معزز قارئین ! 25 دسمبر 2021ء کو اہلِ پاکستان اور بیرون ِ پاکستان ، ’’فرزندان و دخترانِ پاکستا ن ‘‘ نے اپنے اپنے انداز میں بانیٔ پاکستان حضرت قائداعظم محمد علی جناح کی 146 ویں سالگرہ عقیدت و احترام سے منائی تھی اور پھر 4 جنوری 2022 ء کو برصغیر پاک و ہند اور دُنیا کے مختلف ملکوں میں ، جدوجہد آزادی کے سرگرم راہنما صحافی اور شاعر، مولانا محمد علی جوہرکی 91 ویں برسی عقیدت و احترام سے منائی گئی۔ مولانا محمد علی جوہر، بھارت کے صوبہ اُتر پردیش کی ریاست رام پور میں 10 دسمبر 1878ء کو پیدا ہُوئے تھے اور 4 جنوری 1931ء کو بیت اُلمقدس میں آپ کے جسد ِ خاکی کو سپردِ خاک کِیا گیا ۔ مولانا محمد علی جوہرکے والد مرحوم کا نام عبداُلعلی خان تھااور اُنکے پانچ بھائیوں میں سے مولانا شوکت علی خان بھی تحریک آزادی کے نامور قائد تھے ۔ دونوں بھائیوں کو ’’ علی برادران ‘‘ کہا جاتا تھا۔
مولانا محمد علی جوہر کو بچپن ہی سے تعلیمات اسلامی سے گہرا شغف تھا ، ابتدائی تعلیم رام پور اور بریلی میں پائی اور پھر اعلیٰ تعلیم کیلئے سرسیّد احمد خان کے ’’ علی گڑھ کالج یونیورسٹی ‘‘ چلے گئے تھے جہاں سے آپ نے بی اے کا امتحان شاندار کامیابی سے پاس کیا۔ انڈین سول سروس کی تکمیل آکسفورڈیونیورسٹی میں کی اور کئی ریاستوں میں ملازمت کی لیکن پھر اُن کا ملازمت سے دل بھر گیا اور اُنہوں نے کلکتہ سے انگریزی اخبار دی کامریڈجاری کِیااور ایک اردو روزنامہ ’’ ہمدرد ‘‘ بھی ۔
’’ جدوجہد ِ آزادی !‘‘
جدوجہد آزادی میں سرگرم حصہ لینے کے جرم میں مولانا کی زندگی کا کافی حصہ قید و بند میں بسر ہوا۔ تحریک عدم تعاون کی پاداش میں کئی سال جیل میں رہے۔ 1919ء کی تحریک خلافت کے بانی آپ ہی تھے۔ ترک موالات کی تحریک میں گاندھی جی کے برابر شریک تھے۔ جامعہ ملیہ دہلی آپ ہی کی کوششوں سے قائم ہوا۔
’’لندن میں گول میز کانفرنس ! ‘‘
آپ جنوری 1931ء میں گول میز کانفرنس میں شرکت کی غرض سے انگلستان گئے۔ یہاں آپ نے آزادیٔ وطن کا مطالبہ کرتے ہوئے فرمایا کہ اگر تم انگریز میرے ملک کو آزاد نہ کرو گے تو میں واپس نہیں جاؤں گا اور تمہیں میری قبر بھی یہیں بنانا ہوگی۔ اس کے کچھ عرصہ بعد آپ نے لندن میں انتقال فرمایا۔ تدفین کی غرض سے میت بیت المقدس لے جائی گئی۔
’’باب اُلعلم ؓ!‘‘
معزز قارئین ! رسالت مآب صلی اللہ علیہ و آلہ وَسلم ’’ مدینۃ اُلعلم ‘‘ کہلائے توآپؐ نے حضرت علیؓ کو اُن کے علم و فضل کی مناسبت سے ’’ باب اُلعلم ؓ ‘‘ کا خطاب دِیا (یعنی۔ علم کا دروازہ ) ۔دُنیا بھر میں قرآنِ پاک کے بعد مسلمانوں ( اور غیر مسلموں میں بھی )حضرت علی مرتضیٰ ؓ کے خطبات اور فرمودات کا مجموعہ (کتاب ) ’’نہج اُلبلاغہ ‘‘ سب سے زیادہ پڑھی جاتی ہے۔
’’ حدِیث ِچین !‘‘
’’ پیغمبر انقلاب ‘‘ حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وَسلم نے اپنے دَور میں چین ؔکا تعارف کراتے ہُوئے مسلمانوں کو تلقین کی تھی کہ’’ علم حاصل کرو ، خواہ تمہیں چین ہی کیوں نہ جانا پڑے ؟ ‘‘ در حقیقت اُس وقت چین میں کاغذ ایجاد ہو چکا تھا اور لکڑی کے بلاکس (ٹھپّوں) کے ذریعے کتابیں چھپنا شروع ہو چکی تھیں اور یقینا رسالت مآب صلی اللہ علیہ و آلہ وَسلم کو اِس کا ادراک ضرور ہوگا! ‘‘ ۔ علاّمہ اقبال نے بدھ مت کے بانی گوتم بدھ کے حوالے سے اپنی ایک نظم میں کہا تھا کہ ’’
’’دِیار ہند نے جِس دم مری صدا نہ سُنی!
