ادیب جاودانی: صحافت سے تصوف تک کا مسافر

Jan 07, 2024

جمیل اطہر قاضی

 ادیب جاودانی کی صحافت کا دوسرا دور اس وقت شروع ہوتا ہے جب پاکستان پیپلز پارٹی سے باغی انقلابی رکن قومی اسمبلی جناب مختار رانا کی رکنیت سے محرومی کے بعد اس نشست پر ضمنی انتخاب ہوا۔ مختار رانا نے اپنی ہمشیرہ زرینہ رانا کو میدان میں اتارا اور وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو نے ان کے مقابلے میں ایک انقلابی شاعر افضل حسین رندھاوا کو پارٹی ٹکٹ دے دیا۔ مختار رانا مزدوروں اور کسانوں کے انقلاب کے علمبردار تھے اور اپنی حق گوئی و بے باکی کی وجہ سے بھٹو کے مد مقابل کھڑے تھے۔ ضمنی انتخابات میں سرکاری اثر و رسوخ استعمال کرنے اور سرکاری حکام کو حکومتی امیدوار کے حق میں کام کرنے پر مجبور کرنے کے لئے حکومتی امیدوار کی ہم نوائی کے جو مناظر لائل پور نے دیکھے۔ اسکے بعد ہونیوالی دھاندلی اور بدعنوانی کا اس سے کوئی موازنہ نہیں کیا جاسکتا۔
 ادیب جاودانی اس سارے عرصے میں مختار رانا کے ساتھ سینہ سپر رہے اور وفاق نے ان کی بھیجی ہوئی خبریں کسی خوف اور لالچ کے بغیر شائع کیں اور بھٹو صاحب کی انتخابی سیاست کا مکروہ چہرہ قوم کو دکھانے میں کامیاب رہے۔ تیسرا دور بھٹو صاحب کے خلاف تحریک نظام مصطفی کا تھا۔
 قومی اتحاد کی تحریک جنرل محمد ضیاء الحق کے مارشل لاء کے نفاذ پر ختم ہوئی۔ ادیب صاحب کو فکر تھی کہ وفاق اب کیا پالیسی اختیار کرے گا۔ جس سے عوام میں اس کی مقبولیت برقرار رہ سکے۔ اسی دوران سابق اٹارنی جنرل جناب یحییٰ بختیار لاہور تشریف لائے اور انہوں نے شاہراہ قائداعظم پر واقع شیزان ہوٹل میں ایک پر جوش بھٹو نواز اجتماع سے خطاب کیا۔ 
شیزان ہوٹل چونکہ چیئرنگ کراس پر واقع روزنامہ وفاق کے دفتر کے قریب ہی تھا اس لئے میں بھی کسی دعوت کے بغیر اس اجتماع میں چلا گیا اور واپس آکر یحییٰ بختیار صاحب کی تقریر اورپیپلز پارٹی کے کارکنوں کے جوش و خروش کی عکاسی کرنے والی ایک رپورٹ اگلے روز کے وفاق میں شائع کی۔ ادیب صاحب نے یہ خبر پڑھی اور لائل پور سے لاہور آئے، مجھے ملے اور استفسار کیا کہ کیا وفاق اب پیپلز پارٹی کا حامی ہوگیا ہے اور کیا اس کی آئندہ پالیسی بھٹو صاحب کی حمایت میں ہوگی۔ میں نے انہیں یہ سمجھانے کی کوشش کی کہ یہ خبر محض اتفاق سے چھپی ہے اور اس پر وفاق کی پالیسی میں کسی تبدیلی کی عمارت تعمیر نہیں کرنی چاہئے۔ میں نے ان کو یہ بتانے کی بھی کوشش کی کہ اخبار کا کام شہر، ملک اور دنیا میں ہونے والے واقعات سے اپنے قاری کو آگاہ کرنا ہے اور جب ہم قومی اتحاد کی حمایت میں خبریں شائع کررہے تھے تو وہ ہماری اپنی گھڑی ہوئی خبریں نہیں ہوتی تھیں بلکہ ملک میں ایک تحریک برپا تھی، جلسے ہو رہے تھے، جلوس نکالے جارہے تھے، پتھرائو ہو رہا تھا، آنسو گیس استعمال کی جارہی تھی، لوگ زخمی اور شہید ہو رہے تھے۔ اسپتالوں میں زخمیوں کے لئے جگہ نہیں بچی تھی تو وفاق نے یہ کام کیا کہ یہ سب واقعات من و عن شائع کئے۔
