نیا سال ، پرانے مسائل 

Jan 07, 2022

2021 عالمی سطح پر ایک تبدیلی کے برس کے طور ظہور پذیر ہوا ۔کرونا کے آغاز اور دنیا بھر پھیلائو نے تمام دنیا کے نظام کو بدل کر رکھ دیا ۔صحت کے بدلتے ہوئے اصولوں ، عالمگیر حالات ، مسلسل لاک ڈائون نے عوام کی مالی حالت مکمل طور پر بدل دی ۔ ان گنت لوگوں نے اس مرض کی وجہ سے جان کی بازی ہار دی جن میں ڈاکٹر ، نرسیں اور پیرا میڈیکل سٹاف  بھی شامل رہے ۔ کروناوائرس کی تین لہروں کے بعد اومنی کرون وائرس کے مرض کے آغاز نے نئے چیلجز پیدا کر دیے ہیں ۔حکومت کے لیے یہ ایک نیا چیلنج ہو گا ۔ مزید لاک ڈائون عوام میں بے چینی پیدا کر دے گا ۔اگرچہ انصاف صحت کارڈ کا اجراء حکومت کی جانب سے ایک احسن اقدام تھا لیکن عوام کی اکثریت اس کے فوائد حاصل میں کامیاب نہ ہو سکی ۔  2021میں تمام اقوام ِ عالم کرونا اور کرونا سے پیدا ہونے والے حالات سے نبرد آزما رہی جس میں پاکستان بھی شامل ہے ۔ تمام ممالک کی معاشیات ان حالات کی وجہ متاثر ہوئی ۔مسلسل لاک ڈائون نے بڑے بڑے ادارں کو جھٹکا دے ڈالا ، ان اداروں نے مالی نقصان اٹھانے کی وجہ سے اپنے سٹاف میں بڑی حد تک کمی کر دی ۔ ان گنت افراد کو اپنی نوکریوں سے ہاتھ دھوناپڑاجبکہ چھوٹے دوکان داروں کو خاصا نقصان اٹھانا پڑ ایہاں تک کہ کئی کاروبار ختم ہو گئے ۔دوسری طرف ، نئے کاروبار یا نوکری کا حصول بے انتہا مشکل ہو گیا ۔ حکومت کے اقدامات ملک گیر بے روزگاری کو کم کرنے میں ناکام ہوگئے بلکہ کرونا کی وجہ سے ختم ہونے کی وجہ سے بے روزگاری  میں اضافہ ہوا ۔ اگرچہ کچھ لوگ بزنس کو آن لائن کرنے کی کوشش کی لیکن چونکہ پاکستان میں آن لائن کاروبار پر اعتبار کی کمی ہے اور لوگوں کی قیمت خرید میں بھی کمی ہوئی جس کی وجہ آن لائن کاروبار میں بھی کامیابی نہ ہو پائی۔اگر اومنی کرون کا وائرس عالمی سطح پر پھیل جاتا ہے اور دوبارہ سے حکومت کو لاک ڈائون کی طرف جانا پڑا تو یہ کاروبار بلخصوص چھوٹے کاروبار کو دھچکا لگے گا ۔2021 نے تمام  ممالک بشمو ل پاکستان میں لاک ڈائون کی وجہ سے سکولوں کی بندش نے تعلیم کو بھی ایک نیا رخ دیا۔پرائیویٹ تعلیمی ادارے اس لاک ڈائون کی وجہ سے  زبوں حالی کا شکار ہو گئے اساتذہ کی کثیر تعداد کو اپنی نوکری سے ہاتھ دھونا پڑے ۔تعلیمی اداروں کو طریقہ تعلیم ، آن لائن اور فاصلاتی کرنا پڑا۔ آن لائن طریقہ تعلیم نے جہاں ان حالات میں تعلیم کو ایک الگ رخ سے روشناس کروایا وہاں غریب  اور امیر کے بچوں کے درمیان ایک واضع لکیر کھینچ گئی ۔ کیونکہ تعلیم کے لیے زوم اور وٹس ایپ کے پروگرامز کا استعمال کیا گیا جن کے لئے بہتر ین موبائل کی ضرورت تھی جو کہ پاکستان کی ایک کثیر آبادی کے لیے ممکن نہ تھا۔یہی وجہ تھی کہ پاکستان میں موجود گورنمنٹ سکولوں کے طالب علموں کی بڑی تعداد کی تعلیم بری طرح متاثر ہوئی ۔نیز بچے گھروں میں رہتے ہوئے تعلیم سے دور ہوتے چلے گئے۔دوئم اساتذہ کے لیے بھی تمام بچوں تک رسائی ممکن نہ ہو پائی ۔الغرض تعلیم کا شعبہ مکمل طور پر تبدیل ہو کر رہ گیا۔  حکومت اپنے تمام تر وعدے پورے کرنے میں کامیاب نظر نہیں آتی ۔ یہاں تک کہ تین برس گزر جانے کے باوجود ملزمان کو سزا دلوانے اور لوٹی ہوئی دولت کو واپس ملک میں لانے میں بھی ناکام رہے ہیں ۔آئی ایم ایف کے قرضوں کی شرائط بھی دن بدن سخت سے سخت تر ہوتی جارہی ہیں جس کے اثرات عوام کی طرف منتقل ہو رہے ہیں۔ حالیہ حکومت جو کہ تبدیلی کا نعرہ لگا کر قائم کی گئی تھی وہ تبدیلی تو نہ لا پائی ، بلکہ الٹا مہنگائی کا ایک طوفان برپا کر دیا گیا ۔ اکتوبر سے دسمبر کے تین ماہ میں خام تیل کی قیمتوں میں ۸۱  روپے کا اضافہ خودونوش کی اشیاء ، بجلی ، آمد و رفت میں اضافہ کا سبب بنا نے عام آدمی کا جینا دوبھر کر دیا ۔ خصوصا چینی ، کھانے کا تیل اور دیگر اشیاء کی قیمتیں آسمانوں کو چھونے لگی ہیں۔ ڈالر کی قیمتیں بھی ملکی تاریخ کی بلند ترین سطح پر جا پہنچی ہیں ۔ اسٹاک ایکس چینج میں بھی مندی کا رجحان رہا ۔ منی بجٹ میں  حکومت کی جانب سے دی گئی سبسیڈیز کو بھی ختم کرنے کا عندیہ دیا گیا ہے جو کہ عوام کے لیے مزید پریشان کن ہیں۔ مسلسل بڑھتی ہوئی مہنگائی عوامی سطح پر پی ٹی آئی پر اعتماد میں کمی کا باعث بنی ہے ۔ مہنگائی سے نبرد آزما عوام کے لیے سال کی تبدیلی صرف اور صرف ایک ہندسہ کی تبدیلی 
ہے ۔ نئے سال کا چڑھتا سورج حکومت کے لیے ایک چیلنج کے طور پر ابھرا ہے ۔ حکومت کولوگوں کی توقعات پر پورا اترنے کے لیے مہنگائی کے چیلنج سے نبٹنا ہو گا تاکہ عام آدمی کی زندگی آسانی کی جانب مائل ہو سکے ورنہ عوام کا اعتبار اس حکومت سے اٹھ جائے گاجو کہ  پی ٹی آئی کے لیے آنے والے انتخابات میں ناکامی کا سبب بھی بن سکتا ہے  ۔

مزیدخبریں