خامہ خونچکاں اپنا

کوئی بھی ایسا نہیں جس کا قلم خون کے آنسو نہ بہاتا ہو‘ وطن عزیز کو کس کی نظر لگ گئی کہ آج ہر آنے والا دِن زیادہ مخدوش اور پرآشوب ہے‘ ارض وطن کا کوئی علاقہ نہیں جہاں خون نہ بہتا ہو‘ جب تک امریکہ یہاں نہیں آیا تھا یہاں امن و امان تھا‘ غریب ہوتے ہوئے اور مہنگائی کی چکی میں پستے ہوئے بھی لوگ چین کی بانسری بجاتے تھے‘ جس دن سے امریکہ‘ افغانستان پر حملہ آور ہوا ہے‘ یہاں پورے خطے میں سے امن و امان رخصت ہو چکا ہے۔ افغانستان پاکستان اور عراق کو عالمی عدالت سے رجوع کرنا چاہئے کہ فقط اپنے دفاع کی خاطر مزاحمت کر رہے ہیں۔ انہوں نے ہمارے علاقہ کو کھنڈر بنا دیا ہے۔ آج امریکہ یہاں سے بستر بوریا گول کر دے تو اگلے دن ہی برصغیر میں امن و امان کا حلیہ بدل جائے‘ امریکہ نے ہمیں اس طرح اپنے جال میں جکڑ دیا ہے کہ اب ہم آگے جا سکتے ہیں نہ پیچھے جا سکتے ہیں۔
پوری دنیا میں مسلم کا لہو بہہ رہا ہے‘ ایک زخم مندمل نہیں ہو پاتا کہ ایک ضرب ا ور لگ جاتی ہے۔ پہلے ہم سمجھتے تھے کہ شاید عوام ویسے امریکہ امریکہ کرتا ہے مگر اب معلوم ہوا کہ فساد کی جڑ امریکہ ہے‘ امریکہ کی یہ جبلت ہے کہ وہ جنگ کو اپنے آپ سے دور رکھتا ہے کس مہارت سے اس نے نائن الیون کے بعد اپنی جنگ عراق‘ افغانستان اور اب پاکستان میں منتقل کر دی ہے‘ اب اس وقت افغانستان میں اڈہ جما کر پاکستان میں پتنگ اڑا رہا ہے۔ جبکہ ڈور اس کے ہاتھ میں ہے‘ امریکہ کی خوشنودی کی خاطر ہمارے کیسے کیسے جوان جاں بحق ہو رہے ہیں۔ اور کس عیاری و مکاری کے ساتھ پاکستان کی افواج کو تھکایا جا رہا ہے۔ ہمارے حکمران یہ سب کجھ جانتے ہیں‘ پھر بھی آپریشنز جاری ہیں۔
اورکزئی ایجنسی میں آپریشن کے دوران ہی پاکستان کا ہیلی کاپٹر مار گرایا گیا‘ جس میں غالباً 41 اہلکار جاں بحق ہوئے‘ پاکستان کے حکمرانوں کے پاس خزانہ خالی ہے وہ بار بار امداد مانگ رہا ہے تاکہ امریکہ کی جنگ لڑ سکے‘ یہ وقت تھا کہ حکومت پاکستان یکسو ہو کر اپنے اندرونی بحرانوں سے نمٹتی‘ مگر ایک سوچی سمجھی سکیم کے تحت اسے یہ مہلت ہی نہیں دی جا رہی کہ وہ اپنے گریباں میں دیکھ سکے کہ وہ کتنا ٹھیک ہونے والا ہے‘ اندرون ملک حالات ایسے کہ گرانی اور یوٹیلیٹی بلز کی ادائیگی اور ڈاکو راج کا غلبہ ہے۔ ان مسائل کا حکومت جائزہ بھی نہیں لے پاتی کہ حکم آ جاتا ہے ’’ڈومور‘‘ حکمران ہمیں وہ باتیں نہیں بتاتے کہ جن سے دل شق ہو جائے‘ البتہ وہ خود اتنے سنگدل ہیں کہ یہ سب کچھ برداشت کر رہے‘ وہ صرف ڈرون طیاروں کے حملے نہیں روک سکتا۔ بے گناہ لوگ مارے جا رہے ہیں جو بچ رہے ہیں وہ لاکھوں کی تعداد میں گھربار چھوڑنے پر مجبور ہیں‘ اتنا نقصان تو شاید زلزلے میں نہیں ہوا تھا‘ جتنا کہ ان آپریشنز میں ہو رہا ہے‘ آسمانی آفت تو آسمانی آفت ہوتی ہے‘ لیکن یہ جو ہم خود اپنے ہاں برپا کر دیتے ہیں وہ ہماری اپنی لائی ہوئی ہوتی ہے۔ ہمارے صدر اور وزیر اعظم نہایت جری سورما ہیں‘ وہ کبھی کبھی کہیں چھپ کر ایک بیان داغ دیتے ہیں‘ جس سے دشمن محفوظ ہوتے ہیں اور دوست رنجور!

ای پیپر دی نیشن