نوازشریف کی واپسی آخر معاملہ کیاہے

Jan 07, 2022

اس وقت میاں نوازشریف کی واپسی کی خبریں پورے ملک میں گردش کر رہی ہیں، میری نظر میں میاں نوازشریف کی واپسی کی دو ہی صورتیں ہیں، ایک تو یہ ہے کہ میاں صاحب نے جو درخواست دائر کی ہوئی ہے اپنے اسٹے کے سلسلے ان کے ویزے کی میعاد ختم ہوچکی تھی اور دو مرتبہ انہوں نے ویزہ کی ایکسٹینشن کی درخواست دی جو کہ منظو ر ہوگئی لیکن جب تیسری مرتبہ انہوں نے ویزے کی مدت بڑھانے کی درخواست دی تو وہ مسترد ہوئی، لیکن ان کے وکلائ￿  کے مطابق ویزے کی مدت بڑھانے میں تین سے چار ماہ لگ سکتے ہیں تین سے چارماہ گزرنے کے بعد اگر ان کی درخواست دوبارہ مستردہوگئی تو پھر وہ پاکستان آنے پر مجبور ہو جائیں گے دوسری صورت یہ ہوسکتی ہے کہ جس کا آج کل پوری میڈیا میں چرچا ہے وہ یہ ہے کہ میاں نوازشریف کی اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ کوئی ڈیل ہو گئی یا ہو جائے گی، اور اس ڈیل کی نتیجے میں میاں صاحب کسی بھی وقت پاکستان آسکتے ہیں، جو کہ فی الحال بھی تک قیاس آرائیاں ہے، اس میں مسلم لیگ ن کے حلقے اور حامی تجزیہ کار یہ تاثر دینے کی کوشش کررہے ہیں اس سلسلے میں کچھ نہ کچھ معاملات آگے بڑھ چکے ہیں،اس پر وفاقی حکومت کی ایک اہم شخصیت نے بھی یہ دعویٰ کیا ہے کہ نوازشریف آنہیں رہے بلکہ ان کو لایا جارھاہے،اور کہا یہ جارہاہے کہ نوازشریف کی واپسی کے لیے حکومت شہبازشریف کے خلاف لاہور ہائی کورٹ میں درخواست دے گی،کیونکہ شہباز شریف نے بھائی کی واپسی کی ضمانت دی تھی، دیکھا جائے تو مسلم لیگ ن کے بڑے رہنماوئں نے بھی اپنی گاڑی کو تھوڑا سا ریورس کیا ہے اور کچھ نہ کچھ لچک دکھانے پر تیار سے دکھائی 
دیتے ہیں، اگر میاں نوازشریف کے ساتھ کوئی معاملات طے ہو بھی جاتے ہیں تو پھر بھی میاں صاحب کا آنااور یہاں کسی انتخابی مہم میں حصہ لینا یہ کسی جوئے شیر لانے سے کم نہیں ہے، میاں صاحب کو اپنی آمد کے بعد دو سب سے بڑے چیلنجز کا سامناہوگا جس میں سب سے پہلا تو یہ ہے کہ ن لیگ میں چار سے پانچ امیدوار ہیں جو وزیراعظم بننے کے خواہاں ہیں، پارٹی کے کچھ رہنما کہتے ہیں کہ نوازشریف صاحب چوتھی بار وزیراعظم بن سکتے ہیں، وزیراعظم کے لیئے ن لیگ میں ایک تو میاں نوازشریف صاحب وزیراعظم کے امیدوار ہیں، دوسرے ان کے بھائی شہباز شریف صاحب ہیں، تیسرے ان کی پارٹی کی رہنما و صاحبزادی مریم نوازصاحبہ ہیں، اگر شریف خاندان کا کوئی شخص وزیراعظم نہیں بنتا تو اسی صورت میں شاہد خاقان عباسی او ر خواجہ آصف جیسے رہنما بھی لائن میں کھڑے ہیں، ماضی میں بھی جو کچھ عرصے کے لیئے وزیراعظم بنانے کی ضرورت تھی تو میاں نوازشریف صاحب نے شاہد خاقان عباسی کو بنا دیا تھا بجائے اپنے بھائی کو بنانے کے، سب سے پہلا جو چیلنج میاں صاحب کو ہوگا وہ یہ کہ وہ پارٹی رہنماؤں اور کارکنان کو مریم نواز کو وزیراعظم کی امیدوار بننے کی راہ میں حائل رکاوٹوں کو ختم کر سکیں، جبکہ دوسری 
