عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید احمد نے کہا ہے کہ عمران خان کھمبے کو بھی ٹکٹ دیگا تو وہ جیتے گا۔ حکومت کہتی ہے مرغی مضر صحت ہے کیک کھائیں۔
شیخ صاحب نہ جانے کس زعم میں دعویٰ کر بیٹھے کہ عمران خان کھمبے کو بھی ٹکٹ دیگا تو وہ جیت جائیگا‘ وہ شاید اب سیاسی ہوا کا رخ بدلتے نہیں دیکھ رہے۔ ٹھیک ہے انکے لیڈر خان صاحب کا بیانیہ اپنا اثر اب بھی دکھا رہا ہے اور عوام بھی اسکے سحر میں جکڑے ہوئے نظر آتے ہیں لیکن شیخ صاحب کو معلوم ہونا چاہیے کہ خان صاحب کے آئے روز کے بدلتے بیانیے نہ صرف انہیں بلکہ انکی پارٹی کو بھی نقصان پہنچا رہے ہیں۔ اگر فوری انتخابات کرالئے جائیں تو ممکن ہے کہ خان صاحب کھمبے کو بھی جتوا دیں‘ لیکن فی الحال تو انتخابات ہوتے نظر نہیں آرہے‘ کیونکہ حکومت تو مدت پوری کرنے پر ہی بضد ہے۔ اور اگر انتخابات کا معاملہ مزید طول پکڑ گیا تو پھر کھمبا تو کجا‘ خان صاحب جن امیدواروں پر تکیہ کئے بیٹھے ہیں‘ وہ بھی نہ کہیں ہاتھ سے نکل جائیں۔ ابھی عام انتخابات تو دور کی بات ہے‘ پنجاب کا دنگل ہی انکے گلے پڑا نظر آرہا ہے‘ خبریں تو یہی بتا رہی ہیں۔ دوسری جانب پنجاب کیلئے زرداری صاحب بھی (ن) لیگ کی حمایت میں متحرک نظر آرہے ہیں۔ اور جس کام کیلئے وہ اٹھ کھڑے ہوں تو پھر کھیل کا پانسہ پلٹتے دیر نہیں لگتی۔ اس کا تجربہ تو چند ماہ قبل چھوٹے چودھری صاحب خود بھی کر چکے ہیں۔ بہرحال ٹکٹ چاہے کھمبے کو دیا جائے یا بااعتماد امیدوار کو‘ عوامی مسائل تو جوں کے توں ہی رہیں گے۔ خان صاحب پونے چار سال اقتدار میں رہے‘ قوم کو قوی امید تھی کہ انکے دور میں انکے مسائل بہتر طریقے سے حل ہو پائیں گے مگر نتیجہ وہی ڈھاک کے تین پات ہی نکلا۔ موجودہ اتحادی حکومت بھی عوامی مسائل حل کرنے میں بری طرح ناکام ہی نظر آرہی ہے۔ یہ تو مہنگائی کے خاتمہ کا عزم لے کر میدان میں اتری تھی‘ لیکن اس نے اپنے عزم کا رخ کسی اور طرف موڑ لیا۔ اس سے تو یہی عندیہ ملتا ہے کہ اقتدار کی مسند پر جو مرضی براجمان ہو جائے‘ اسکے حالات تو بدل سکتے ہیں لیکن عوام کے حالات بدلنے کی کوئی ضمانت نہیں دی جا سکتی۔ رہی بات مرغی کے مضر صحت ہونے اور کیک کھانے کے مشورے کی‘ تو مرغی کھانے کو کیسے روکا کیا جا سکتا ہے؟ مرغی کے نرخ جہاں پہنچ چکے ہیں‘ اب تو عوام خود ہی اس کا بائیکاٹ کرنے کا سوچ رہے ہیں۔اور لوگوں کے پاس ایک روٹی کے پیسے نہیں ہیں‘ تو کیک کہاں سے کھائیں گے۔
٭…٭…٭
آٹا کی عدم دستیابی کی وجہ سے شہری پریشان۔ سبسڈائزڈ آٹا بلیک میں فروخت‘ کئی علاقوں میں آٹا بالکل غائب۔
یہ اس اتحادی حکومت کے دور میں ہو رہا ہے جو مہنگائی پر قابو پا کر عوام کو ریلیف دینے کا عزم رکھتی ہے۔ اسکے دور میں مہنگائی کے جس عروج پر پہنچ چکی ہے‘ اسے واپس لانا ناممکن ہے۔ کیونکہ تاریخ گواہ ہے کہ جو چیز ہمارے ملک میں ایک بار چڑھ جائے‘ وہ نیچے نہیں اترتی۔ اس وقت آٹا عملاًعوام کی دسترس سے باہر ہو چکا ہے۔ اول تو مارکیٹ میں موجود ہی نہیں ہے‘ اور جہاں ہے‘ اسکے نرخ غریب آدمی کی پہنچ سے دور ہیں۔ ویسے تو ہر چیز ہی عام آدمی کی دسترس سے باہر ہے۔ اگر یہی صورتحال رہی تو پھر حکومت کو عام انتخابات میں عوام کے شدید ردعمل کیلئے تیار رہنا چاہیے۔ جب تک مہنگائی پر قابو پا کر عوام کو حقیقی ریلیف نہیں دیا جاتا‘ آٹا‘ چینی‘ دال ، گھی اور سبزیوں کے نرخ کم ترین سطح پر نہیں لائے جاتے‘ عوام حکومتی پالیسیوں سے نالاں ہی رہیں گے۔ بہتر ہے کہ حکومت سب سے پہلے عوام کو سستے اور معیاری آٹے کی فراہمی کو یقینی بنائے اور تنور مافیا جو آئے روز روٹی اور نان کے نرخ بڑھانے کی دھمکیاں رہتا ہے، اس پر قابو پایا جائے تو عوام مطمئن ہو سکتے ہیں۔ وزیراعظم شہبازشریف تو بہترین ایڈمنسٹریٹر کے طور پر مانے جاتے ہیں‘ اپنی وزارت اعلیٰ کے دور میں تو وہ فوری ایکشن لینے پر شہرت رکھتے تھے ‘ خیر سے اب وہ ملک کے وزیراعظم بن چکے ہیں‘ انہیں تو اس طرف فوری توجہ دینی چاہیے۔
٭…٭…٭
ایک تحقیق کے مطابق وائرس انسان کو مچھروں کیلئے مزید پرکشش بنا دیتا ہے۔
اکثر سوال کیا جاتا ہے کہ مچھر رات کے اندھیرے میں کس طرح انسان کو کاٹ لیتا ہے۔ تحقیق بتاتی ہے کہ قدرت نے اس جاندار کو ایسی صلاحیتوں سے نوازا ہے کہ اندھیرے میں انسان کی رگیں اسے ریڈیم کی طرح چمکتی نظر آتی ہیں جن تک اس کیلئے پہنچنا آسان ہوجاتا ہے جبکہ انسان کی بو بھی اسے اپنی طرف متوجہ کرلیتی ہے۔
ایک تحقیق یہ بھی بتاتی ہے کہ قدرت نے مچھروں کو درجہ حرارت جانچنے کے انتہائی حساس اعصاب سے لیس کر رکھا ہے۔ یہ اپنے اردگرد کی مختلف چیزوں کا ادراک مختلف رنگوں سے کرتے ہیں جن کا انحصار انکی حرارت پر ہوتا ہے۔ چونکہ اسکے ادراک کا انحصار روشنی پر نہیں ہوتا اس لئے مچھر کیلئے یہ آسان ہوتا ہے کہ وہ ایک تاریک کمرے میں بھی خون کی وریدوں کو تلاش کر لے۔مچھر کی تقریباً 100 آنکھیں ہوتی ہیں۔ یہ مخلوط آنکھیں اسکے سر کی چوٹی پر ہوتی ہیں۔رہی بات وائرس کی جو انسان کو مچھروں کیلئے مزید پرکشش بنا دیتا ہے تو اس پر کچھ یقین سے کہا نہیں جا سکتا کیونکہ عموماً وائرس مچھر کے کاٹنے سے ہی پھیلتا ہے۔ ڈینگی‘ ملیریا وغیرہ کا وائرس مچھروں کے کاٹنے سے ہی پیدا ہوتا ہے۔ اس لئے اس تحقیق پر سائنس دانوں کو مزید کام کرنے کی ضرورت ہے۔
٭…٭…٭
ایک خبر کے مطابق انسانوں کے بعد گوریلے بھی سیلفی کے شوقین نکلے ۔
گوریلوں کی حرکات و سکنات کسی حد تک انسانوں کے مشابہہ نظر آتی ہیں۔ گوریلے یا بڑی نسل کے بندروں کی بھی بہت سی حرکات انسانوں سے ملتی جلتی ہیں۔ اگر وہ انسانوں کی طرح سیلفی کے شوقین نکلے تو اس میں اچنبھے کی کیا بات ہے۔ عموماً دیکھنے میں آیا ہے کہ پالتو ڈولفن، شارک اور وہیل مچھلی انسانوں کے ساتھ سیلفی بنوا کر خوش ہوتی ہیں۔ اس لئے کانگو کے گوریلے پھر کیوں پیچھے رہیں۔ کبھی گھریلو پالتو جانوروں بلی، کتے کے ساتھ سیلفی لینے کی کوشش کریں تو انہیں بھی سیلفی کے عشق میں مبتلا پائیں گے۔
سیلفیوں کا جنون جس طرح عروج پا رہا ہے‘ اس سے کئی حادثات رونما ہو چکے ہیں جن میں کئی لوگوں کی جانیں بھی جا چکی ہیں۔لیکن اسکے باوجود سیلفی کے شوقین اس شوق سے باز نہیں آتے۔ بہتر ہے کہ ذرا خطرناک جانوروں، اونچی عمارتوں، ٹرین اور پہاڑوں پر کھڑے ہو کر سیلفی بنانے سے گریز کیا جائے۔
ہفتہ،14 جمادی الثانی 1444ھ، 7 جنوری 2023ء
Jan 07, 2023