کراچی علم سے شغف اور ادب سے دل چسپی رکھنے والے کتاب دوست لوگوں کا شہر ہے۔ یہاں آئے دن علمی و ادبی سرگرمیاں اور تقاریب ہوتی رہتی ہیں۔ اکثر ایسے اجتماعات میں کتابوں کے اسٹال بھی لگائے جائے جاتے ہیں۔ پچھلی مرتبہ ایکسپو سینٹر میں ساکنانِ شہرِ قائد کا عالمی مشاعرہ جو کہ گزشتہ کئی برسوں سے ہورہا ہے، اْس میں بھی کتابوں کے اسٹال لگائے گئے تھے۔ اس سے کراچی کے لوگوں کی کتاب سے محبت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے لیکن کراچی کی ایک علمی سرگرمی ایسی ہے جو صرف اور صرف کتاب سے ہی متعلق ہے اور وہ بھی کراچی کی ان ادبی سرگرمیوں میں شْمار ہوتی ہے جو کراچی شہر کے تعارف کا درخشاں باب ہے اور وہ ہے ایکسپو سینٹر میں منعقد ہونے والا بْک فیئر یعنی کْتب میلہ۔
گزشتہ دنوں 16واں کْتب میلہ کراچی ایکسپو سینٹر میں منعقد ہوا۔ یہ میلہ پچھلے سال کووڈ کی وجہ سے نہیں ہوپایا تھا ورنہ یہ بھی ہر سال ہوتا ہے۔ یہ کْتب میلہ اْن چند علمی سرگرمیوں میں سے ایک ہے جو کراچی شہر کا تعارف ہیں۔ یہ میلہ ایکسپو کے تین ہالز میں لگتا ہے۔ ویسے تو یہ تینوں ہالز خاصے وسیع ہیں لیکن کْتب میلے کے دنوں میں ان کی وْسعت ’’ بقدرِ ظرف نہیں تنگناء غزل ‘‘ والا معاملہ ہوتا ہے۔ اس میلے کے دنوں میں شہر بھر کے کتاب دوست افراد یہاں چلے آتے ہیں اور اپنی پسند کی کتابیں خرید کے لے جاتے ہیں۔ کتابوں کے ان شائقین میں ہر عْمر اور ہر ذوق کے افراد شامل ہوتے ہیں۔ چھوٹے بچوں سے لے کر بڑی عْمر کے بزرگوں تک، ہر طرح کے لوگوں کو اپنی پسند کی کتابیں مِل جاتی ہیں۔ اس میلے میں کتاب کے شائقین عام افراد کیعلاوہ بہت نمایاں ادبی شخصیات بھی آتی ہیں نہ صرف کراچی سے بلکہ کراچی سے باہر سے بھی۔
اَس کْتب میلے میں صرف کراچی کے ہی نہیں، اندرون ملک کے ناشران بھی اپنے اِداروں کے اسٹال لگاتے ہیں۔ اس مرتبہ یہاں تینوں ہالز میں کْل 330 اسٹالز تھے۔ نجی اداروں کے علاوہ یہاں سرکاری ادارے بھی اسٹال لگاتے ہیں یعنی ہر وہ سرکاری اور نیم سرکاری ادارہ جس کا تعلق کسی طور کِتاب کی طباعت سے ہو، اس میلے میں شرکت کرتے ہیں مثال کے طور پر اردو سائنس بورڈ، اردو لغت بورڈ، مجلس ترقی ادب، انجمن ترقیء اردو، نیشنل بک فائونڈیشن، سندھ ٹیکسٹ بک بورڈ، آرٹس کونسل وغیرہ۔ اس کے علاوہ متعدد دیگر اسٹالز میں سے چند اسٹالز فکشن ہاوس، الفیصل، قرطاس، اطراف، اٹلانٹس، بدلتی دنیا، اذکار، عکس پبلیکیشنز، جہلم بک کارنر، بچوں کا اسلام گھر، فضلی سنز، ویلکم بک پورٹ، فرید پبلشرز، ساتھی میگزین، ماہ نامہ ذوق و شوق، پیرا مائونٹ، پیراگون، گلیکسی، جنگ پریس، ریڈرز، چلڈرن پبلیکیشز، ادیب آن لائن وغیرہ کے بھی تھے۔ کچھ ناشران نے تو ایک سے زائد اسٹالز لے رکھے تھے۔ ہر اسٹال پہ بے پناہ رش دیکھنے میں آیا۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی مْمکن ہے کہ یہ میلہ چوں کہ دو برس کے بعد منعقد ہوا تو اس لئے بھی لوگوں کا جوش و خروش گزشتہ میلوں سے کہیں زیادہ تھا۔ نیشنل بک فائونڈیشن ہر سال ریڈرز کلب کی ممبر شپ کا اجراء کرتا ہے۔ یہ ممبر شپ کتب میلے میں لگائے جانے والے ان کے اسٹال پر بھی حاصل کی جاسکتی ہے۔ اس مرتبہ جب لوگ ممبر شپ کے لئے ان کے اسٹال پر پہنچے تو معلوم ہوا کہ اب انھوں نے یہ سلسلہ ختم کردیا ہے۔ اس ممبرشپ اسکیم سے لوگوں کو فائدہ یہ ہوتا تھا انھیں کتاپیں پچپن فیصد رعایت پہ مِل جایا کرتی تھیں۔ اس اسکیم کو ختم کرنا بہت غلط ہے۔ اسے دوبارہ جاری کرنا چاہیئے ۔
میلہ جتنے بھی دن کا ہو یہاں لوگوں کا بے پناہ ہجوم ہوتا ہے اتنا کہ کھوے سے کھوا چِھلتا ہے اور چھٹی کے دن تو وہ عالم ہوتا ہے کہ کسی بھی ہال میں قدم رکھنے کی گنجائش نہیں ہوتی ہے۔ کتابوں کے اسٹال پہ لوکوں کا یہ ہجوم دیکھ کے بیحد خْوشی ہوتی ہے کہ لوگوں کو کتاب سے اِس قدر مْحبت ہے کہ وہ اپنی دیگر مصروفیات تج کر اِس کتب میلے میں چلے آتے ہیں اگرچہ کْچھ ایسے لوگ بھی یہاں نظر آتے ہیں کہ جن کو دیکھ کے محسوس ہوتا ہے کہ وہ کتابیں خریدنے سے زیادہ رونق میلہ دیکھنے کے لیئے آئے ہیں۔ اس بات کا ایک پہلو اور بھی ہے کہ ہمارے یہاں ایک عام فرد کی سماجی زندگی بہت بیرنگ، بے کیف اور یکسانیت زدہ ہے۔ آج کی زندگی بے حد مصروف، بے حد دشوار گزار اور اعصاب شکن ہے۔ دن بھر کی مْشقّت سے تھکے ہارے لوگ خود کو پرسکون کرنے کے لیئے کوئی ہلکی پھلکی تفریح یا کسی اچھی محفل میں کچھ وقت گزارنا چاہتے ہیں تاکہ خود کو پرسکون کرسکیں۔ ہمارے یہاں ایک عام آدمی کے لیئے تفریح کے مواقع محدود ہیں۔ رقم خرچ کرکے ہر چند دن بعد تفریح کرنا بھی ہر ایک کے لیئے ممکن نہیں۔ بالاآخر متوسط آبادی کے علاقوں میں تو پارک ہیں کہ جہاں شام کے اوقات میں لوگ سبزہ زار میں وقت گزار کے ذہنی سکون حاصل کرتے ہیں لیکن متوسط اور نچلے متوسط طبقے کے لوگوں کو اپنے علاقوں میں فیملی پارک جیسی مفت تفریح میسر نہیں۔ پھر ہوتا یوں ہے کہ شہر میں جب ایسی کوئی سرگرمی ہوتی ہے تو ادب سے وابستہ اور کتاب کے شائقین کے علاوہ بھی ایسے لوگ بھی آتے ہیں اور کچھ وقت کے لیئے اپنے مسائل اور مصروف زندگی کے دبائو کو ذہن سے نکال دیتے ہیں۔ اسے لوگ جو یہاں بطورِ خاص کتاب خریدنے کے لیئے نہیں آتے صرف کتابوں
