پچھلے دنوں لاہور آ یا توحسبِ معمول گیت نگار تنویرؔ نقوی کے صاحب زادےؔ سے بیٹھک ہوئی۔طے پایا کہ نعیم وزیر سے اُس کے اسٹوڈیو میں ملاقات کی جائے۔نعیم معروف فلمی موسیقار جوڑی بخشی وزیر میں، وزیر حسین کے بیٹے ہیں۔اس ملاقات میں ایسی متاثر کن باتیں ہوئیں کہ بیساختہ لکھنے پر مجبور ہو گیا ۔ہر ایک بچے کا آئڈیل اُس کا باپ ہوتا ہے۔اگر واقعی اُس کے والد میں ایسی خوبیاں ہوں تو نہ صرف وہ اولاد ہی خوش قسمت ہوتی ہے بلکہ ایسے سچے انسان سے فیض اٹھانے والے دوسرے لوگوں میں اس سچائی کی خوشبو رس بس جاتی ہے۔ میں بھی آج پاکستان فلم انڈسٹری کی معروف موسیقار جوڑی بخشی وزیر صاحبان کا ذکر کرتا ہوں۔وزیر حسین اپنے چچا، استاد چھوٹے عاشق علی خان کے ساتھ ریڈیو پر پروگرام کر تے تھے۔ جیسے استاد سلامت علی خان اور استاد نزاکت علی خان ، استاد امانت علی خان اور استاد فتح علی وغیرہ۔ ایک دن یہ گھر سے نکلے تو چائے کے کھوکھے سے ریڈیو پر کوئی کلاسیکل گانا نشر ہو رہا تھا اور کچھ لوگ چائے پی رہے تھے۔ یہ دونوں رک کر سننے لگے ۔اتنے میں وہاں موجود ایک شخص نے کہا کہ کیا بھاں بھاں لگا رکھی ہے۔ کوئی فلمی گانا لگائو !! ایک لمحہ میں ان کو اندازہ ہو گیا کہ پبلک تو وہ چیز چاہتی ہی نہیں ہے جو میں کر رہا ہوں۔ یہ ہی اُن کی زندگی کا وہ موڑ ہے جب انہوں نے فیصلہ کیا کہ وہ کرنا چاہیے جو پبلک چاہتی ہے۔ یہ طے کر لیا کہ اب میں فلمی موسیقار بنوں گا ۔ ان کے اس فیصلے کی بہت مخالفت ہوئی جس کو انہوں نے خندہ پیشانی سے جھیلا۔ اِن کی ایک پھوپھو زاد بہن کے میاں ، بخشی صاحب تھے جو اسکول کے زمانے سے نعت خواں تھے۔ اِن کو بخشی صاحب ہارمونیم پر نعتیں یاد کرواتے تھے۔ جس وقت انہوں نے فلموں میں موسیقار بننے کی ٹھانی اُس وقت بخشی صاحب موسیقار طالب جعفری صاحب کے اسسٹنٹ تھے۔ وہ بخشی صاحب سے ملے اور پھر دونوں نے مل کر کام شروع کر دیا۔کوئی چار پانچ فلمیں کیں لیکن کوئی پذیرائی نہ مل سکی۔ یوں ہوتے ہوتے فلم ’’
اَت خُدا دا وَیر ‘‘ کے ریلیز کا دِن آن پہنچا۔ اُس وقت تک اُن کی کوئی فلم ہٹ نہیں ہوئی تھی۔ انہوں نے اس فلم پر بے حد محنت کی تھی۔پھر اس میں تنویرؔ نقوی جیسا نام بھی تھا، اللہ ان کے درجات بلند فرمائے۔سوچتے تھے کہ اتنے بڑے گیت نگار کا کام اپنے نام کے ساتھ لگایا ہے اب اگر فلم ہٹ نہ ہوئی تو یہ بہت شرمندگی کی بات ہو گی۔ تین بجے وہ فلم لگی۔ تقریباََ ساڑھے چھ بجے اُن کے گھر کے عین نیچے، مرحوم مظہر شاہ کی آواز گونجی ’ او آ جا یار !! تیری فلم سُپر ہٹ ہو گئی ہے ‘۔ یہ وزیر حسین اور بخشی کے خاندان کی پہلی خصوصی خوشی تھی جس کو دھوم دھام سے منایا گیا۔ اس کے بعد پھر پے در پے کامیابیوں کے سلسلے شروع ہو گئے۔ انہوں نے سخت جدوجہد کی تھی پھر اللہ تعالیٰ نے ان کو عروج دیا۔
