اسلام آباد (نمائندہ خصوصی) چیئرمین پی پی بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ آرمی چیف کی ایکسٹنشن کی جو پاور ہے وزیراعظم کے پاس ایگزیکٹو کے پاس ہوتی ہے۔ پیپلزپارٹی نے یہ جو ترمیمی آرمی بل ہے اس کے طریقہ کار سے اختلاف کیا جس طریقہ کار سے کیا جا رہا تھا۔ پارلیمنٹ کو بائی پاس کیا جا رہا تھا، پارلیمنٹ کو بلڈوز کیا جا رہا تھا۔ جمہوریت کو بائی پاس کیا جا رہا تھا۔ پیپلزپارٹی نے سمجھا یہ پارلیمنٹ کے خلاف ہوگا۔ جس طریقے سے جو ایک بل کسی ممبر نے دیکھا ہی نہیں جو کسی کمیٹی میں بھی نہیں گیا تھا وہ بل ایک دن میں سارے کے سارے ہائوس میں پاس ہونا تھا جو کہ پیپلزپارٹی نے سمجھا کہ یہ جمہوریت کے خلاف ہے۔ یہ پارلیمنٹ کو انڈرمائن کر رہا تھا اور انسٹی ٹیوٹس کو بھی انڈرمائن کر رہا تھا۔ جس کے لئے یہ قانون سازی ہے۔ پیپلزپارٹی کی طویل تر سی ای سی کی میٹنگ ہوئی، اس میں بحث ہوئی۔ پاکستان پیپلزپارٹی کی سی ای سی نے یہ فیصلہ کیا کہ کچھ ترامیم پیش کرنا پڑیں گی، کچھ ترامیم تجویز کریں گے، ساتھ ساتھ ہم نے یہ مطالبہ بھی کیا ہے جو سپریم کورٹ کا آرڈر ہے، اس سپریم کورٹ کے آرڈر پر عملدرآمد ہونا چاہیے۔ سپریم کورٹ نے کہا ہے کہ جو آرمی ایکٹ 52-53 کا ہے اس کے جو رولز اور ریگولیشن ہیں وہ دکھائے جائیں۔ نئے بل میں انہی رولز اور ریگولیشنز کا ذکر ہے مگر وہ آرمی ایکٹ کا ریگولیشن ہمیں نہیں دکھایا گیا۔ کسی کو دکھایا نہیں گیا تو ہمارا مطالبہ ہے کہ عدالت کے حکم پر عملدرآمد کیا جائے اور آرمی ایکٹ کے رولز اینڈ ریگولیشنز جو ہیں وہ بھی اپوزیشن کے ساتھ شیئرکئے جائیں۔ سپریم کورٹ نے جو اپنے آرڈر میں حکومت کو کہا ہے جو آرٹیکل 243(3) اس میں ترمیم لانے کی ضرورت ہے۔ لیکن جو بل ہمارے سامنے پیش ہوا ہے اس میں آرٹیکل 243(4) پر ترمیم کروایا گیا ہے اس پر ہم سمجھتے ہیں کہ حکومت کو یہ دیکھنا چاہیے کہ یہ جو قانون میں ترمیم ہے اس کو آئین اور قانونی طریقے سے پاس کرایا جائے۔ ہم چاہتے ہیں کہ پارلیمانی طریقہ کار اپنا جائے جب ہم دھاندلی کا اعتراض کرتے ہیں تو پارلیمانی طریقہ کو فالو نہیں کیا جاتا اسی لئے ہم اعتراض کرتے ہیں۔ جب پارلیمان میں وزیراعظم نہیں آتا، جب پارلیمنٹ کو اہمیت نہیں دی جاتی، جب سپیکر رولز فالو نہیں کرتے تو ہم کہتے ہیں کہ یہ پارلیمان پر حملہ ہے، یہ حملہ ہے جمہوریت پر۔ اگر اس موضوع پر جو پارلیمنٹ کا طریقہ کار ہے اپنایا نہیں جاتا تو یہ مشکلات حکومت کے لئے پیدا کر رہے ہیں۔ وہ جو نوٹیفکیشن کے وقت مسائل اٹھے تھے حکومت کی اپنے بچگانہ اور اناہلی کی وجہ سے اٹھے تھے۔ ہم نہیں چاہتے کہ پھر سے جب اتنے اہم ایشو پر پارلیمان سے جو اتنا اہم بل پاس ہوتا ہے اس کے بعد کوئی ایسا چیلنج نہیں ہونا چاہیے جو اس کے بعد کوئی اعتراض کرے۔ حکومت کی نااہلی کی وجہ سے حکومت کی جلد بازی کی وجہ سے یہ خطرات ہیں۔ ہم یہ مسئلہ سب کے سامنے اور حکومت کے سامنے بھی پیش کرتے ہیں۔ ساتھ ساتھ جوترمیم پاکستان پیپلزپارٹی نے پیش کی ہے ہم چاہتے ہیں اس ترمیم کی سپورٹ جو ہے وہ اپوزیشن کی ساری جماعتیں بھی سپورٹ کریں۔ نوید قمرنے ن لیگ سے رابطہ کیا ہے ن لیگ نے کہا ہے کہ ترمیم کے بارے میں وہ اپنے پارٹی لیڈر سے بات کریں گے اور وہ ہمیں جلد جواب دیں گے۔ پاکستان پیپلزپارٹی کی طرف سے جو دوسری جماعتیں ہیں جیسے بلوچستان سے تعلق رکھنے والی ہماری جماعت نیشنل اسمبلی اور سینٹ میں ہے جیسے جے یو آئی ایف ان سے بھی ہم رابطے کر رہے ہیں ان کے سامنے بھی ترامیم پیش کریں گے کہ پاکستان پیپلزپارٹی نے جو ترامیم کی ہیں جمع بھی کرائی ہیں کل وہ نیشنل اسمبلی کے پروسیجر میں آئیں گی اس پر ہم چاہتے ہیں کہ دیگر سیاسی جماعتیں ہمارا ساتھ دیں۔ ایک اپوزیشن پارٹی پارلیمنٹ میں جو ہمارا اختیار ہے اس قانون میں بہتری لانا چاہتے ہیں اس ترمیم میں جو بہتری کی گنجائش ہے وہ کرنا چاہتے ہیں جس کا مختلف لوگوں نے اس کا ذکر بھی کیا ہے پاکستان پیپلزپارٹی اس ایشو کو ایڈریس کرتے ہوئے اس پر انگیج کرنا چاہتے ہیں۔ اس وقت تک یہ ہمارا موقف ہے۔ ایک سوال کے جواب میں کہا کہ ہماری جو تین ترمیمی بل ہیں وہ کمیٹی میں بھی نیشنل اسمبلی میں بھی خود پیش کیا ہے۔ جو اس کمیٹی میں ہمارا ممبر اٹھایا تھا حکومت نے کہا کہ وہ یہ کنسیڈر کریں گے۔ لگتا ہے کہ شاید یہ ہمارے ساتھ گیم کھیل رہے ہیں اس لئے وہ جو ہماری ترامیم ہیں اس کو سیکرٹریٹ میں بھی پیش کیا ہے۔ یہاں تک ہماری ترامیم کے مفہوم کا تعلق ہے پہلی جو ہماری ترمیم ہے پارلیمنٹ کمیٹی کا کردار ہے۔ جب وزیراعظم ایکسٹنشن دیتا ہے تو وزیراعظم صاحب کو نیشنل سکیورٹی کمیٹی کے سامنے پیش ہونا چاہیے جو ایکسٹنشن کا جواز ہے اس کو اس کا جواز بھی دینا چاہیے۔ اس طریقے سے کورٹ کے اپروچ کے مطابق اپوائنٹمنٹ کے طریقہ کار میں کچھ ترامیم جمع کرائی ہیں۔ ایک سوال کے جواب میں اپنے کارکن اور جیالوں کے لئے اتنا کہوں گا نئی جو پچھلی نسلیں وہ بھی ان پر قربان اور جو آنے والی نسلیں ہیں وہ بھی ان پر قربان۔ ہم جو محنت کر رہے ہیں جمہوریت کے لئے جدوجہد کر رہے ہیں پارلیمنٹ کی عزت کی جدوجہد کر رہے ہیں وہ سب ان کے لئے کر رہے ہیں۔ پاکستان میں جو بھی جمہوریت سے تعلق رکھنے والے لوگ ہیں پاکستان پیپلزپارٹی ہمیشہ ان کے لئے ایک امید کی کرن رہی ہے۔ پاکستان کی موجودہ پارلیمنٹ پاکستان کی تاریخ میں کمزور ترین پارلیمنٹ ہے تو ایسی سپیس میں ہم کردار ادار کر رہے ہیں یہ ہماری بہت بڑی کامیابی ہے کہ یہ پارلیمنٹ کے طریقہ کار کو سبوتاژ کررہے تھے، پارلیمنٹ کو انڈرمائن کر رہے تھے اس وقت ایک ہی جماعت تھی جو میری جماعت تھی پاکستان پیپلزپارٹی کے کارکنو ں کی جماعت تھی۔ جو ان کے سامنے ڈٹے اور ان کو کہا نہیں اگر آپ جمہوریت کے ساتھ کھیلیں گے تو پاکستان پیپلزپارٹی آپ کے ساتھ نہیں ہو گی۔ پاکستان پیپلزپارٹی اس ماحول میں سمجھتی ہے کہ جب آپ قانون سازی کرتے ہیں۔ جب آپ مانتے ہو ایگزیکٹو کے پاس پاور ہے کہ وہ ایکسٹنشن دے تو پارلیمنٹ کے رولز کو فالو کرنا چاہیے۔ جو قانون بن رہا ہے وہ رولز آف لا کے لئے بہتر ہوگا۔
آرمی ایکٹ کے رولز، ریگو لیشنز اپوزیشن کو بتائے جائیں، شاید ہم سے گیم کھیل رہے ہیں: بلاول
Jan 07, 2020