الماتی، ماسکو (اے پی پی، نیٹ نیوز، بی بی سی، نوائے وقت رپورٹ) قازقستان میں کابینہ کی برطرفی کے باوجود پر تشدد مظاہروں کا سلسلہ نہ رک سکا۔ حالات کشیدہ ہیں، جھڑپوں میں متعدد افراد ہلاک اور 1000 زخمی ہوگئے۔400 ہسپتالوں میں زیر علاج، 62 کی حالت تشویشناک ہے۔ سیاسی انتشار اور دنگے فساد جاری ہیں، عوامی غصہ کم نہ ہوسکا۔ مظاہرین نے سرکاری دفاتر اور پولیس کی گاڑیوں کو آگ لگا دی۔ روسی میڈیا کے مطابق مظاہرین کے ہاتھوں18 سکیورٹی اہلکار ہلاک 748 زخمی ہوگئے۔ زخمیوں کے تعداد سینکڑوں میں ہے۔ پولیس چیف نے کہا انتہاپسند مظاہرین کی صفوں میں شامل ہوچکے ہیں۔ صورتحال پر قابو پانے کے لیے فوج پولیس کی مدد کے لیے پہنچ چکی ہے۔ حالات معمول پر آنے تک ملک میں غیرملکیوں کے داخلے پر بھی پابندی لگا دی گئی۔ سب سے بڑے شہر الماتی میں رات بھر انتظامی عمارتوں پر دھاوا بولنے کی کوشش کی گئی۔ قازق صدر کی درخواست پر روس نے اپنے دستے بھیج دیئے۔ سی ایس ٹی او نے تصدیق کی زمینی دستوں کے علاوہ فضائی دستے بھی قازقستان جائیں گے۔ روسی ذرائع ابلاغ کی ایک ویڈیو میں دستوں کو ایک فوجی ٹرانسپورٹ طیارے میں سوار ہوتے دیکھا جا سکتا ہے۔ قازق صدر قاسم ماجورت نے مظاہرین کو بیرون ملک سے تربیت یافتہ دہشتگرد گروہ قرار دیا ہے۔ امریکی سیکرٹری خارجہ انٹونی بلنکن نے قازق ہم منصب سے ٹیلی فون پر رابطہ کیا۔ بدامنی کے پرامن حل پر زور دیا اور قازقستان میں میڈیا کی آزادی کا احترام کرنے کا بھی مطالبہ کیا۔
قازقستان
قازقستان مظاہرے بے قابو جھڑپیں متعدد افراد ہلاک روس نے فوج بھیج دی
Jan 07, 2022