ہمارے ہاں علمی گھرانوں کے وارث عام طور ٹیلی ویژن کے اشتہاروں میں ماڈلنگ کا فریضہ انجام دیتے ہیں یا سیاست کے ویرانوں میں آباد ہو کر خاندان کانام روشن کرتے ہیں۔ ڈاکٹرمظہرمحمود شیرانی اردو تحقیق کے معلمِ اول حافظ محمود شیرانی کے پوتے اور شاعرِ رومان اخترشیرانی کے صاحبزادے تھے۔ انھوں نے اس کے برعکس اپنے علمی وادبی گھرانے کی روایت کوآگے بڑھایا۔ ڈاکٹرصاحب راجپوتانہ کی ریاست جودھ پور کے گائوں شیرانی آباد میں 9 اکتوبر 1935ء کو پیدا ہوئے اور ابتدائی تعلیم وہیں سے حاصل کی۔ دادا کی وفات کے بعد کھوکھراپار کے راستے سے لاڑکانہ پہنچے۔ اسی دوران میں انکے والد اخترشیرانی لاہورمیں انتقال کرگئے اور ڈاکٹر شیرانی مستقل طور پر لاہور آگئے جہاں انھوں نے اورینٹل کالج سے فارسی میں ایم اے کیا۔ یہاں انھیں پروفیسر وزیرالحسن عابدی اور ڈاکٹر سید عبداللہ جیسے اساتذہ میسر آئے۔ انکے دادا جان سے وابستہ احترام کے باعث جامعہ کے اساتذہ کی طرف سے انھیںخاص توجہ ملی۔ ڈاکٹرسیدعبداللہ کے بارے میں انھوں نے بتایاکہ وہ پہلے دن کلاس میں تشریف لائے اور حاضری کے رجسٹر پر طلبہ وطالبات کے نام درج کررہے تھے۔ میرانام پوچھا، مظہرمحمود شیرانی! چونک گئے، کلاس کومخاطب کرکے میری طرف انگلی سے اشارہ کرتے ہوئے گویاہوئے،’ہم جوکچھ بھی ہیں یہ اسی گھرانے کافیضان ہے‘۔ یہ علمی ماحول اور توجہ تھی جو دورانِ تعلیم انھیں میسر آئی۔
ڈاکٹر صاحب نے ایم اے فارسی کاامتحان پاس کیا اور کالج کیڈرمیں فارسی کے لیکچرر مقرر ہوئے، لاہور، مظفرگڑھ ،سانگلہ ہل وغیرہ تعینات رہے۔ ملازمت سے سبک دوش ہونے کے بعد گورنمنٹ کالج یونیورسٹی لاہورکے تحت فارسی لغت کی اکیاون جلدیں ترتیب دینے کے ایک پراجیکٹ میں مصروف ہو گئے۔ انھوں نے تنقیدوتحقیق کے علاوہ مختلف شخصیات کے خاکے بھی لکھے۔ خاکہ جیسی صنف میں انھوں نے منٹویا احمد بشیر کی طرح لوگوں کا خاکہ نہیں اڑایا بلکہ موضوعہ شخصیات کی زندگی کے جامع پہلوئوں کوبیان کرنے پرتوجہ دی۔ ڈاکٹرمظہرمحمود شیرانی کے دادا جان حافظ محمودشیرانی علمی وادبی دنیا میں انتہائی قابلِ احترام سمجھے جاتے ہیں لیکن سلمیٰ،عذرا،ریحانہ،پروین اورشمسہ جیسے نسوانی کرداروں کوشاعری کاموضوع بنانے اور بلا نوشی کے باعث انکے والداخترشیرانی مرحوم کی شخصیت کے بہت سے مثبت پہلوعام قاری کی نظروں سے اوجھل ہوگئے۔ ڈاکٹرمظہرمحمود صاحب نے اپنے والد کا خاکہ لکھا اور ایسا کہ شایدکسی بیٹے نے اپنے باپ کی شخصیت کا ایسا تعارف نہیں کروایاہوگا۔ یہاں ایک مختلف اورمنفرد انسان سے ملاقات ہوتی ہے۔ ڈاکٹرصاحب کی تربیت والد سے زیادہ ان کے دادا جان نے کی ۔
میرا ڈاکٹر مظہرمحمودشیرانی سے ایک طالب علم کی حیثیت سے 2007ء سے ان کی وفات تک رابطہ رہا۔ فون پر گفتگوہوتی تھی اور خط کتابت بھی رہی۔وہ زبان و ادب کے بڑے عالم ہونے کے باوجود انتہائی منکسرالمزاج،وضع دار اور متجسس شخصیت کے مالک تھے۔ عمرکے تفاوت اورمیری علمی غربت کے باوجودان سے بات چیت میں کبھی ان کے عظیم ہونے کا احساس نہ ہوتاتھابلکہ آپ خود کواہم سمجھتے تھے۔ وہ صوفی مشرب تھے، خاک نشینی کا درس انھیں بچپن سے ودیعت ہوا تھا۔ میرے اور ڈاکٹرصاحب کے محبت بھرے تعلق کے درمیان رابطے کا ایک ذریعہ عبدالوہاب خاں سلیم بھی تھے۔وہاب صاحب مرحوم پنجاب یونیورسٹی کی لائبریری میں ملازم رہے تھے،ازاں بعدمستقل طور پرامریکہ منتقل ہوگئے تھے۔وہاب صاحب کے پاس اردو سفرناموں کا شاید سب سے بڑا ذخیرہ تھا،یہی میری ان سے محبت کا وسیلہ بنا۔چندسال پہلے عبدالوہاب خاں سلیم بھی راہیِ ملکِ عدم ہوئے۔
