نیا سال قسمت کی مہربانیاں کیویز اور پاکستان میچ اور سیریز کی فتح سے محروم 


نیوزی لینڈ کی کرکٹ ٹیم کوئی بیس برس بعد پاکستان میں ٹیسٹ میچز کھیلنے آئی۔ کیویز کی اس ٹیم کو بظاہر کمزور ٹیم تصور کیا جا رہا تھا لیکن انہوں نے جس طرح پاکستان ٹیم کو دبوچے رکھا اس نے ثابت کیا کہ ہمیں تر نوالہ سمجھنے والے شدید غلط فہمی میں تھے دوسرے اور آخری ٹیسٹ کے آخری روز کا کھیل ٹیسٹ کرکٹ کی تمام تر رعنائیوں کے ساتھ فتح کی دیوی کو راضی کیے بغیر اختتام پذیر ہو گیا۔ کھیل کے آخری روز پہلے سیشن میں پاکستان کی آدھی ٹیم جب پویلین سدھار گئی تو میچ اور سیریز کی شکست واضح نظر آ رہی تھی۔ امام الحق ، بابر اعظم اور شان مسعود کی واپسی اور غیر ذمہ دارانہ کھیل ایسے موقع پر انتہائی مایوس کن تھا۔ سرفراز احمد اور سعود شکیل کی جاندار ، بھرپور اور بہترین ساجھداری نے جہاں کھیل میں جان ڈالی وہیں انہوں نے شکست کے بادلوں کو بھی واپسی کا راستہ دکھایا پھر سرفراز کے ساتھ آغا کی شراکت نے تو بعض دفعہ فتح کی دیوی کو بھی راضی کرنے کی کوشش کی لیکن جونہی آغاسلمان نے وکٹ گنوائی تم منظر دھوپ چھاو¿ں کا کھیل بن گیا۔ کیویز کپتان کے نئی گیند لینے کا فیصلہ بہترین ثابت ہوا۔ ایسے موقع پر سنچری میکر سرفراز جو اس سیریز کی چاروں اننگز میں رنز بناتے رہے کی وکٹ سے جہاں پاکستانی کیمپ میں مایوسی کا اندھیرا چھا گیا وہیں کیویز ٹیم میں فتح کی امید جگمگا گئ۔ حسن علی نے بھی ہلکا پھلکا رنگ نہ دکھایا ورنہ صورتحال کچھ اور بھی ہو سکتی تھی لیکن شاباش دینی ہوگی نسیم شاہ اور ابرار احمد کو جنہوں نے ساری کیویز ٹیم کو اپنے اوپر چڑھتا ہوا دیکھ کر بھی ہمت نہ ہاری اور نہ ہی مرعوب ہوئے بلکہ نسیم شاہ نے تو ایک دو ہاتھ بھی دکھا?۔ ایسے موقع پر جان سولی پر لٹکی ہوتی ہے کوئی ایک گیند بھی جہاں پاکستان کا دھڑن تختہ کر دیتی وہیں میچ اور سیریز بھی کیویز کی جھولی میں جا گرتی۔ گو کہ صورتحال پاکستان کے مخالف تھی لیکن دو تین شاٹس سب کچھ پاکستانی کیمپ میں شادیانے بجا سکتے تھے۔ اس ٹیسٹ کو دلچسپ بنا دینے کا سہرا بھی بلاشبہ کیویز کپتان کے سر جاتا ہے جس نے دلیرانہ فیصلے کیئے۔ میچ اور مجموعی طور پر سیریز میں کیویز کا پلڑا سوائے قسمت کے ہر شعبے میں بھاری رہا۔ پاکستانی سکواڈ کا بولنگ اٹیک جو اکثر فتح کی نوید سنایا کرتا تھا اس کو بھی تلاش کرنا ضروری ہے۔ کیویز ٹور کی تمام کرکٹ کراچی میں ہی کرا دینا سمجھ سے بالاتر ہے کم از کم ایک روزہ میچز تو کہیں اور بھی کرائے جا سکتے تھے۔

ای پیپر دی نیشن