تاریخی لحاظ سے جائزہ لیا جائے تو یہ حقیقت آشکار ہوتی ہے کہ ہندوؤں کے مذہبی تعصب ، قومی عصبیت اور مسلمانوں سے نفرت کے بطن سے دو قومی نظریہ نے جنم لیا ہے۔ ہندوستان میں مسلمان دشمنی کا نقطہ آغاز ہے جب پہلے ہندو نے اسلام کی حقانیت سے آگاہی کے بعد اس کی صداقت کو تسلیم کیا اور حلقہ بگوش اسلام ہوگیا۔ وقت گزر نے کے ساتھ مسلمان دشمنی کی چنگاری، شعلہ میں بدلتی گئی اور ہندوستان جب پاکستان اور بھارت کی صورت میں تقسیم ہو گیا تو یہ شعلہ آگ بن گیا ۔ بھارت میں راشٹریا سیوک سنگھ (آر ایس ایس ) کے سیاسی شعبہ بھارتیہ جنتا پارٹی(بی جے پی) کے اقتدار میںآ نے کے بعد یہ آگ دہکتے الاؤ میں تبدیل ہو گئی۔ آج بھارت میں مسلمانوں کا امن و سکون ہی نہیں جان و مال بھی اسی الاؤ کی زد میں ہے۔
اب سے تقریباً دس سال پہلے ایک ہندو لڑکی نے اپنی مرضی سے ایک مسلمان لڑکے سے شادی کی تو علاقے کی ہندو آبادی میں ہا ہا کار مچ گئی۔ بعض ہندو تنظیموں نے اسلام دشمنی میں اسے ’لو جہاد‘ کا نام دے کر مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیز مہم شروع کر دی۔ 2018 میں ایک ہندو لڑکی اکھلا اشوکن نے مسلمان لڑکے سے شادی کی تو اس لڑکی کے باپ کے ایما پر لڑکے کے خلاف زبردستی مذہب تبدیل کروا کر شادی کرنے کا مقدمہ درج کرایا گیا حتیٰ کہ نیشنل انویسٹی گیشن ایجنسی (این آئی اے) نے ہندو توا تنظیموں کی ہاں میں ہاں ملاتے ہوئے الزام عائد کیا کہ اکھلا اشوکن جس کا اسلامی نام ہادیہ ہے برین واشنگ اور سائیکالوجیل اغوا کاری کی وجہ سے مسلمان ہوئی ہے۔ تاہم مارچ 2018ء میں بھارتی سپریم کورٹ نے فیصلہ سناتے ہوئے قرار دیا کہ آزادی کی بنیاد میں سرکار یا سماج کا پدری نظام اس میں مداخلت نہیں کر سکتا۔ واضح رہے ہادیہ نے عدالت میں بیان دیا تھا کہ وہ تبدیلی مذہب کا آئینی حق رکھتے ہوئے مسلما ن ہوئی ہے اور بالغ ہونے کی بنیاد پر اپنی مرضی سے شادی کی ہے۔ جس پر عدالت عظمیٰ نے لڑکے کے خلاف مقدمہ خارج کر دیا ۔ اسی طرح کیرالہ پولیس کی تحقیقات میں ’لو جہاد‘کا الزام جھوٹا ثابت ہوگیا۔ ان تحقیقات کی روشنی میں کیرالہ ہائی کورٹ نے فیصلہ دیا کہ ہمارے سماج میں بین المذاہب شادی معمول کی بات ہے یہ کوئی جرم نہیں۔
علاوہ ازیں اتر پردیش کے ضلع شاہجہان پور میں ایک 27 سالہ نوجوان ، اس کے ماں باپ ، تین بھائی، بہنوں اور دیگر تین افراد کے خلاف غیر قانونی تبدیلی مذہب کے مقدمات درج کئے گئے ہیں۔ خبر رساں ایجنسی آئی اے این ایس کے مطابق ان مقدمات میں عصمت دری اور جنسی استحصال کے الزامات بھی شامل کئے گئے ہیں۔ بی جے پی کے دور میں اس قانون کے تحت اب تک دس مسلمان نوجوانوں کے خلاف مقدمات درج ہو چکے ہیں۔ مسلمانوں کو بدنام کرنے کیلئے ’لو جہاد‘ کا ہوا کھڑا کیا جا رہا ہے اور اس طرح بھارت میں نفرت اور دشمنی کے بیج بوئے جا رہے ہیں جن سے لازمی طورپر انتشار، عدم استحکام اور سلامتی کے تباہ کن نتائج کی فصل ہی اگ رہی ہے۔ اتر پردیش کے بعد مدھیہ پردیش میں بھی ’لو جہاد‘ کا قانون نافذ کر دیا گیا ہے۔ بی جے پی کی صوبائی حکومت کو اتنی جلدی تھی کہ اسمبلی کے اجلاس کا انتظار کرنے کی بجائے گورنر کے ذ ریعے آرڈیننس کی صورت میں نافذ کیا گیا ہے۔ ’لو جہاد‘ کو ناقابل ضمانت جرم قرار دیا گیا ہے۔ ہندو تعصب و عصبیت میں لتھڑی تنظیموں میں ایک جسے ہندو توا آئیڈیالوجی کی سرکردہ تنظیم کی شہرت حاصل ہے ۔ر اشٹریا سویم سیوک کے ہندی ترجمان ’پانچ جنیہ‘ میں ایک ٹائٹل سٹوری ’پیار کا اسلامی قتل‘ کے عنوان سے شائع کی گئی ہے۔ اس سٹوری میں پروپیگنڈہ کیا گیا ہے کہ مسلمان نوجوان نام بدل کر ہندو لڑکی کے قریب آتے ہیں پھر اسے محبت کے جال میں پھنسا کر مذہب تبدیل کراتے ہیں اور شادی رچا لیتے ہیں پھر آگے چل کر کسی دوسری ہندو لڑکی کو پھنسا لیتے ہیں۔ حالانکہ سروے کے مطابق اب تک جتنی ہندو لڑکیوں نے مسلمان لڑکوں سے شادی کی ہے وہ انتہائی خوشگوار ازدواجی زندگی گزار رہی ہیں اور ان میں ناچاقی اور علیحدگی کی ایک بھی مثال پیش نہیں کی جا سکی۔
ادھر نوبل انعام یافتہ امرتیہ سین نے جن ریاستوں میں بی جے پی کی حکومتیں ہیں وہاں ’لو جہاد‘ کے نام سے نافذ کردہ قانون کو بھارتی آئین سے متصادم قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ انسانی حقوق کی خلاف ورزی پر مبنی اس قانون پر سپریم کورٹ کو مداخلت کرنی چاہیے۔ ایک غیر ملکی ٹی وی چینل کو دیئے گئے انٹرویو میں امرتیہ سین نے کہا کہ جہاں محبت ہے وہاں ’جہاد‘ نہیں ہے۔ محبت ایک ذاتی حق ہے اس میں کسی طور مداخلت نہیں کی جا سکتی۔ اس قانون کو غیر آئینی قرار دینے کیلئے سپریم کورٹ میں مقدمہ درج کرانا چاہیے۔ انسانی حقوق کی تنظیمیں آگے بڑھیں۔ یہ ہندوستان کی ثقافت نہیں آئین کے بھی سراسر خلاف ہے۔ اکبر بادشاہ کے دور میں بھی یہ قاعدہ تھا کہ کوئی بھی مذہب اختیار کیا جا سکتا ہے۔ کسی سے بھی شادی کی جا سکتی ہے۔ بی جے پی گاندھی کے سیکولر نظریات کو بھی قبول نہیں کر رہی اگرچہ وہ دکھاوے ہی کے تھے ۔
بھارت میں مسلمانوں کے خلاف نفرت اور تعصب کے زیر اثر زیادتی کی شرمناک مثال مدھیہ پردیش کے شہر اجین میں دیکھنے میں آئی جہاں شہری انتظامیہ کے ہندو حکام اور اہلکاروں نے عبدالرفیق نامی مسلمان کا دو منزلہ گھر منہدم کر دیا۔ شہر میں چند روز قبل بعض شر پسندوں نے ایک مسجد پر پتھراؤ کیا جس سے شہر میں تناؤ کی کیفیت تھی اس دوران بھارتیہ جنتا یوما مورچہ نامی ایک تنظیم نے مندر کیلئے چندہ جمع کرنے کے سلسلے میں جلوس نکالاجس پر عبدالرفیق کی ہندو پڑوسن میرا بائی کے گھر کی چھت سے چند پتھر آکر گرے۔ ہندی نیوز پورٹل ’جن سننا‘ میں شائع شدہ رپورٹ کے مطابق جب پولیس کو پتہ چلا کہ میرا بائی ایک ہندو ہے تو اس کی بجائے پڑوسی عبدالرفیق کو ذمہ دار قرار دے کر اس کا دو منزلہ گھر گرا دیا گیا۔ میرا بائی نے اس پر احتجاج کیا اور کہا کہ عبدالرفیق کا کوئی قصور نہیں۔ انتظامیہ نے اس کی بیوی نفیسہ اور بیٹیوں کی کوئی بات نہیں سنی۔ عبدالرفیق دہاڑی دار مزدور ہے اس نے 35 سال میں پائی پائی جوڑ کر یہ گھر بنایا تھا جو ہندو تعصب و زیادتی کی بھینٹ چڑھ گیا۔ میرا بائی نے کہا کہ اگر عبدالرفیق پر شک تھا تو اسے گرفتار کر کے تفتیش کی جاتی، گھر مسمار کرنا زیادتی ہے۔ مزید زیادتی یہ کہ عبدالرفیق کو جرم بے گناہی کی سزا دینے کے بعد بھارتیہ جنتا یوما مورچہ کے کہنے پر اس علاقے بیگم باغ کی دو خواتین حنا اور یاسمین کے خلاف پتھراؤ کا مقدمہ درج کر کے ان کی گرفتاری کیلئے چھاپے مارے جا رہے ہیں۔ سوال پیدا ہوتا ہے اگر یہ خواتین ذمہ دار ہیں تو عبدالرفیق کا گھر کیوں گرایا گیا۔ اور اگر عبدالرفیق کی چھت سے پتھراؤ ہوا تو یہ دوخواتین کیسے قصوروار ہوگئیں۔ کہا جاتا ہے کہ محلے کی ان دونوں خواتین نے میرا بائی کے ساتھ عبدالرفیق کا گھر مسمار کرنے پر احتجاج کیا تھا۔ جس پر میرا بائی کو ہندو ہونے کی وجہ سے چھوڑ دیا گیا جبکہ حنا اور یاسمین کو مسلمان ہونے کی وجہ سے قصور وار قرار دے دیا گیا۔
٭…٭…٭