شاید ہی کوئی پاکستانی الیکشن ایسا ھو ، جس سے پہلے یا بعد میں دھاندلی کا شور نہ اْٹھا ھو۔ کسی بھی الیکشن میں دھاندلی کا تعین کرنے سے پہلے ہمیں یہ تصور کرنا ھوگا کہ درحقیقت الیکشن کیا ھے ؟ اور کس لیے ھے؟اب الیکشن سسٹم کا پہلا جواب تو یہ ھے کہ اسکے ذریعے بالغ لوگ اپنی خفیہ رائے دیتے ہیں کہ فلاں امیدوار ملک کی نمائندگی کے لیے بہترین ھے ، اور جس کے حق میں اکثریتی لوگوں کی رائے آ جائے وہ کامیاب قرار پاتا ھے۔ کسی بھی قومی یا صوبائی اسمبلی میں جتنے بھی مقررہ نمائندے کامیاب ہوتے ہیں ؛ وہ پھر اپنی رائے سے ایک وزیراعظم منتخب کر لیتے ھیں۔
ھمارا دوسرا سوال تھا کہ الیکشن کس لئے ھے ؟ یہ وہ تلخ حقیقت ھے جس کی آج تک پوری پاکستانی قوم کو سمجھ ہی نہیں آ سکی ،،، جس کا خمیازہ یہ ملک اور قوم گزشتہ 76 سالوں سے بھگت رہی ہے کیونکہ یہ سمجھتے ہیں کہ انہوں نے اپنی رائے سے ’’ اپنے لئے ‘‘ اپنے علاقے سے ’’ اپنا ‘‘ قومی یا صوبائی اسمبلی کا نمائندہ مقرر کرنا ھے ؛ لیکن یہی بنیادی غلطی اور سب سے بڑی دھاندلی ھے ، کیونکہ مقرر کردہ نمائندہ کبھی بھی ان کیلئے نہیں بلکہ ’’ ملک ‘‘ کی بہتر منصوبہ بندی اور قومی فلاح و بہبود کیلئے مقرر کیا جاتا ھے جس نے اسمبلی کے اندر بیٹھ کر بہترین منصوبوں کی قانون سازی کرنی ہوتی ہے۔ جو کسی بھی ملک کی معاشی ترقی کیلئے اہم رول ادا کرتی ہے۔ ان نمائندوں نے وہ قانون بنانے ہوتے ہیں جو انسانوں کی بھلائی کیلئے ہوں ، اور ایسے بجٹ کا تعین کرنا ہوتا ہے جس سے عوام اور حکومت دونوں کی زندگیاں آسان ھوں۔ ملک کی معاشی ترقی ، انسانی بھلائی کی قانون سازی اور بہترین بجٹ کیلئے ، سیاسی جماعتیں اپنا اپنا نظریہ دیتی ہیں کہ ھمارے پاس یہ حکمت عملی ہے جس کے تحت ہم ملک کے اندر انقلاب لے آئیں گے۔ اور عوام نے اس ’’ نظریے ‘‘ کو ووٹ دینا ہوتا ہے نہ کہ کسی زید یا بکر کو۔۔
اس ملک میں پہلی دھاندلی تو الیکشن سسٹم کے ساتھ ہوئی ہے کہ سیاسی جماعتیں بوگس منشور لاتی ہیں جس پر ایک فیصد بھی کام نہیں ہوتا ، ہر سیاسی جماعت کا اصل منشور اور فوکس یہی ہوتا ہے کہ کسی بھی طرح حکومت انکی بن جائے۔ رہے عوام تو ان کو اصل یا نقل کسی بھی منشور اور نظریے کا ادراک ہی نہیں ہوتا۔ دوسری دھاندلی سیاسی جماعتوں کی ٹکٹوں کی غیر منصفانہ تقسیم یے ، جس میں ملکی منصوبہ بندی اور قانون سازی کی اہلیت جانچنے کی بجائے یہ دیکھا جاتا ہے کہ کون ان کا وفادار رہے گا ! کون زیادہ ووٹ حاصل کرے گا ! اور کون بیس تیس کروڑ خرچ کر سکے گا۔
ٹکٹوں کی تقسیم کے بعد سے پولنگ تک ہونے والی مذید ’’ بالغانہ ‘‘ دھاندلیاں یہ ہیں کہ نظریے اور شعور کو ووٹ دینے کی بجائے یہ دیکھنا کہ کون اْن کی برادری کا ہے ؟ کون ان کی فوتگی اور شادی پر آیا ہے ؟ کس نے ان کو سڑک اور گلی بنوا دی ، اور کس کے ساتھ ان کی ذاتی شناشائی ھے۔ حالانکہ گلی سڑک بنانا ملکی اداروں کا کام ہے سیاسی نمائندوں کا نہیں۔
