اسلام آباد(نیوز رپورٹر، سٹاف رپورٹر) وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا ہے کہ جنرل قاسم سلیمانی کے قتل سے خطہ مزید عدم استحکام کا شکار ہوا ہے۔ پاکستان کسی علاقائی تنازعہ کا حصہ دار نہیں بنے گا۔ ہماری پوزیشن واضح ہے خطے میں امن کے لئے کوششیں جاری رکھیں گے۔ طاقت کا استعمال کسی مسئلہ کا حل نہیں، اس معاملے کو سفارتی طریقہ اور عالمی قوانین کے مطابق حل کیا جائے۔ واقعہ سے عراق اور شام میں عدم استحکام کے امکانات بڑھے ہیں، افغان امن عمل متاثر ہو سکتا ہے، یہ خطہ کسی نئی جنگ کا متحمل نہیں ہو سکتا، جنگ کے پاکستان سمیت پورے خطے پر بھیانک اثرات مرتب ہوں گے، پاکستان کی سرزمین کسی دوسرے ملک کے خلاف استعمال نہیں ہو گی۔ اسلامی تعاون تنظیم میں پہلے ہی یکجہتی کا فقدان ہے، اس واقعہ سے مسائل بڑھے ہیں۔ ایوان بالا کے اجلاس میں پالیسی بیان دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ یہ خطہ عرصہ دراز سے کشیدگی اور عدم استحکام کا شکار رہا ہے اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ خطہ میں بہت سے مسائل حل طلب ہیں، ان کے حل پر توجہ نہیں دی گئی جس سے مسائل بڑھے ہیں، یہ خطہ امن واستحکام سے پیدا ہونے والی خوشحالی سے محروم رہا ہے۔ اس تناظر میں آج کے حالات سے نئے تنائو اور کشیدگی نے جنم لیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ 27 دسمبر کو عراق کے بیس پر راکٹ حملے میں ایک امریکی کنٹریکٹر ہلاک ہوا اور امریکی عملہ کے دو اہلکار زخمی ہوئے، 29 دسمبر کو امریکی ردعمل میں امریکیوں پر حملہ کرنے والی ملیشیاء کے 25 افراد جاں بحق اور 25 سے زائد زخمی ہوئے جس کے بعد بغداد میں امریکی سفارتخانہ کے سامنے احتجاج کیا گیا اور جلائو گھیرائو کیا گیا، یکم جنوری 2020ء کو امریکہ نے اس احتجاج کا ذمہ دار ایران کو ٹھہرایا اور ایرانی جنرل قاسم سلیمانی کو اس واقعہ کا منصوبہ ساز اور ماسٹر مائنڈ قرار دیا۔ 3 جنوری کو جنرل قاسم سلیمانی پر ڈرون حملہ کیا گیا جس میں ان سمیت عراق کی مقامی ملیشیاء کے ڈپٹی کمانڈر ابومہدی المہندس اور دیگر 9 افراد جاں بحق ہوئے۔ وزیر خارجہ نے کہا کہ یہ تشویشناک صورتحال ہے، ماہرین کہہ رہے ہیں کہ 2011ء میں اسامہ پر حملے اور 2019ء پر داعش کے سربراہ اور ابو بکر البغدادی پر حملے سے بھی زیادہ اس واقعہ کے سنگین اثرات مرتب ہوں گے، امریکی ڈرون حملے کے بعد عراق اور ایران میں لوگ سڑکوں پر نکل کر احتجاج کر رہے ہیں، ایران کی حکومت نے سلامتی کونسل کا ہنگامی اجلاس طلب کیا، عراق میں عوامی ردعمل سامنے آیا، ہفتہ کو قاسم سلیمانی کے نماز جنازہ میں بڑی تعداد میں عوام نے شرکت کر کے ردعمل کا اظہار کیا۔ اتوار کو عراقی پارلیمنٹ کا ہنگامی اجلاس ہوا، اس صورتحال کے تناظر میں عراقی پارلیمنٹ نے ایک قرارداد منظور کی جس میں کہا گیا کہ عراق میں موجود غیر ملکی فوجیوں کو عراقی سرزمین چھوڑ دینی چاہیے۔ قرارداد میں یہ بھی کہا گیا کہ عراق کے وزیر خارجہ کو اقوام متحدہ جا کر امریکی حملے کے خلاف احتجاج ریکارڈ کرانا چاہیے کیونکہ یہ حملہ اقوام متحدہ کے منشور اور قراردادوں کے خلاف ہے۔ شاہ محمود قریشی نے کہا کہ وقت بتائے گا کہ یہ صورتحال کیا رخ اختیار کرتی ہے۔ 3 جنوری 2020ء کو پاکستان نے اپنا نکتہ نظر پیش کیا۔ اتوار کو خطہ کے اہم وزرائے خارجہ سے رابطے کئے، ایران کے وزیر خارجہ سے تفصیلی گفتگو کی، ان کا نکتہ نظر سنا اور پاکستان کے موقف سے آگاہ کیا۔ متحدہ عرب امارات، ترکی اور سعودی عرب کے وزراء خارجہ سے بھی بات چیت کی، اس کے حوالے سے خطے کے دیگر ممالک سے بھی رابطے کریں گے، چین کے ساتھ بھی رابطے میں ہیں۔ انہوں نے کہا کہ مشرق وسطیٰ کی صورتحال نازک اور تشویشناک ہے، ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای برملا انتقام کا اظہار کر چکے ہیں، پوری ایرانی قوم اس معاملے پر غم و غصے کا شکار ہے جبکہ امریکہ بھی مسلسل ایران کے ردعمل کی صورت میں سخت جوابی کارروائی کی دھمکیاں دے رہا ہے جس کے باعث خطے کی صورتحال میں مزید گشیدگی میں اضافہ ہو رہا ہے، امریکی انتظامیہ نے 2018ء میں ایران امریکہ ایٹمی معاہدہ 2015ء سے علیحدگی اختیار کی اور ایران پر پابندیاں لگائیں، موجودہ صورتحال میں اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل فریقین کو صبر و تحمل کی تلقین کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ایران امریکہ تنازعہ حساس معاملہ ہے، پوری قوم کو ذمہ داری کا مظاہرہ کرنا چاہیے، اس واقعہ کے اثرات نہ صرف پورے خطے بلکہ پاکستان پر بھی پڑیں گے، جنرل قاسم سلیمانی کا قتل سنجیدہ معاملہ ہے، پورے پاکستان کو اس واقعہ پر تشویش ہے، ہم سمجھتے ہیں کہ اس واقعہ سے یہ خطہ مزید عدم استحکام کا شکار ہوا ہے، عراق اور شام میں عدم استحکام کے امکانات بڑھے ہیں۔، یمن کے حوثی باغی اس کی آڑ میں سعودی عرب میں حملے کر سکتے ہیں، آبنائے ہرمز کو بلاک کیا جا سکتا ہے جس سے تیل کی رسد متاثر ہو گی، اس سے پاکستان اور ہماری معیشت بھی متاثر ہو گی۔ ایران ایٹمی معاہدہ 2015ء سے لاتعلق ہو سکتا ہے اور یورینیم کی افزودگی کی ازخود پابندی سے مبرا ہو سکتا ہے، اس کے بھی خطے اور اس سے باہر اثرات مرتب ہوں گے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں بڑی قربانیاں دی ہیں، بھاری جانی و مالی نقصان اٹھایا، 2019ء گزشتہ برسوں کے مقابلے میں پر امن رہا۔ انہوں نے کہا کہ اسلامی تعاون تنظیم میں پہلے ہی یکجہتی کا فقدان ہے ، اس واقعہ سے تقسیم کے واقعات بڑھے ہیں، ہم او آئی سی کو یکجا کرنے کے لئے کوشاں ہیں تاکہ مسئلہ کشمیر پر بھارت کے خلاف اسلامی تعاون تنظیم کے فورم سے موثر آواز اٹھائی جا سکے کیونکہ ہندوستان نے ہر معاملے پر ہمیشہ پاکستان کی مخالفت کی ہے، اس وقت بھارت میں شہریت ترمیمی بل پر شدید احتجاج ہو رہا ہے، 11 ریاستیں اس پر عملدرآمد کے لئے تیار نہیں، بھارتی حکومت احتجاج دبانے کی کوشش کر رہی ہے۔ شاہ محمود قریشی نے کہا کہ مشرقی سرحد پر ہماری تشویش میں اضافہ ہوا ہے، بھارت دہشت گردی کی آڑ میں فالس فلیگ آپریشنل کر سکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ حالیہ واقعہ پر پاکستان کے موقف میں کوئی ابہام نہیں، پاکستان سمجھتا ہے کہ موجودہ صورتحال میں اگر کوئی ایسا ردعمل آتا ہے جس سے خطے کا امن و استحکام متاثر ہوتا ہے یہ پاکستان کے مفاد میں نہیں کیونکہ ایسے واقعات سے ہمارے اپنے قومی اقتصادی ایجنڈے پر توجہ متاثر ہوتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کسی یکطرفہ اقدام کی حمایت نہیں کرتا، طاقت کا استعمال کسی مسئلہ کا حل نہیں۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان اقوام متحدہ کے منشور میں خود مختاری اور علاقائی سالمیت کے حوالے سے طے شدہ اصولوں کی پاسداری کو اولیت دیتا ہے، موجودہ صورتحال میں تمام فریقوں کو صبر و تحمل کا اظہار کرنا چاہیے، ایران کے دکھ کا اندازہ ہے لیکن اس پر واضح کر دیا ہے کہ اسے ایسا کوئی اقدام نہیں کرنا چاہیے جس سے کشیدگی میں اضافہ ہو۔ اس معاملے کو سفارتی طریقہ اور عالمی قوانین کے مطابق حل کیا جائے، یہ خطہ کسی نئی جنگ کا متحمل نہیں ہو سکتا کیونکہ جنگ کے پاکستان سمیت پورے خطے پر بھیانک اثرات مرتب ہوں گے، پاکستان کی سرزمین کسی دوسرے ملک کے خلاف استعمال نہیں ہو گی، پاکستان کسی علاقائی تنازعہ کا حصہ دار نہیں بنے گا۔ انہوں نے کہا کہ متعلقہ فریقین کے درمیان غلط فہمیاں دور کرنے کے لئے کردار ادا کریں گے، موجودہ صورتحال میں عالمی برادری، اقوام متحدہ اور اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کو اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان اس صورتحال پر گہری نظر رکھے ہوئے ہے، دفتر خارجہ میں مانیٹرنگ کے لئے خصوصی ٹاسک فورس تشکیل دی ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان تمام مسلمان ممالک کے ساتھ تعلقات کو اہمیت دیتا ہے، موجودہ صورتحال میں ذمہ داری کا ثبوت دیں گے، پاکستانی قوم اور افواج غافل نہیں ہیں۔
اسلام آباد( سٹا ف رپورٹر) وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا ہے کہ پاکستان نے اپنی خود مختاری کا نہ کبھی سودا کیا اور نہ کریگا۔ ایران اور امریکہ معاملہ کا مسلسل جائزہ لینے کیلئے وزارت خارجہ مین ٹاسک فورس قائم کر دی گئی ہے۔ ترک صدر اگلے ماہ ایک بہت بڑا وفد لیکر پاکستان آ رہے ہیں۔ روس اس خطے کا اہم ملک ہے آج ہمارے اسٹرٹیجک پارٹنر چین کے بھی روس کے ساتھ بہترین روابط بن چکے ہیں۔ آج میرا مقصد خطے کی صورتحال پر ایوان کو اعتماد میں لینا ہے۔ مشرق وسطی کے مسائل کی ایک تاریخ ہے۔ ان مسائل کے اثرات ہمارے خطے پر بھی پڑے اور یہ وہ ترقی نہیں کر سکا جو اسے کرنا چاہیے تھی۔ قومی اسمبلی میں اظہار خیال کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ خواجہ آصف کی باتیں میں نے سنیں اور مجھے بہت تعجب ہوا ۔ ایک ایسا شخص جو خود وزیر خارجہ رہا ہو اس سے اس طرح کی گفتگو کی توقع نہیں کی جا سکتی۔ہمارا ہمسائیگی پر فوکس تھا اور ہے۔ سیاسی پوائنٹ اسکورنگ ضرور کیجئے مگر آپ کے دور میں کشمیر پر کبھی بات نہیں کی گئی۔ میں نے 12 دسمبر کو سیکورٹی کونسل کو خط لکھا اور انہیں کہا کہ وہ ملٹری مبصرین سے بریفنگ لے اور چین نے اسے موو کیا۔ہمارا واضح موقف تھا کہ افغانستان کے مسئلے کا کوئی فوجی حل نہیں ہے اور آج دنیا ہمارے موقف کو تسلیم کر رہی ہے۔ سی پیک شروع کرنے کا آپ کا دعویٰ درست نہیں عوام کی آنکھوں میں جھول مت جھونکیں۔ ہم اپنے حریفوں کی بولیاں بولتے ہوئے یہ نہیں سوچتے کہ ہم پاکستان کے مفاد کو نقصان پہنچا رہے ہیں۔کے ایل کا یہ پہلا اجلاس نہیں تھا وزیر اعظم مہاتیر اپنی این جی او کے ذریعے چار اجلاس کر چکے تھے۔ وہ حکومت میں آنے کے بعد پانچواں اجلاس کروانا چاہ رہے تھے انہوں نے اسلاموفوبیا سمیت اس کانفرنس کے اغراض و مقاصد کو نیویارک میں ہمارے سامنے رکھا ہم نے ان اغراض ومقاصد سے اتفاق کیا اور آج بھی کرتے ہیں۔ امہ کے کچھ ممالک کو تحفظات تھے کہ یہ او آئی سی کے مقابل کوء تنظیم کھڑی کی جا رہی ہے۔ان کے اندیشوں کو دور کرنے کیلئے وقت درکار تھا۔ ملائشیا کے وزیر اعظم مہاتیر محمد کو اور ترکی کے صدر کو تشویش نہیں ہوء لیکن ہمیں لاحق ہو رہی ہے۔ آج جو آوازیں سنائی دے رہی ہیں اس کے اثرات محض خطے تک محدود نہیں رہیںگے۔ 27 کو راکٹ حملہ ہوتا ہے جس میں ایک کنٹریکٹر مارا جاتا ہے اور متعدد زخمی ہوتے ہیں اور اس کے ردعمل میں دوسری طرف سے الزام ایران پر اور جنرل قاسم سلیمانی پر عائد ہوتا ہے اور پھر انہیں نشانہ بنایا جاتا ہے۔ ابھی صورتحال بدل رہی ہے آج مشہد میں لاکھوں لوگ احتجاج کر رہے ہیں لوگوں کے جذبات کسی سے ڈھکے چھپے نہیں۔ اس آگ کے شعلے پاکستان کی جانب بھی آئیں گے ہمیں صورتحال کو دیکھنا ہے۔ کل میں نے خطے کے اہم ممالک سے روابط کیے۔ ایران ہمارا برادر ملک ہے کشمیر کے مسئلے پر انہوں نے ہمارا ساتھ دیا۔ میں نے کل سب سے پہلے کال ایران کے وزیر خارجہ کو کی اور انہیں پاکستانیوں کے جذبات سے آگاہ کیا میں شکر گزار ہوں کہ انہوں نے پاکستان پر کوء اعتراض نہیں کیا۔ ابھی آپ نے خود کہا کہ ہمارے چالیس پنتالیس لاکھ پاکستانی گلف ممالک میں کام کرتے ہیں اور میں آپ سے اتفاق کرتا ہوں۔