اسلام آباد میں سنی علماء کونسل پاکستان کے رہنما علامہ مسعود الرحمان عثمانی قاتلانہ حملے میں جاں بحق ہوگئے۔غوری ٹائون اسلام آباد میں مسلح افراد نے علامہ مسعود الرحمان کی گاڑی پر فائرنگ کی۔ فائرنگ سے ان کا ڈرائیور زخمی ہوگیا۔
کچھ قوتیں پاکستان کے امن کو تہہ وبالا کرنے کے لیے بروئے کار ہیں۔دہشت گردی کا سیکورٹی اداروں نے قوم کے ساتھ مل کر ایک طرح سے خاتمہ کر دیا تھا۔اس کی خاطر 7 ہزار سے زائد سکیورٹی اداروں کے سپوتوں سمیت 80 ہزار لوگوں نے اپنی جانوں کے نذرانے پیش کیے۔آج دہشت گرد ایک بار پھر سر اٹھا رہے ہیں آئے روز دہشت گردی کی کاروائیاں ہو رہی ہیں۔دہشت گرد عموماً افغانستان سے ملحقہ علاقوں کو نشانہ بناتے ہیں۔اسلام آباد میں ہونے والی یہ دہشت گردی سکیورٹی اداروں کے لیئے لمحہ فکریہ ہے کیونکہ اس سیلوگوں میں عدم تحفظ کا احساس بڑھ رہا ہے۔دہشت گردی میں کچھ علیحدگی پسند ہے ملوث ہوں یا مذہبی شدت پسند، ان کو کنٹرول ایک ہی جگہ سے کیا جا رہا ہے۔ان پر پاکستان کا ازلی ابدی دشمن بھارت ہی سرمایہ کاری کرتا ہے۔پاکستان میں سیاسی اور معاشی استحکام 8 فروری کو ہونے والے انتخابات میں نظر آتا ہے۔دشمن قوتیں ان انتخابات کے بھی در پئے ہیں۔وہ انتخابات کو مؤخر کرانے کے لیے اپنے مہرے استعمال کر رہی ہیں۔ علامہ مسعود الرحمن کو دہشت گردی کا نشانہ بنانا ایسی قوتوں کا مطمح نظر ہو سکتا ہے۔امن کی دشمن ان قوتوں کو کسی بھی صورت کامیاب نہیں ہونے دینا چاہیے۔ہم دہشت گردی کے خلاف ہزاروں جانوں کی قربانیوں کو ضائع کرنے کے متحمل نہیں ہو سکتے۔انٹیلیجنس ایجنسیوں اور سیکیورٹی اداروں کو آج مزید متحرک چوکس و چوکنا ہونے کی ضرورت ہے تاکہ دہشت گردوں اور ان کے سہولت کاروں کو دہشت گردی کی منصوبہ بندی سے قبل ہی دبوچ لیا جائے۔خصوصی طور پر افغان سرحد پر نظر رکھنے کی ضرورت ہے اور پاکستان میں موجود افغان پناہ گزینوں پر جن میں دہشت گرد بھی چھپے ہوئے ہیں۔ ان کو افغانستان واپسی تک کیمپوں میں رکھا جائے۔ **