حکومت مائیکرو انشورنس کے ایک ایسے منصوبے پر کام کر رہی ہے جو مالیاتی و سماجی تحفظ کے موجودہ پروگرامز (بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام اور صحت سہولت پروگرام) کا حصہ بنے گا۔سیکیورٹی اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان نے اس حوالے سے بیمہ کمپنیوں سے معاملات طے کرنا شروع کردیے ہیں۔سیکیورٹی اینڈ ایکسچینج کمیشن نے تجویز کیا تھا کہ مائیکرو یا انکلوژِو انشورنس کو، مالیاتی استحکام زیادہ اطمینان بخش بنانے کے لیے، موجودہ مالیاتی خدمات مثلاً کریڈٹ، سیونگز اور ترسیلاتِ زر کا حصہ بنادیا جائے۔بیمہ کمپنیاں حکومت سے اشتراکِ عمل کے ذریعے ملک بھر میں ایسے بیمہ منصوبے شروع کرسکتی ہیں جن پر زیادہ لاگت نہ آئے اور عام آدمی بھی مستفید ہوسکے۔ یہ بیمہ منصوبے صحتِ عامہ، فصلوں اور لائیو اسٹاک (گلہ بانی) کے شعبوں میں متعارف کرائے جاسکتے ہیں کیونکہ وہیں ان کی زیادہ ضرورت ہے۔موسمی حالات کے ہاتھوں ہونے والی عمومی تباہی سے لوگوں کو محفوظ رکھنے میں یہ بیمہ منصوبے کلیدی کردار ادا کرسکتے ہیں۔ چند برس سے پاکستان کو موسلا دھار بارشوں اور سیلاب کے ہاتھوں تباہی کا سامنا رہا ہے۔ غیر معمولی بارشوں سے زرعی شعبہ زیادہ متاثر ہوتا ہے۔ فصلیں تلف ہو جاتی ہیں اور مویشی جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔سیلاب کے ہاتھوں لاکھوں افراد کو در بہ در ہونا پڑا ہے۔ ایک عشرے کے دوران ایسا تین چار بار ہوچکا ہے۔کسانوں کے علاوہ عام دکان داروں اور محنت کشوں کوبھی بیمے کے دائرے میں لاکر بیمہ کمپنیاں اپنے مالیاتی استحکام کا گراف بلند کرسکتی ہیں۔چھوٹے بیمہ منصوبے قدرتی عوامل سے رونما ہونے والی تباہی کے بعد بحالی کے عمل میں غیر معمولی مدد دے سکتے ہیں۔ ملک بھر میں کم آمدنی والے ان ڈاکیومینٹیڈ محنت کش بیمہ کی سہولت سے مکمل طور پر محروم ہیں۔عالمی ادارہ محنت (سماجی تحفظ پلیٹ فارم) کے مطابق پاکستان بھر میں صرف 9.2 فیصد افراد کو ایک بار کے تحفظ پروگرام اور 8.4 فیصد آبادی کو سوشل ہیلتھ پروٹیکشن اسکیم کا فائدہ پہنچ رہا ہے۔ اس حوالے سے بیمہ کمپنیوں کے لیے کام کرنے اور غیر معمولی منافع کمانے کے بھرپور مواقع موجود ہیں۔سیکیورٹی اینڈ ایکسچینج کمیشن کا کہنا ہے کہ حکومت غیر رسمی شعبوں کے تمام ملازمین کو سماجی یا مالیاتی تحفظ فراہم کرنے کی سکت نہیں رکھتی۔ ایسے میں بیمہ کمپنیاں آگے بڑھ کر اپنے لیے نئے اور پرکشش امکانات تلاش کرسکتی ہیں۔