سرینگر (مانیٹرنگ نیوز + اے ایف پی + بی بی سی) مقبوضہ کشمیر میں مظاہرین اور جنازے کے شرکا پر بھارتی سکیورٹی فورسز کی فائرنگ سے خاتون سمیت مزید 3 کشمیری شہید ہو گئے‘ حکام نے ایک بار پھر کرفیو نافذ کر دیا ہے۔ قبل ازیں شہادتوں کی خبر پھیلتے ہی وادی کے بیشتر اضلاع میں ہڑتال کی گئی اور مظاہروں کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ کٹھ پتلی حکومت نے سکیورٹی پابندیوں کو مزید سخت کر دیا ہے اور شاہراہوں پر سکیورٹی بھی بڑھا دی ہے۔ اے پی پی نے کشمیر میڈیا سروس کے حوالے سے کہا ہے کہ بھارتی فوجیوں نے مظفر احمد بٹ کے جنازے کے شرکا پر فائرنگ کر کے فیاض احمد وانی کو شہید کر دیا۔ ادھر اکھنور میں ایک حملے میں بھارتی بارڈر سکیورٹی فورس کا ایک فوجی ہلاک ہو گیا۔ مانیٹرنگ نیوز / آن لائن کے مطابق مقبوضہ کشمیر میں کشمیر چھوڑ دو تحریک اور بھارتی مظالم کیخلاف احتجاج‘ مظاہروں کا سلسلہ گذشتہ روز بھی جاری رہا۔ لبریشن فرنٹ کے چیئرمین یاسین ملک کو رہائی کے چند گھنٹوں بعد دوبارہ گرفتار کر لیا گیا۔ ریاستی وزیر اعلیٰ عمر عبد اللہ نے کہا کہ مسئلہ کشمیر حل کرنے کا وقت آگیا ہے۔ اگر سرحدیں تبدیل نہیں ہونگی تو انہیں غیر متعلق بنایا جا سکتا ہے۔ سرینگر میں پیر کو ایک نوجوان کے غائب ہونے پر کشمیریوں نے احتجاجی ریلی نکالی۔ پولیس نے مظاہرین کو منتشر کرنے کیلئے اندھا دھند فائرنگ کر دی جس سے ایک نوجوان شہید ہو گیا۔ ایک ماہ سے بھی کم مدت میں شہید ہونے والے کشمیریوں کی تعداد 16 ہو گئی ہے۔ متاثرہ علاقوں کے ہنگامی دورہ کے دوران عمر عبد اللہ نے کہا ”وقت آگیا ہے کہ مسئلہ کشمیر کو حل کرنے کےلئے اس تنازع کی جڑ تک پہنچا جائے اور نیک نیتی اور سنجیدگی کیساتھ اس مسئلہ کو حل کرنے کےلئے کام کیا جائے“۔ انہوں نے مطالبہ کیا بھارتی حکومت کو جہاں پاکستان کیساتھ بات چیت شروع کرنے میں کامیابی ہوئی ہے بالکل اسی طرح ریاست جموں و کشمیر میں بھی فوری طور پر مذاکرات کا سلسلہ شروع کرے۔ وزیر اعلیٰ نے کہا کاش میری زندگی میں وہ دن آئے جب کنٹرول لائن کے دونوں حصے مل جائیں۔ انہوں نے کہا لائن آف کنٹرول پر تجارت کو بڑھانے کےلئے بھی کوششیں کی جائیں گی۔ وزیر اعلیٰ نے کہا کہ منموہن سنگھ اور پرویز مشرف مسئلہ کشمیر کے حل کے قریب پہنچ گئے تھے لیکن حالات نے سارے عمل کو تباہ کر دیا لیکن ہمیں امید کا دامن نہیں چھوڑنا ہو گا بلکہ ازسرنو ان مذاکرات کو شروع کر کے پوری قوت کیساتھ مسئلہ کشمیر کے حل کا نقشہ تیار کرنا ہو گا۔ کے پی آئی کے مطابق ”کشمیر چھوڑ دو تحریک“ کے دوران طلبہ و طالبات نے مختلف مقامات پر احتجاجی دھرنے دئیے۔ اس دوران تعلیمی ادارے بند رہے۔ حریت کانفرنس نے آج اور کل بھی احتجاجی دھرنوں دینے کا اعلان کیا ہے۔ تشدد سے متعدد طلبہ زخمی ہوگئے جبکہ سینکڑوں طلبہ کو گرفتار کر لیا گیا۔ بی بی سی کے مطابق سرینگر کی نواحی بستی ٹینگ پورہ کے سترہ سالہ نوجوان کی مبینہ طور پر حراستی ہلاکت کے خلاف لوگوں نے مظاہرے کئے۔ مظاہرین پر پولیس نے براہ راست فائرنگ کی۔ شہید ہونے والے فیاض احمد وانی کے رشتہ دار جاوید احمد نے بتایا فیاض احمد کے سر مں گولی لگی۔ اس واردات سے متعلق عینی شاہدین کا کہنا ہے کہ سرینگر کے جنوب میں بائی پاس شاہراہ پر واقع ٹینگ پورہ اور گنگ بگ بستیوں کے چند نوجوان سوموار کی شام سڑک پر پتھراو کر رہے تھے کہ نیم فوجی دستوں نے چند لوگوں کو گرفتار کیا اور پوچھ تاچھ کے بعد سترہ سالہ مظفراحمد کے بغیر سب کو چھوڑ دیا گیا۔ سجاد کا کہنا ہے کہ منگل کو صبح سویرے چند نوجوان ندی کے کنارے بیٹھے تھے کہ انہوں نے فورسز اہلکاروں کو مظفر کی لاش ندی میں پھینکتے ہوئے دیکھا۔ انہوں نے شور مچایا تو مظاہرین پر پولیس نے براہ راست فائرنگ کر دی۔ پولیس کارروائی میں احتجاجی جلوس کی عکس بندی کرنے والے کئی میڈیا فوٹوگرافر بھی زخمی ہو گئے۔ ایک بھارتی ٹی وی کے لئے کام کرنے والے کیمرہ مین نے دعویٰ کیا کہ اس نے پولیس اہلکار کو براہ راست فائرنگ کی عکس بندی کی ہے۔