امیدواروں سے یہ سوال کوئی نہیں کرتا کہ ملک میں روزگار کیوں نہیں ھے ؟ بجلی ، گیس ، پٹرول کیوں مہنگے ہیں ؟ ہر طرف مہنگائی کا طوفان کیوں ہے ؟ ہیلتھ اور ایجوکیشن کیوں ہر شہری کو یکساں میسر نہیں ؟ بے جا ٹیکس در ٹیکس کس لیے یے ؟ بیرونی قرضے کیوں لیے اور کہاں ہیں ؟ عوامی سوال کیا ہوتے ہیں کہ۔ میرا تھانے کچہری سے کام نہیں کرایا ، ملاقات کے دوران عزت نہیں دی ، یا خوشی غمی میں شریک نہیں ہوئے۔ یہ وہ دھاندلیاں ہیں جو عوام اس الیکشن سسٹم کے ساتھ کرتے ہیں جس کے تحت ایسے نمائندے اسمبلی میں جاتے ییں ، جنہیں پھر یہ بھی پتہ نہیں ہوتا کہ وہ ابھی اسمبلی میں جو بل پاس کر کے آئے ہیں وہ بل ہے کس چیز کا اور اس کے اثرات اچھے ہوں گے یا بْرے۔
76 سالوں سے بنیادی الیکشن سسٹم کو ہی نہ سمجھنے والی اس قوم کی پچھلی تین دہائیوں سے مذید بربادی یہ ھے کہ انکے پاس اب بھی 24 کروڑ کی آبادی میں سے وہی دس پندرہ ہزار چہرے ہی ہیں اسمبلیوں میں بھیجنے کیلئے ، جن کے سینوں پر پہلے ہی سے اس ملک اور قوم کی بربادی کے تمغے نمایاں سجے ھوئے ہیں۔ سیاسی جماعتیں بھی اپنے ٹکٹ ، منشور یا نظریے کو نہیں دیتیں اور عوام کو بھی ’’ نظریے ‘‘ سے کوئی سروکار نہیں ان کو بھی کوئی مانیکا ، کھگہ ، راؤ، اور رامے چٹھے ہی درکار ہیں ، اپنی اور اس ملک کی بربادی کیلئے ۔
دھاندلی یہ نہیں کہ کسی سیاسی جماعت کے سینکڑوں امیدواروں کے کاغذات نامزدگی انکی کسی نادہندگی کے ضابطے میں آ کر یا کسی جرم کے باعث مسترد ہو گئے ہوں ، بلکہ دھاندلی یہ ھے کہ 24 کروڑ عوام کی نمائندگی کا دعوی کرنے والی سیاسی جماعتوں کے پاس کیا صرف یہی دو تین سو لوگ تھے ؟ اور کسی ریٹرنگ آفیسر کا قانون کے مطابق کسی امیدوار کا کاغذات نامزدگی مسترد کر دینا دھاندلی نہیں کہلا سکتا بلکہ اصل دھاندلی عوام کا ان سے یہ سوال نہ کرنا ھے کہ امیدوار صاحب آپ کے کاغذات صادق اور امین ہونے کے تقاضے پر پورے کیوں نہیں اْترے۔
ان ساری عوامی اور سیاسی دھاندلیوں کے باوجود آفرین ھے پھر اْن ملکی اور غیر ملکی مقتدر حلقوں پر جو اس قوم کو پھر الیکشن دے دیتے ھیں جنہیں نہ الیکشن سسٹم کا شعور ہے نہ ضرورت۔ پھر بھی اگر الیکشن ہوتے ہیں اور ہر بالغ ووٹر اپنی آزاد مرضی سے پولنگ اسٹشن کے اندر جا کر خفیہ مہر لگا کے اپنی پرچی خود پولنگ باکس میں ڈال کے آتا ہے تو پھر دھاندلی،، الیکشن سسٹم میں نہیں بلکہ عوام اور سیاسی جماعتوں کے اندر ہے ، جو خود دھاندلی کے ذریعے نااہل اور من پسند لوگوں کو اسمبلی کے اندر لے جانا چاہتے ہیں اور سارے رولز پامال کر کے صرف اپنے بندے کی کامیابی کو ہی شفاف الیکشن تصور کرتے ہیں۔
٭…٭…٭