بسایا خطّہ جاپان مُلکِ چین مَیں نے!‘‘
’’جیہدا نبی ؐ مولا اوہدا علیؓ مولا!‘‘
معزز قارئین!18 ذوالحجہ 10 ھجری کو ’’ غدیر خُم‘‘ کے مقام پر ’’ مدینۃ اُلعلم ‘‘ پیغمبر انقلاب صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ’’ باب اُلعلم‘‘ حضرت علی مرتضیٰؓ کا ہاتھ پکڑ کر اپنے خطبے میں فرمایا کہ ’’ جس کا مَیں مولا ہُوں ، اُس کا علیؓ بھی مولا ہے ‘‘۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر فرمایا’’ یا اللہ ! آپ اُس شخص کو دوست رکھیں جو علی ؓ کو دوست رکھے اور جو علی ؓسے عداوت رکھے، آپ اُس سے بھی عداوت رکھیں!‘‘۔
عربی زبان میں مولاؔ کے معنی ہیں۔ ’’ آقا ، سردار ، رفیق‘‘ ۔ مولا علیؓ کے پیروکار کی حیثیت سے ’’ مولائی‘‘ کہلانے والے علاّمہ اقبال نے کہا تھا کہ …
’’بُغضِ اصحاب ِ ثلاثہ نہیں ، اقبال کو!
دِق مگر، اِک خارجی کے ، آ کے مولائی ہُوا!‘‘
’’ مولاعلیؓ اور قائداعظمؒ!‘‘
قیام پاکستان سے پہلے قائداعظم سے کسی صحافی نے پوچھا کہ’’ آپ شیعہ ہیں یا سُنّی ؟ تو ، آپ نے جواب دِیا کہ مَیں تو عام مسلمان ہُوں لیکن، ہم سب مسلمان حضرت علیؓ مرتضیٰ کا یوم ولادت اور یوم شہادت مل کر مناتے ہیں! ‘‘۔ متحدہ ہندوستان کے ہر مسلک کے عُلمائے حق اور گدّی نشین پیران ، اہل سُنت و اہلِ تشیع نے ،قائداعظم کی قیادت میں اور آل انڈیا مسلم لیگ کے پرچم تلّے قیامِ پاکستان کی بھرپور حمایت کی تھی۔
’’نامِ محمد مصطفیٰؐ ،نامِ علیؓ عالی مُقام!‘‘
معزز قارئین ! کئی سال پہلے مَیں نے ’’ بابائے قوم ‘‘ کی عظمت بیان کرتے ہُوئے ایک نظم لکھی تھی ، جس کے چھ شعر عرض کر رہا ہُوں …
نامِ محمد مصطفیٰؐ ،نامِ علیؓ عالی مُقام!
کِتنا بابرکت ہے ، حضرت قائداعظم کا نام؟
جب مُقّدر کُھل گیا، اِسلامیانِ ہِند کا!
قائدِ ذِی شان اُبھرا، صُورتِ ماہِ تمام!
ٹوٹ کر، گِرنے لگے، ہر سُو، اندھیروں کے صَنم!
رَزم گاہ میں ، آیا جب، وہ عاشقِ خَیرُ الانامؐ!
سامراجی مُغ بچے بھی ، اور گاندھیؔ کے سپُوت!
ساتھ میں رُسوا ہوئے، فتویٰ فروشوؔں کے اِمام!
یہ ترا اِحسان ہے ، کہ آج ہم آزاد ہیں!
اے عظیم اُلشان قائد! تیری عظمت کو سلام!
اپنے نصب اُلعین کی، تکمیل کرسکتے ہیں ہم!
قطبی تارے کی طرح ، روشن ہے قائدِ کا پیام!
مولانا محمد علی جوہر نے بے شمار نظمیں اور غزلیں لکھیںجو، مجاہدانہ رنگ سے بھر پور ہیں ۔ اُن کے صرف دو شعر پیش کر رہا ہُوں ملاحظہ فرمائیں …
توحید تو یہ ہے کہ ،خدا حشر میں کہہ دے !
یہ بندہ دو عالم سے، خفا میرے لئے ہے !
قتلِ حسین ؓ اصل میں ، مَرگِ یزید ہے !
اسلام زندہ ہوتا ہے ، ہر کربلا کے بعد !
(جاری ہے )