 ادیب صاحب کچھ عرصہ بعد وفاق سے علیحدہ ہوگئے۔ انہوں نے اپنا رسالہ ماہنامہ مون ڈائجسٹ شائع کیا اور شاہ عالم مارکیٹ میں مون لائٹ سکول کے نام سے ایک درس گاہ کی ابتدا کی اور اس کا افتتاح مجھ ناچیز سے کرایا۔ اگلے روز جب وفاق میں اس افتتاحی تقریب کی تصویر شائع ہوئی تو مصطفی صادق صاحب نے مجھے بلایا اور کہا کہ میں نے آپ سے کئی بار کہا ہے کہ وفاق میں خواتین کی تصاویر شائع نہ کیا کریں۔ میں نے ان سے کہا کہ آپ نے پہلے مجھے یہ کہا ہے یا نہیں کہالیکن آج آپ کی ہدایت کے معنی یہ ہیں کہ میں کوئی ایسی تصویر وفاق میں شائع نہ کروں جس میں میری بھی ایک جھلک دکھائی دیتی ہو۔
ادیب جاودانی کی زندگی کا ایک پہلو روحانیت بھی ہے۔ وہ معلوم نہیں کس طرح سالار والا پہنچے اور اپنے وقت کے ولی اور قطب حضرت صوفی برکت علی لدھیانویؒ سے بیعت ہوگئے اور پھر انہوں نے صوفی صاحب کے مشن کو آگے بڑھانے کے لئے مون ڈائجسٹ کے کئی خصوصی نمبر شائع کئے۔ ایک طرف ذوالفقار علی بھٹو سے ان کا عشق تھا جس کا مظہر بھٹو صاحب پر گزرنے والے حالات و واقعات پر مبنی مون ڈائجسٹ کے بے شمار خصوصی ایڈیشن اور انٹرویوز، دوسری طرف ان سے بھی بڑھ کر حضرت صوفی صاحب کی خانقاہ سے ان کی غیر معمولی لگن، اب وہ محض صحافی ہی نہیں تھے بلکہ صوفی بھی تھے۔ ادیب جاودانی کو صحافی سے صوفی بنانے والا ایک کردار ان کی اہلیہ فوزیہ ادیب بھی تھیں، ادیب صاحب نے ترقی کی جو منازل طے کیں ان میں فوزیہ کا بہت اہم رول تھا۔ وہ خود بھی ایک صوفیہ تھیں جو ہر مہینے محفل میلاد کا اہتمام کرتی تھیں اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بے پایاں محبت رکھتی تھیں۔ ان کی خوبیاں ادیب صاحب کو بھی منتقل ہوتی چلی گئیں اور انشاء اللہ انکی اولاد (بیٹے کاشف ادیب، بلال ادیب عمران ادیب، رضا ادیب اور بیٹی حنا ادیب) بھی انہی اوصاف کے مالک ہوںگے۔ 
میں نہایت عجز و انکسار سے یہ بیان کرنا چاہتا ہوں کہ وہ ہمیشہ جب مجھے ٹیلی فون کرتے یا مجھ سے ملتے تو مجھے استاد محترم کہتے اور مجھے ہمیشہ تکریم و تعظیم کا مستحق گردانتے۔ نظریہ پاکستان سے ان کی وابستگی، نوائے وقت میں ان کی کالم نویسی ، تحریک تکمیل پاکستان سے ان کا تعلق بے شمار پہلو ایسے ہیں جن پر تفصیل سے لکھنے کی ضرورت ہے۔ 
…………………… (ختم شد)

مزیدخبریں