مولانا مودودی کوجس تحریک میں فوجی عدالت سے سزائے موت سنائی گئی ۔وہ 1953ءمیں چلنے والی تحریک ختم ِنبوت تھی ۔یہ دنیا بھر کے مسلمان ممالک میں قادیانیوں کو اقلیت قراردینے کی پہلی تحریک تھی جو صرف پاکستان میں چلی مگر کوئی نتائج حاصل کئے بغیر ختم ہوگئی ۔کئی لوگوں نے لکھا کہ یہ وفاق اور پنجاب کی باہمی سیاسی چپقلش تھی جس نے ختم نبوت کے مقدس نام کو استعمال کیا۔دوسری تحریک ختم نبوت بھی دنیا بھر کے اسلامی ممالک میں صرف پاکستان میں ابھری،یہ 1974ءکی تحریک ختم نبوت تھی جو بالآخر کامیاب ہوئی اور وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کی سربراہی میں ملک کی پارلیمینٹ نے قادیانیوں کواقلیت قراردے دیا۔ مارچ 1974ءکے اوائل میں شروع ہونیوالی یہ تحریک 7 ستمبر تک چلتی رہی ۔ملک بھر سے ہزاروں لوگوں نے قربانیاں دیں۔خودمجھے یہ اعزاز حاصل ہواکہ میں اس تحریک کا پہلا اسیرٹھہرا۔اللہ کریم سے دعا ہے کہ میری اس قربانی کو میری بخشش کا ذریعہ بنادے، ورنہ دامن تہی ہے اور اعمال نامہ شکستہ تر ۔جب قادیانیوں کوغیر مسلم اقلیت قراردیا گیا تو مسلمانان پاکستان شاد ہوگئے۔ بتاتاچلوں کہ پاکستان میں تحریک ختم ِنبوت اس لئے چلائی جاتی رہی کہ قادیانیوں کامرکز ومحور"ربوہ "پاکستان میں تھااور اب بھی ہے ۔یہاں وہ بہت سے کلیدی عہدوں پر فائز تھے۔مسلح افواج سے لے کر سول بیوروکریسی اور عدلیہ وغیرہ بھی محفوظ نہیں تھی ۔مسلمانان پاکستان انکی ریشہ دوانیوں سے تنگ تھے۔اور ہمیشہ یہ خدشہ رہتا تھا کہ اگر انہیں روکا نہ گیا تو وہ کسی وقت بھی پاکستان کے اقتدار اعلی پر قابض ہوسکتے ہیں ۔یہی وہ نقطہ تھا جو آغاشورش کاشمیری اوردیگران ذوالفقار علی بھٹو کوسمجھانے میں کامیاب ہوئے ۔یہ سیاسی نقطہ سیاستدان وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کی سمجھ میں خوب آیا اور نتائج ظاہر ہوئے تو قادیانی پاکستان میں اقلیت قراردیئے جاچکے تھے۔عقیدہ ¿ ختم ِنبوت کا آغاز مسیلمہ کذاب کے دعوہ ¾ نبوت سے ہوا۔اور اس سے نپٹنے کیلئے خلیفہ اول نے اسے فتنہ قرار دےکر اسکی سرکوبی کی ۔ تاریخ اسلام میں کفار سے ہونےوالی جنگوں میں اتنے مسلمان شہید نہیں ہوئے جتنے صرف اس فتنے کو کچلنے میں شہید ہوئے۔اسکے بعد چھوٹے موٹے دعویداران نبوت پیداہوکراپنی موت آپ مرتے گئے۔یہاں تک کہ برصغیر میں انگریز راج کاآغاز ہوا جنہوں نے مسلمانوں کی متاع ایمان چھیننے کےلئے قادیانیوں کو تخفظ فراہم کیا تاآنکہ وہ ایک قد آوردرخت بن گیا اور اسکے ماننے والے بھی تعداد میں بڑھتے گئے۔ ہندوستان میں سیدعطاءاللہ شاہ بخاری کی رعدکی گونج بجلی کی کڑک اور تلوار کے لہجے نے اس فتنے کو للکارا تو پیر صاحب گولڑا شریف اورمولانا ظفر علی خاں کے ساتھ ساتھ کروڑوں مسلمان بھی اس قافلے میں شامل ہوتے گئے۔جب قادیانیوں کو اقلیت قرار دیاگیا توانہوں نے برطانیہ ، کینیڈا،امریکہ اور دیگر یورپین ممالک کے قوانین کا سہارا لیا اور یہاں خوب خوب سیاسی پناہ کے مزلے لوٹے۔یہاں تک کہ کینیڈا میں اپنا ایک چھوٹاسا شہر آباد کرلیا ۔ ایک دوسرے کی مددکرکے سب خوشحال ہو گئے۔ قادیانی ان ممالک میں جاکر خوب دولت کماتے رہے پاکستان سے جب ضیاءالحق کے سخت اقدامات کی وجہ سے بسترگول ہوناشروع ہواتو انہوں نے اسلام کے نام پرقادیانیت کی تبلیغ کےلئے براعظم افریقہ کا رخ کرلیا ۔کیونکہ سیاہ فام افریقیوں کو اسلام ایک خاص طرح سے متاثر کرتا ہے ۔انہیں معلوم ہے کہ اللہ کے آخری نبی اور میرے آقاصلی اللہ علیہ والہ وسلم کے قریبی صحابہ میں حضرت بلال حبشی کو ایک خاص مقام حاصل تھا۔پھر آخری خطبے میں ان کا فرمان کہ "کسی گورے کو کالے پر اور کسی عربی کو عجمی پر کوئی ترجیح نہیں ہے ۔ اور باقی سب واقعات سے انہیں جب اسلام کے اس پہلو سے آشنائی ہوتی ہے تووہ متاثر ہوتے ہیں ۔ امریکہ میں کاسیس کلے کے "محمد علی"ہونے سے لے کر "میکم ایکس "اور مسٹر"ویلس " کے "حاجی شہباز "اور "امام وارث ہونے تک کے واقعات اس بات کا مظہر ہیں کہ ان سب سیاہ فام لوگوں کو اسلام ہی اپنی طرف کھینچتا ہے۔ اس صف میں معروف امریکی باکسر مائیک ٹائیسن جو"عبدالعزیز" کے نام سے پہنچانے جاتے ہیںتو قادیانیوں کو معلوم ہوگیا کہ افریقہ میں جاکر تبلیغ کرنا پاکستان سے زیادہ کارآمد ہے اگرچہ پاکستان میں ان کے تنظیمی مراکز اور جماعتی ڈھانچہ موجود ہے مگر مسلمانان پاکستان کو وہ گمراہ نہیں کرسکتے ۔یہ بڑی خوش آئندہ خبر ہے کہ پنجاب حکومت نے "خاتم النبیین یونیورسٹی "کے قیام کا اعلان کیا ہے مگر اندیشے ابھی باقی ہیں۔سب سے پہلا خطرہ تو یہ ہے کہ یہاں تعلیم دینے والے اساتذہ کا اپنا ذہنی معیارکیا ہوگا ۔محض عربی اور اردو اس چیلنج کا مقابلہ نہیں کرسکتے جس کا سامنا بین الاقوامی دینا میں قادیانیت کے فتنے سے ہے ۔ یونیورسٹی میں انگریزی اورفرانسیسی زبان کے علماءباالخصوص درکارہوں گے جویہاں سے فارغ التحصیل ہونےوالے گریجوئٹس کو افریقہ کے ان ممالک میں خاص طورپر تبلیغ کیلئے بھیج سکیں جہاں جہاں قادیانیوں نے "احمدیہ مسلم مشن"کے نام سے اپنے مراکز بنارکھے ہیں اور خداجانے اب تک کتنے سیاہ فاموں کواسلام کے لبادے میں اپنی تعلیمات سے مرزائی بنارکھا ہو۔مجوزہ یونیورسٹی کے کرتادھرتا صرف اپنے علم وفضل سے مقررکئے جانے چاہئیں نہ کہ "مسلکی کوٹہ"کی بنیاد پر اور نہ ہی اپنی اپنی سیاسی جماعتوں کے مولوی کھپانے کیلئے۔ بہتر ہوگا کہ خاتم النبیین یونیورسٹی سے فارغ التحصیل ہونےوالے گریجوائٹس کی ڈگری کے نام کا اعلان کردیا جائے ۔یہاں پڑھایا جانےوالا نصاب میڈیا کے ذریعے عوام تک پہنچایا جائے۔کورس کتنے سال کاہوگا؟تعلیمی اخراجات کون پورے کرےگا؟ڈگری لینے کے بعد روز گار کی ضمانت کیا ہوگی کیونکہ فارغ التحصیل طلباءکی ایک مخصوص ڈگری ہوگی جو صرف اسی راہ میں کام آئیگی ۔یہ سب طے کرنے کے بعد یونیورسٹی میں داخلے کا اعلان کرنا چاہیئے ۔ پنجاب حکومت اور وزیر اعلی پرویز الٰہی یونیورسٹی کے قیام کیلئے مبارک باد کے مستحق ہیں ۔افسوس ناک ! تحریک استقلال کے عروج کے زمانے کے ہمارے ساتھی اورگوجرانوالہ بارکے رکن سید اشفاق علی شاہ گذشتہ دنوں عدم آباد کوسدھار گئے۔اللہ مغفرت فرمائے۔