مجھے وزیر حسین صاحب کی سب سے خوبصورت بات یہ لگی کہ جو اُن کی ریکارڈنگ میں آ گیا خواہ انہوں نے اُس میوزیشن کو بلایا بھی نہ ہواُس کو ریکارڈنگ میں بٹھا لیتے ۔ ایک ایسا ہی واقعہ اسٹیج کے نامور فنکار عابد خان نے پی ٹی وی کے کسی پروگرام میں خود بتا یا ۔ وہ پرویز مہدی صاحب کے بڑے اچھے دوست تھے۔ اُن کو بھی گانے کا شوق تھا۔ پرویز مہدی صاحب کو گولڈن جوبلی فلم ’’ بنارسی ٹھگ ‘‘ (1973) میں کسی گانے کے لئے وزیرحسین صاحب نے بلوایا۔ عابد خان بھی اُن کے ساتھ ہارمونیم اُٹھا کر آ گئے۔والد صاحب نے عابد خان کو دیکھا اور اُس کی حالت سمجھ گئے۔ پرویز مہدی سے پوچھا کہ یہ کیا کرتا ہے۔ اُس نے کہا کہ اچھا گاتا ہے ۔ یہ سنتے ہی انہوں نے کہا کہ سب کام بند کرو جب کہ وہ میوزشنوں کو پیس یاد کروا رہے تھے۔ میوزشن پریشان ہو گئے اور پوچھا کہ کیا ہوا ؟ کہا کہ اب یہ گانا ’ کورس ‘ ہو گا۔ وہ کہنے لگے کہ یہ تو آپ نے ’ سولو ‘ رکھا تھا۔ کہنے لگے اس بچے کو دیکھ کر لگتا ہے کہ بہت اچھا گائے گا۔ میں اس سے کورس کروائوں گا۔ عابد خان بتاتے ہیں کہ ریکارڈنگ کے مجھے 300 روپے ملے۔ اُس دور میں کورس والوں کو 50 روپے ملتے تھے۔ میں وہاں سے بھاگا اور سیدھا داتا دربار آیا ۔ یہاں میں نے تین ماہ سے کپڑے ڈرائی کلین کو دیئے ہوئے تھے کیوں کہ اپنے پاس تو کھانے کے بھی پیسے نہیں تھے۔ نہا دھو کر سیدھا گوجرانوالا پہنچا ۔ جب اپنے گھر کا دروازہ کھٹکھٹایا تو میری ماں نے دروازہ کھولا اور چیخ مار کے روئی۔اور کہا عابد !! میں تو سمجھی کہ تو مر گیا ہو گا !! میں نے کہا کہ ماں ایک شخص وزیر حسین ہے ، بخشی وزیر !! اُسے دعا دے کیوں کہ وہ نہ ہوتا تو تیرا بیٹا مر ہی گیا تھا۔ اُس شخص نے مجھے پیسے دیئے اور میں تیرے پاس آیا۔ اس ٹی وی پروگرام میں عابد خان نے بتایا کہ میں وزیر حسین کا یہ احسان ساری زندگی نہیں بھول سکتا ۔ ایک اور قصہ یہ کہ پاکستان کی پہلی رنگین پنجابی فلم ’’ پنج دریا ‘‘ (1968) کا گانا ریکارڈ ہو رہا تھا ۔اتنے میں تایا بخشی نے میرے والد سے کہا کہ ایک شخص آیا ہے لیکن میوزشنوں میں گنجائش ہی نہیں۔ انہوں نے کہا بخشی یار ہو سکتی ہے !! چلو سوچتے ہیں۔ انہوں نے ایک مائیک لگوایا اور واش روم سے پانی کا ٹب اور ایک ڈبا منگوا کر آنے والے سے کہا کہ تو اِس ’ ٹیمپو ‘ یعنی چال میں مگے سے پانی نکال کر واپس ٹب میں ڈالتا جا۔ وہاں موجود فلم کے ڈائریکٹر نے پوچھا کہ وزیر صاحب یہ کہا کر رہے ہو ؟ انہوں نے کہا کہ آپ نے بتایا ہے کہ ہیروئین کنواں سے پانی نکالتے ہوئے گانا گا رہی ہے۔ اب اس ٹب میں پانی گرنے کی آواز سے اصل کوئیں سے پانی نکالنے کا تاثر ملے گا۔ اس پر ڈائریکٹر نے کہا واہ وزیر صاحب کیا سوچ ہے!! حالاں کہ یہ صرف اُس شخص کو کام دینے کے لئے کیا گیا ۔ کئی دفعہ تو ایسا بھی ہوا کہ ہم فلم کا گانا کر کے فارغ ہوئے تو فلمساز نے کہا کہ میری آپ سے اتنے بجٹ کی بات ہوئی تھی اب یہ بجٹ زیادہ ہو گیا۔تو میں اور بخشی نے اپنے پیسے اُن لوگوں کو دے دیئے۔ اُن کے اسسٹنٹ باقر حسین (جو بخشی صاحب کے چھوٹے بھائی ہیں) نے بتایا کہ ایک دفعہ ہم فلم کا گانا کر کے آ رہے تھے ۔ بخشی اور وزیر دونوں اپنے پیسے میوزشنوں میں بانٹ آئے۔ بخشی صاحب اسٹوڈیو کے باہر گفتگو کر رہے ہیں کہ یار اب ہمارا کیا ہو گا ؟ وزیر صاحب نے کہا کہ بخشی تیرے گھر روٹی پکی ہوئی تھی ؟ جواب دیا کہ ہاں ! انہوں نے کہا میرے گھر میںبھی پکی ہوئی ہے۔ یار ہمارے پیسوں سے میوزشنوں کے گھر روٹی پک جائے گی !! ہمیں کیا فرق پڑ ے گا !! بخشی صاحب، وزیر حسین اور اس قبیل کے دیگر قابلِ فخر پاکستانی ہمارے لئے ایک روشن مثال ہیں !!