جانب میاں شہباز شریف بھی وزیراعظم بننے کی کوششوں سے مایوس نظر نہیں آتے وہ بھی مستقل اپنی کوششوں میں لگے ہوئے ہیں، ان کے بیانات بھی یہ اظہار کرتے ہیں وہ بار بار اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ اپنے روابط کا اظہار کرتے ہیں بار بار یہ بتاتے ہیں کہ انہیں مختلف مواقعوں پر وزارت عظمیٰ کی پیشکش کی گئی تھی آج کل بہت سارے رہنما جو ہیں وہ ٹی وی پر کہتے ہوئے نظر آتے ہیں کہ ہمارے جو امیدوار ہیں وزرارت عظمیٰ کے وہ شہباز شریف صاحب ہیں سوائے زبیر عمر کے، زبیر عمر صرف مریم نواز کا نام لیتے ہیں جو کہ اپنی ترجمانی کی نمک حلالی اکثر نیوز چینلوں پر بیٹھ کرکرتے رہتے ہیں،جبکہ میاں صاحب کے لیئے دوسرا بڑا جو چیلنج ہوگا وہ ہوگا عدالتوں کاسامنا کرنا قانون کے مطابق تو میاں صاحب پاکستان آنے کے فوراً بعد جیل جائیں گے لیکن ان کی رہائی کس طرح ممکن ہوگی کیایہ بھی ڈیل کا حصہ ہوگی یہ بھی ایک اہم معاملہ ہے، راناشمیم کی جانب سے دیئے گئے بیان حلفی کا معاملہ بہت الجھ گیا ہے اور بظاہر یہ لگتاہے کہ اس بیان حلفی سے بھی وہ فوائد حاصل نہیں ہوسکیں گے جو شریف خاندان سمجھتا تھا، آج سے پہلے یہ کہا جاتا تھا کہ کسی کے یہ علم میں نہیں ہے کہ جب وہ لندن گئے تھے تو کیا وہ میاں نوازشریف سے ملے تھے، اس معاملے میں شریف خاندان اور رانا شمیم نے خاموشی اختیار کی ہوئی تھی، لیکن اب جو تازہ ترین صورتحال سامنے آئی ہے اس کے مطابق رانا شمیم نے جو بیان حلفی پر دستخط کیے تھے وہ نوازشریف کا ماربل آرٹ میں جو دفترہے اس میں کیے تھے،اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ میاں نوازشریف کی مقبولیت میں اضافہ ہوا ہے، جن لوگوں نے سوچا کہ نوازشریف کے کیسزز اور ان کے ملک سے باہر جانے سے ان کی سیاست ختم ہوجائیگی تو یہ فی الحال غلط ثابت ہوتا جارھاہے، ایک اورمعاملہ یہ بھی ہے کہ وزیراعظم پاکستان کا یہ بیان آیا تھا کہ اگر نوازشریف کی سز ا ختم کرنی ہے تو تمام قیدیوں کو چھوڑ دیا جائے جو بظاہر ایسا محسوس لگتا ہے کہ وزیراعظم میاں نوازشریف سے خوفزدہ ہیں لیکن میری ذاتی رائے یہ ہے کہ وزیراعظم کو میاں صاحب کے آنے سے کوئی فرق نہیں پڑتاعمران خان فائٹر ہیں اور میاں نوازشریف کے سلسلے میں انہوں نے فائٹنگ کی تیار ی ان کی واپسی کی خبروں سے پہلے ہی کررکھی ہے، جبکہ پی ٹی آئی کو ن لیگ کے مقابلے میں دوبارہ میدان میں بھرپور جوبن کے ساتھ اتارنے کی بھی تیاریاں کی جارہی ہیں، ان دنوں تحریک انصاف کی تنظیم نو کے بعد ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وزیراعظم اپنی پرانی ٹیم کو دوبارہ لیکر آ رہے ہیں اور پرانے دوستوں کو بھی وزیراعظم صاحب منانا چاہتے ہیں اور دوبارہ سے صف بندیاں کر رہے ہیں، مزید کچھ اقداما ت سامنے آسکتے ہیں کے پی کے میں دو اہم پوسٹوں پر تبدیلیاں ہونے والی ہیں، جبکہ زہن اس بات پر بھی امادگی کررہاہے کہ شاید پی ٹی آئی کی حکومت سیاسی شہادت کا پہلو تلاش کرے یعنی وزیراعظم سے ہم کسی تقریب میں یا سرکاری ٹی وی پر یہ سن سکتے ہیں کہ ہمیں کام نہیں کرنے دیا جارہا، کیونکہ پی ٹی آئی کی حکومت کو اس وقت شدید اور بحرانی صورتحال کا سامناہے جس میں مہنگائی کا ایشو سب سے اہم ہے اس پر منی بجٹ پاس کروانا حکومت کے لئے اہم چیلنج ہوگا اگر حکومت منی بجٹ پاس نہیں کرواسکی تو پھر وزیراعظم کے اکثریت میں ہونے کا مسئلہ کھڑا ہوجائے گا اور ہوسکتا ہے وزیراعظم کو اعتماد کا ووٹ لینے کی ضرورت پیش آجائے، اس لحاظ سے حالات چند دنوں میں پیچیدہ ہوتے نظر آتے ہیں ایسا بھی ہوسکتا ہے کہ 2023میں ہونے والے انتخابی معرکہ سال رواں میں ہی ہوجائے۔

مزیدخبریں