سندھ میں دوسرے مرحلے کے بلدیاتی انتخابات تا حال شکوک و شبہات کا شکار ہیں اور چوتھی مرتبہ ملتوی ہونے کا خدشہ تاحال ختم نہیں ہوسکا۔ قبل ازیں 26جون کو پہلے مرحلے میں سکھر، لاڑکانہ، شہید بینظیر آباد اور میرپورخاص ڈویژن کے کل 14اضلاع میں بلدیاتی انتخابات کا انعقاد کامیابی کے ساتھ مکمل ہو چکا ہے۔ بلدیاتی انتخابات کا دوسرا مرحلہ جولائی 2022سے کسی نہ کسی وجہ سے بار بار ملتوی ہوتا رہا ہے اور اب اسے 15جنوری کو دوبارہ شیڈول کیا گیا ہے۔دوسرے مرحلہ میں کراچی اور حیدرآباد میں 24جولائی کو کراچی اور حیدر آباد ڈویژن میں بلدیاتی انتخابات شیڈول تھے اور اس حوالے سے تیاریاں بھی تقریبا مکمل کرلی گئی تھیں مگر 20جولائی کو ممکنہ بارشوں کے پیش نظر ملتوی کرکے 28اگست کو کرانے کا اعلان کیا گیا تھا، تاہم بارشوں اور سیلاب کی وجہ سے 28اگست کو ہونے والے بلدیاتی انتخابات بھی ملتوی کردیے گئے تھے۔ پیپلز پارٹی کی سندھ حکومت نے ببانگ دہل اعلان کردیا ہے کہ کراچی اور حیدر آباد میں بلدیاتی انتخابات الیکشن کمیشن کے اعلان کردہ شیڈول کے مطابق 15 جنوری کو ہی کئے جائیں گے۔ پاکستان پیپلز پارٹی کی سنٹرل ایگزیکٹیو کمیٹی کا اجلاس بلاول ہاو¿س کراچی میں منعقد ہوا جس میں فیصلہ کیا گیا کہ بلدیاتی الیکشن کے دوسرے مرحلے کے التوا پر کسی سیاسی جماعت کی بلیک میلنگ میں نہیں آئیں گے۔ کمیٹی کے اجلاس کے بعد قائدین نے تمام رہنماو¿ں کو انتخابات کی تیاری کی ہدایت کرتے ہوئے کہا کہ انتخابات وقت پرچاہتے ہیں، کارکنان تیاری کریں۔ دوسری جانب بلدیاتی انتخاب سے قبل بلدیاتی حلقہ بندیوں کی ازسرنو تشکیل کے لئے جدوجہد کرنے والی ایم کیو ایم پاکستان نے اس حوالے سے اعلان کردہ ریلی کی کامیابی کے لئے نہ صرف اپنے دھڑوں یعنی پاک سر زمین پارٹی‘ ایم کیو ایم بحالی کمیٹی‘ ایم کیو ایم حقیقی سمیت کراچی کے مسائل کے لئے منفرد
جدوجہد کرنے والی جماعت اسلامی تک سے رابطہ کر کے کراچی کے لئے مشترکہ جدوجہد کرنے اور پاکستان پیپلز پارٹی کی کراچی دشمنی پر قائل کرنے کی کوشش شروع کر رکھی ہے۔ ایم کیو ایم پاکستان کو اگرچہ اس حوالہ سے کوئی بڑا بریک تھرو نہیں ملا تاہم رائے عامہ کسی حد تک ضرور ہموار ہو رہی ہے۔ سندھ میں بلدیاتی نظام حکومت کی میعاد جب ختم ہوئی تھی تب پوری دنیا میں کرونا کی وباءپھیلی ہوئی تھی، کرونا کی وجہ سے پوری دنیا کی طرح سندھ سمیت پورا ملک لاک ڈاﺅن کا شکار تھا، جس کی وجہ سے نظام زندگی تقریبا سخت متاثر تھا اور حکومتی و سیاسی معاملات بھی التوا کا شکار تھے، ان میں سے ہی سندھ میں بلدیاتی انتخابات کا انعقاد شامل تھا۔ سندھ حکومت اور پیپلز پارٹی سمیت صوبہ کی تمام پارٹیوں نے الیکشن سے پہلے بلدیاتی نظام میں قانون سازی پر اتفاق کیا تھا اور تمام اسٹیک ہولڈرز اس پر کام کر رہے تھے، سیاسی معاملات میں سیاسی جماعتوں کے درمیان اختلاف آتے رہے اور بل کے منظور ہونے پر ڈیڈ لاک بھی روایت کی بات ہوتی ہے جو مذاکرات کی صورت میں ہی قانون ساز اسمبلی کے اندر حل ہوتے ہیں، مگر پی ٹی آئی ہر معاملے کی طرح اسکو بھی کورٹ میں لیکر ائی، سندھ حکومت سمیت تمام جماعتوں کی جانب سے درخواستوں کے باوجود سندھ ہائیکورٹ نے 3ماہ کے اندر یعنی گذشتہ جون و جولائی میں سندھ کے اندر بلدیاتی الیکشن کے انعقاد کا حکم دے دیا جس پر تمام جماعتوں نے اپیلیں کی کیوں کہ قانون سازی کا عمل مکمل نہیں ہوا تھا، ووٹر لسٹوں کی تصدیق کا عمل جاری تھا اور الیکشن کمیشن کے مطابق ووٹرز لسٹوں کی تصحیح و تصدیق کا عمل مکمل ہونے میں 6ماہ کا وقت لگ جائے گا، حلقہ بندیاں مکمل نہیں ہوئی تھیں جبکہ صوبہ کی اکثر جماعتوں نے الیکشن کی جلدی انعقاد پر ہائی کورٹ کے حکم کے خلاف اپیلیں دائر کی تھیں مگر سندھ کا معاملہ تھا کسی کی بھی نہیں سنی گئی اور عدالتی حکم پر عجلت میں الیکشن کا عمل شروع کیا گیا، جس پر سندھ حکومت کی انتظامی مشنری، وفاقی اداروں، سیاسی جماعتوں اور عام ووٹرز کو سخت ترین اذیت سے گذار کر پہلا مرحلہ مکمل کرنا پڑا تھا، کیوں کہ جون کی شدید گرمی کی وجہ سے موسم ناہموار تھا، ووٹر لسٹوں کو منجمد کرنے کی وجہ سے ووٹوں کی تصدیق کا عمل آدھے میں روک دیا گیا تھا جس کی وجہ سے ہزاروں ووٹر اپنے ووٹ کی گمشدگی کی وجہ سے دربدر ہوکر ووٹ دینے سے محروم رہے، حلقہ بندیوں کی تصدیق نہ ہونے سے بھی امیدواروں، سیاسی جماعتوں اور ووٹرز کو مسائل کا سامنا کرنا پڑا تھا طویل تاخیر کے درمیان بلدیاتی انتخابات سندھ کے کراچی اور حیدرآباد ڈویژن میں 30سے زائد امیدوار انتخابات کے انتظار میں انتقال کرگئے۔ای سی پی کے مطابق کراچی ڈویژن سے فوت ہونے والے امیدواروں میں سے نصف نے چیئرمین اور وائس چیئرمین کے عہدوں کے لیے کاغذات نامزدگی جمع کرائے تھے اور باقی جنرل ممبر کی نشستوں کے لیے الیکشن لڑ رہے تھے۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق ڈسٹرکٹ ملیر میں ایک جنرل ممبر کا امیدوار انتقال کر گیا، اور ڈسٹرکٹ کورنگی میں ایک ایک چیئرمین، وائس چیئرمین اور جنرل ممبر کا امیدوار انتقال کر گیا، جبکہ ڈسٹرکٹ ایسٹ میں دو جنرل ممبر امیدوار انتقال کر گئے۔ مزید برآں ڈسٹرکٹ ساو¿تھ میں چیئرمین کا ایک امیدوار انتقال کر گیا، ضلع وسطی اور مغربی اضلاع میں چیئرمین اور وائس چیئرمین کے 4 امیدوار انتقال کر گئے، جبکہ ضلع کیماڑی میں چیئرمین اور 4 جنرل ممبر کے امیدوار انتقال کر گئے۔ حیدرآباد ڈویژن میں 17 دیگر امیدوار انتقال کر گئے۔ کراچی اور حیدر آباد کے 16 اضلاع میں مختلف نشستوں کے لیے 19,867امیدواروں میں سے 704بلامقابلہ چیئرمین، وائس چیئرمین اور یونین کمیٹیوں، ٹاو¿ن کونسلز اور ضلعی کونسلوں کے جنرل ممبران منتخب ہو گئے۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان کے اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ کراچی کے ملیر، ایسٹ اور کیماڑی اضلاع میں پانچ جنرل ممبران اور ایک چیئرمین کے امیدوار نے کامیابی حاصل کی، جبکہ بقیہ نے حیدرآباد کے نو اضلاع میں جنرل ممبر، ٹان کونسلر اور ڈسٹرکٹ ممبر سمیت مختلف نشستوں پر کامیابی حاصل کی۔ .