کا جائزہ لینے یا وقت گزاری کے لیئے بھی آتے ہیں کہ دیکھیں یہاں کیا ہورہا ہے، وہ جب یہاں ہر اسٹال پہ ہر موضوع کی دل چسپ کتابیں دیکھتے ہیں تو کوئی نہ کوئی کتاب خرید ہی لیتے ہیں اور اکثر تو ایک سے زائد کْتب ہی خریدتے ہیں۔ اس اعتبار سے ایسے کْتب میلوں کو صحت مند سرگرمی کہا جاسکتا ہے۔ ہمارے معاشرے کے لیئے کہ جہاں لوگ بہت ذہنی تنائو کا شکار رہتے ہیں، ایسی مفید اور صحت مند سرگرمیاں بیحد ضروری ہیں۔ یہ کتب میلہ تو خیر بہت بڑے پیمانے پر ہوتا ہے اور بقول رازداران کہ ملک بھر میں لگنے والے ہر میلے سے زیادہ یہاں کتابیں فروخت ہوتی ہیں۔ یہ میلہ سال میں ایک مرتبہ لگتا ہے لیکن ایسے کتب میلے کا انعقاد ہر چھ ماہ بعد ہو تو بہت اچھا ہو۔ لوگوں میں کتاب خریدنے، کتاب پڑھنے کی عادت مزید پختہ ہوگی۔ جو معاشرہ کتاب سے محبت کرتا ہے وہ بہت مہذب اور بہت شائستہ ہوتا ہے۔ ایک اچھی کتاب انسانی شخصیت کے مثبت پہلوئوں کو ابھارتی ہے بلکہ یوں کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ ایک اچھی کتاب انسان کی اچھی شخصیت کی تعمیر میں نہایت اہم کردار ادا کرتی ہے۔
اس کتب میلے کی سب سے اچھی بات یہ ہے کہ اس میں تقریباً ہر اسٹال پہ کتابیں رعایتی قیمت پہ دستیاب ہوتی ہیں۔ کسی اسٹال پہ تمام کتابیں رعایتی قیمت پہ اور کسی اسٹال کا ایک گوشہ رعایتی قیمت کی کتابوں کے لیئے مخصوص تھا۔ یہ رعایت 10 فیصد سے لے کر پچاس فی صد تک تھی یعنی بہترین کتابیں نصف قیمت پر بھی دستیاب تھیں۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ جیسے ناشر حضرات چاہتے ہیں کہ اس میلے میں آنے والا کوئی بھی شخص خالی ہاتھ واپس نہ جائے اس کے ہاتھ میں کوئی نہ کوئی کتاب ضرور ہو۔ کچھ ناشران نے تو یوں بھی کیا کہ اگر خریدار نے زیادہ کتابیں خرید لیں اور رقم کم ہوئے تو ناشر نے بجائے کتابیں واپس لینے کے اسی رقم میں دے دیں جو خریدار کے پاس تھی۔ کتاب دوستی اور کتاب سے محبت کا ثبوت بھلا اس سے زیادہ کیا ہوسکتا ہے۔ اس میلے میں لوگوں کا ہجوم دیکھ کر خْوشی ہورہی تھی کہ لوگ کتاب سے اتنی محبت کرتے ہیں اور کتابیں پڑھنا چاہتے ہیں۔ خْدا کرے لوگوں کا کتب بینی کا یہ ذوق یوں ہی برقرار رہے۔ میلے میں ایکٹیویٹی لائونج ہے جہاں مختلف تنظیموں کی طرف سے عملی ادبی پروگرامز ہوتے ہیں اور اکثر کتابوں کی تقریبِ رْونمائی اور تقریبِ پذیرائی بھی ہوتی ہے۔
میلے کے دنوں میں تینوں ہال کتابوں کے اسٹال سے سجے ہوئے ہوتے ہیں گویا ایکسپو سینٹر کے احاطے میں کتابوں کا موسمِ بہاراں اْتر آتا ہے۔ ایسی سرگرمیاں شائقین کتب کے لیے آکسیجن کی سی حیثیت رکھتی ہیں۔ یہ پانچ دن کا ہو کہ سات دن کا، ہمیشہ ہی اس کا وقت کم لگتا ہے۔ پہلے دن اس میں آنے کی خوشی جتنی زیادہ ہوتی ہے آخری دن اس میلے کے اختتام پر دل اتنا ہی افسردہ ہوتا ہے لیکن کیا کیجیئے کہ دوام تو کسی بھی شئے کو نہیں۔ یہ سوچ کر دل کو تسلی ہوتی ہے کہ یہ رونقیں ابھی ختم ہوگئیں تو کیا ہوا اگلے سال پھر یہ چمن آراستہ ہوگا اور کتابوں کے سرو و سمن دوبارہ مہکیں گے اور تب تک انتظار۔