جن دنوں میںتحریک آزادی کے رہنما سردار عبدالرب نشتر کے شاعری میں استاد شیخ عطااللہ جنوں کا دیوان مرتب کررہا تھا،ان کے اردو اور فارسی کلام کے مسودے کے بعض مصرعے اور الفاظ میری سمجھ میں نہ آسکے۔ میں نے اس مسودے کو ایرانی کلچرل قونصلیٹ کے ذیلی ادارے مرکزِ تحقیقاتِ فارسی ایران و پاکستان کی وساطت سے ایران بھیجا تاکہ وہاں کے علماء سے اسکی قرأت میںمددلی جائے۔ مسودہ درست ہوکر واپس آیا اور میں نے معروف شاعرارشدنعیم کی معرفت دیباچہ لکھنے کی غرض سے ڈاکٹرمظہرمحمودشیرانی کو ارسال کیا۔ انھوں نے شیخ عطااللہ جنوں کے کلام پر شاندار دیباچہ لکھا لیکن جس بات نے مجھے متاثرکیا وہ یہ تھی کہ انھوں نے اپنے طور پرایران سے اصلاح شدہ اس مسودے میں متعدد اغلاط کی نشاندہی کی اور اس دیوان کی اشاعت تک مسلسل میری رہنمائی فرماتے رہے، اس بات نے مجھے ان کا گرویدہ بنادیا۔ ڈاکٹر صاحب سے اخذ واستفادے کا یہ سلسلہ عرصے تک جاری رہا ۔ پی ایچ ڈی کا تحقیقی مقالہ لکھتے ہوئے جو شخصیات میرے لیے خضرِراہ بنیں ان میں ڈاکٹراسلم انصاری، شمس الرحمن فاروقی،ڈاکٹرمحمدعلی اثر،ڈاکٹرشکیل الرحمن ، ڈاکٹروحیدالرحمن خان اور ڈاکٹرسیدہ جعفر کے علاوہ ڈاکٹر مظہر محمود شیرانی بھی شامل تھے۔
ہمارے ہاں ایچ ای سی کی غلط پالیسیوں کی وجہ سے تعلیم وتعلم کا معیارگرا ہے، محکمانہ ترقیوں اور مالی منفعت کے حصول کے لیے خودساختہ محققین(یہاں اسے حقے کی جمع سمجھا جائے) کا سیلاب آگیاہے۔ اس کے نتیجے میں باقاعدہ طورپرایسے نیٹ ورک کام کررہے ہیں جو کچھ رقم لے کر ایم فل اور پی ایچ ڈی کے مقالات ’بنا‘ دیتے ہیں۔اس صورتحال میں ڈگری یافتہ لوگوں کا ایک سیلاب آگیاہے لیکن علم کے حقیقی خدوخال معدوم ہوتے جارہے ہیں۔ اس منظرنامے میں ڈاکٹر مظہر محمود شیرانی جیسے خاموشی اور ایمانداری کے ساتھ کام کرنے والے لوگ غنیمت تھے۔ ایسی شخصیات کی حکومتی سطح پر قدر کی جانی چاہیے۔ ہمارے ہاںہرسال یومِ پاکستان کے موقع پر زندگی کے مختلف شعبوں میں نمایاں خدمات انجام دینے والی شخصیات کو ایوارڈز دیے جاتے ہیں۔ دیکھنے میں آیا ہے کہ عام طور پران ایوارڈزکی تقسیم میں کوئی بھی معیار متعین نہیں کیا جاتا۔ بڑے شہروں کے ادبی گلیمرکی چکاچوندمیں الطاف واکرام کی یہ بارشیں ہوتی ہیں۔ ڈاکٹرمظہرمحمودشیرانی نے عمر بھرعلم ودانش کا چراغ جلائے رکھا، آج ان کا کام ہی ان کا اعزاز ہے۔ اورنگزیب عالمگیرکے عہدکے عظیم شاعر میرزاعبدالقادر بیدل کا ایک شعر ان کی شخصیت پر صادق آتاہے:
بیدل دریں حدیقہ ز تحقیقِ من مپرس
رنگی کہ رفت و باز نیاید ھماں منم
ترجمہ:بیدل تو اس باغ میں میری حقیقت کسی نے مت پوچھ ۔میں وہ رنگ ہوں جوایک بار آکر چلا جائے توپھرکبھی نہیں آتا۔