیب پراسیکیوٹر کی عدم تیاری پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ نیب افسر کیس کی فائل پڑھے بغیر آجاتے ہیں کیا کیس کی تیاری کرنا بھی عدالت کا کام ہے؟ عدالتی سوالات کے جواب نہ دینے پر پراسیکیوٹر نیب عمران الحق کی سرزنش کرتے ہوئے کہا کہ آپ یہاں کیا کرنے آئے ہیں، آپ نے مقدمے کے قانونی پہلو پر عدالت کی کوئی معاونت نہیں کی، نیب پراسیکیوٹر آپ کام پر دھیان دیں، نیب پراسیکیوٹر تیاری کے بغیر عدالت میں پیش ہوتے ہیں۔ کیا نیب کے مقدمات میں عدالت نے کام کرنا ہے یا نیب کی پراسیکیوشن نے، آج بھی مقدمے میں نیب کی جانب سے کوئی متعلقہ عدالتی نظیر پیش نہیں کی گئی، عدالت نے سماعت میں وقفہ کرتے ہوئے نیب پراسیکیوٹر کو ہدایت کی وقفے کے بعد مکمل تیاری کر کے آئیں ،وقفے کے بعد سماعت شروع ہوئی تو جسٹس اعجازالاحسن نے ریمارکس دئیے کہ محمد شفیق کو مس کنڈکٹ پر محکمے نے جبری ریٹائر کیا، محکمے نے محمد شفیق کی دراخواست کو جبری ریٹائرمنٹ کے بعد منظور کیا، بظاہر محکمہ اس عمل کا مجاز ہے، نیب پراسیکیوٹر نے مقدمے کی تحقیق نہیں کی، اس موقع پر نیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ نیب نے درخواست گزار کو طویل غیر حاضری پر ریٹائر کیا، اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ غیر حاضری پر قانون کے مطابق کیا سزا ہے، ہمیں مقدمے کی مکمل ہسٹری بتائیں۔ جسٹس سجاد حسین شاہ نے کہا کہ ریکارڈ کے مطابق برطرف ملازم سات سال میں 1 ہزار 66 دن غیر حاضر رہا، نیب پراسیکیوٹر نے عدالت کو بتایا کہ ملازم کو غیر حاضری پر جبری ریٹائر کیا گیا، ملازم کی رخصت کو بغیر تنخواہ کے رخصت قرار دیا گیا، ملازم کو دو سزائیں نہیں دی گئیں۔
نیب افسر فائل پڑھے بغیر آ جاتے ہیں، کیا کیس کی تیاری عدالت نے کرنی ہے: چیف جسٹس
Jan 07, 2020