ترکی نے جو قرارداد منظور کی ہے اس سے تشویش پیدا ہو رہی ہے میں نے ان کے وزیر خارجہ سے بھی بات کی ہے۔ اگر ایران ردعمل کا مظاہرہ کریگا تو امریکہ کیا کریگا ہمیں سوچنا ہو گا۔ہمیں اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل کی تشویش کو بھی سامنے رکھنا ہے۔عراق نے پارلیمنٹ کا ہنگامی اجلاس بلایا اور قرارداد منظور کی کہ ٹروپس کا انخلاء ہو جائے۔ ہم جنگ کا حصہ نہیں بنیں گے ہم امن کے لیے کردار ادا کرسکتے ہیں۔ میں اس ایوان میں واضح کر دینا چاہتا ہوں کہ ہم اپنی سرزمیںن کو کسی دوست یا ہمسایہ ممالک کے خلاف استعمال کرنے کی اجازت نہیں دیں گے۔ہم طاقت کے استعمال کے خلاف ہیں ہم نے واضح کہا ہے کہ اقوام متحدہ کے چارٹر کی روشنی میں مسائل کا حل تلاش کیا جانا چاہیے۔ امریکہ کی حکومت وہاں کے لوگوں نے منتخب کی ہے ۔ اوبامہ کی حکومت ایران سے ایک معاہدہ کرتی ہے اور سمجھتی ہے کہ اس نیوکلیئر معاہدے سے حالات سدھر جائیں گے لیکن موجودہ امریکی حکومت کا نقطئہ نظر مختلف ہے۔ امریکہ یہ سمجھتا ہے کہ انہوں نے یہ اقدام بچائو میں کیا یہ ان کا نکتہ نظر ہے۔ ایک طرف پچاس مقامات کو ہدف بنانے اور دوسری طرف پینتیس مقامات کو حدف بنانے کی باتیں کی جا رہی ہے۔ ہم اس ساری صورتحال سے لاتعلق نہیں رہ سکتے ہم سمجھتے ہیں کہ امریکہ کی طرف سے اس اقدام کے اثرات صرف خطے تک محدود نہیں بونگے اس سے افغان عمل امن متاثر ہو سکتا ہے۔ ہم نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں بھاری قیمت ادا کی۔ہم نے کوشش کی کہ او آئی سی کو یکجا کیا جائے اور کشمیر پر ایک واضح متفقہ نکتہئ نظر سامنے لایا جائے لیکن اگر امہ تقسیم ہوتی ہے تو اس کا نقصان ہو گا۔بھارت کے متنازع ترمیمی شہریت ایکٹ کے خلاف پورا ہندوستان سراپا احتجاج ہے ہم علی گڑھ یونیورسٹی اور جامعہ ملیہ کو رو رہے تھے لیکن کل ایک اور یونیورسٹی کے طلباء کو تشدد کا نشانہ بنا دیا گیا۔میں اس ایوان کو بتانا چاہتا ہوں کہ پاکستان اپنے موقف میں انتہائی واضح ہے۔ پاکستان طاقت کے استعمال کے خلاف ہے۔ ہم نے کہا ہے کہ تمام اسٹیک ہولڈرز تحمل کا مظاہرہ کرتے ہوئے بین الاقوامی قوانین اور اقوام متحدہ کے چارٹر کی روشنی میں مسائل کا حل تلاش کریں۔ہم نے اقوام متحدہ سیکورٹی کونسل سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ اپنا کردار ادا کریں۔ ہم پیش گوئی کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں کہ کل کیا ہو گا لیکن ہم صورتحال کا بغور جائزہ لے رہے ہیں۔ہم نے وزارت خارجہ میں ٹاسک فورس قائم کی ہے۔ میں ایوان سے گزارش کروں گا کہ اپنا مثبت کردار ادا کریں اگر آپ کے پاس کوئی مثبت تجاویز ہیں تو سامنے لائیں۔ وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا ہے کہ ہماری پوزیشن بالکل واضع ہے، ہم خطے میں امن ، استحکام اور سلامتی کے لئے کھڑے ہیں۔ سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر انہوں نے لکھا کہ تمام شراکت داروں کے ساتھ ٹیلی فونک رابطے میں اس بات کا اعادہ کیا گیا کہ کشیدگی کو دور کرنے کے لئے متحرک سفارتکاری وقت کی ضرورت ہے۔ تشدد سے گریز کیا جانا چاہئے اور اس کیلئے ہم اپنی کوششیں جاری رکھیں گے۔ وفاقی وزیر برائے پارلیمانی امور سینیٹر اعظم سواتی نے کہا ہے کہ حکومت ایران امریکہ کشیدگی کی صورتحال سے بخوبی آگاہ ہے اور اس پر مکمل نظر رکھے ہوئے ہے۔ پیر کو ایوان بالا کے اجلاس کے دوران اظہار خیال کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ایران امریکہ کشیدگی کے حوالے سے صورتحال مسلسل تبدیل ہو رہی ہے۔ سینٹ میں قائد ایوان سینیٹر شبلی فراز نے کہا کہ وزیر خارجہ شاہ محمود دو ٹوک اور واضح انداز میں ایوان کو اس صورتحال سے آگاہ کر چکے ہیں، تمام متعلقہ فریقین سے رابطے میں ہیں، حکومت کو اپنی ذمہ داری کا احساس ہے، صورتحال کے مطابق حکمت عملی بنا رہے ہیں۔ اس موقع پر سینٹ میں قائد حزب اختلاف راجہ ظفر الحق نے کہا ہے کہ پاکستان کو ایران امریکہ تنازعہ میں موثر کردار ادا کرنا چاہیے انہوں نے کہا کہ پاکستان کو اس معاملے پر مختلف ممالک کے ساتھ رابطے کر کے مستقبل کی حکمت عملی تشکیل دینی چاہیے، اس معاملے پر تفصیلی بحث کرائی جائے، ایوان کا ان کیمرہ اجلاس بھی بلایا جا سکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کو کشمیر اور اسلامو فوبیا جیسے مسائل کا سامنا ہے۔ اس تناظر میں موجودہ صورتحال میں پاکستان کو بڑا کردار ادا کرنا چاہیے۔
اسلام آباد (وقائع نگار خصوصی) وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے ہم اپنی سرزمین کسی کو استعمال کرنے کی اجازت نہیں دیں گے، حکومت نے سروسز ایکٹ میں ترامیم کی منظوری کی حکمت عملی بھی طے کرلی ہے پیر کو وزیراعظم عمران خان کی زیر صدارت اعلیٰ سطحی اجلاس ہوا جس میں شاہ محمود قریشی، شفقت محمود، اسد عمر، شیریں مزاری، سپیکر و ڈپٹی اسپیکر قومی اسمبلی اور چیف وہپ شریک ہوئے اجلاس میں وزیر خارجہ نے مشرق وسطیٰ کی تازہ صورتحال پر بریفنگ دی شاہ محمود قریشی نے جواد ظریف اور عالمی رہنماؤں سے ہونے والی گفتگو سے اجلاس کو آگاہ کیا اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ پاکستان اپنی سر زمین کسی کو استعمال کرنے کی اجازت نہیں دے گا خطے میں کشیدگی کم کرنے کے لیے پاکستان اقدامات جاری رکھے گا، اجلاس میں سروسز ایکٹس میں ترامیم کے معاملے پر حکومتی حکمت عملی طے کرلی گئی، وزیراعظم نے چیف وہپ عامر ڈوگر کو کل تمام اراکین کی حاضری یقینی بنانے کا ٹاسک سونپ دیا وزیراعظم عمران خان کل پارلیمانی پارٹی اجلاس کی صدارت کریں گے وزیراعظم کا کل قومی اسمبلی اجلاس میں بھی شرکت کا امکان ہے۔