ملک مسائلستان کیوں بنا؟

بڑے شہروں کے پھےلاﺅ کی وجہ سے اخراجات نے سستی مزدوری کے تصور کو برباد کر کے رکھ دےا ہے ۔ اسکے علاوہ ظلم ےہ ہو ا کہ دنےا کے ترک شدہ صنعتی سکرےپ سے کئی کارخانے بنائے گئے ہےں ۔ اسکے برعکس ترقی ےافتہ ممالک کمپےوٹرائزڈ مشےنری سے سستا اور معےاری مال تےار کر رہے ہےں جبکہ پاکستان پرانی مشےنری اور مہنگی مزدوری کی لاگت سے تےا ر شدہ غےر معےاری مصنوعات عالمی منڈی مےں مقابلے پر فروخت کے قابل نہےں رہا ، شہروں کی بے پناہ وسعت اور آبادی کے پھےلاﺅ نے طلبہ کیلئے کئی مسائل پےداکر دےے ہےں۔ آبادی کے لحاظ سے سکولوں اورکالجوں کی تعداد بہت کم ہے۔ طلبہ کی بہت بڑی تعداد داخلے سے محروم رہ جاتی ہے ۔ پرائےوےٹ تعلےمی اداروں مےں فےس بہت زےادہ ہے۔ طلبہ کیلئے ٹرانسپورٹ کا حصول بہت مشکل ہو رہا ہے کئی گھنٹے سڑکوں پر ٹرانسپورٹ کے انتظار مےں گزر جاتے ہےں۔
 سڑکوں ، ٹےلےفون، بجلی ، سےورےج اور پانی کے پانچ سالہ منصوبے شروع ہوتے ہی ناکامی کا شکار ہوجاتے ہےں ۔ جتنی آبادی اور علاقے کیلئے منصوبے بنتے ہےں ، ان سے زےادہ شہروں کی توسےع ہو چکی ہوتی ہے ۔ دس سال سڑکےں اونچی ہوتی رہتی ہےں اور دس سال گلےاں، ملک کے تمام شہر تعفن کا شکار رہتے ہےں ۔ بڑے شہروں پر دھول اور دھوئےں کی دبےز تہےں پھےلی رہتی ہےں ۔ ہمارے شہروں مےں سکرےپ مےں جانے والی ٹرانسپورٹ سڑکوں پر دندناتی پھرتی ہے۔ پرانے ڈےزل انجن پٹرول سے چلنے والی پرانی گاڑےوں مےں نصب کئے جارہے ہےں ، کوئی اتھارٹی چےکنگ نہےں کر رہی ۔ اسی طرح موٹر رکشوں کے سا ئلنسر وں کی جالےاں نہےں ہےں ۔ چنانچہ دھوئےں کے بادل چھوڑتے ہوئے سڑکوں پر رکشے رواں دواں ہےں ۔ان تمام مسائل کا حل شہروں کی آبادی کو کنٹرول کرنے مےں ہے ۔ شنگھائی جب آبادی کے لحاظ سے دنےا کا سب سے بڑا شہر بن گےا تھا تو اس وقت کے حکمرانوں نے اس شہر کی آبادی کا انخلاءکراےا ، تب جا کر اس شہر کے مسائل حل ہو سکے ۔ امرےکہ نے بڑے شہروں پر آبادی کا دباﺅ کم کرنے کیلئے چھوٹے شہروں مےں تمام سہولتےں دی ہےں ۔ ہمےں اسلامی اصول پر سختی سے عمل کرتے ہوئے ان شہروں کی مزےد توسےع پر پابندی عائد کرنی چاہےے تاکہ ان مےں کوئی نئی کالونی نہ بنے اور ان مےں نئے صنعتی اداروں کے قےام پر بھی پابند ی لگا دی جائے تاکہ ےہ شہر جو پہلے ہی گھمبےر مسائل سے دو چار ہےں ۔ ان مےں مزےد اضافہ نہ ہو سکے۔
ارباب اقتدار اور منصوبہ سازوں کو چا ہےے کہ بڑے شہروں کے پھےلاﺅ کو روکنے کے ساتھ چھوٹے شہروں اور بڑے قصبوں کیلئے ترجےحی بنےادوں پر مواصلات ، تعلےم ، صنعت و حرفت ، پانی ، سےورےج ، بجلی ، ٹےلےفون اور گےس کی سہولتےں مہےا کرےں تاکہ بڑے شہروں پر آبادی کا دباﺅ کم کےا جا سکے۔نئے شہر زرعی زمےنوں کی بجائے بنجر زمےنوں پر آباد کےے جائےں۔ دو تےن منزلہ گھر وں کی تعمےر کو ترجےح دی جائے۔
 چھوٹے شہروں کے معاشرتی پہلوﺅں کو سامنے رکھا جائے تو صاف پتا چلتا ہے کہ ان مےں بسنے والوں مےں آج بھی محبت ، شفقت ، اےثار و قربانی اور بھائی چارے کے جذبات موجود ہےں جبکہ بڑے شہروں مےں اجنبےت غالب آ چکی ہے۔ کراچی اور لاہور کے مسائل کو سامنے رکھتے ہوئے کسی اور شہر کو بڑا شہر بننے سے روکنے کے اقدامات کئے جانے ضروری ہےں تاکہ ملک مےںمزےد مےگا سٹےز نہ بن سکےں۔ اگر بڑھتی ہوئی آبادی کے شہروں پر پابندی نہ لگائی گئی تو لاہور کی مثال سامنے رکھےں ۔ چند سالوں مےں لاہور ، گوجرنوالہ ، شےخوپورہ اور قصور اےک شہر بن جائے گا اس طرح حےدرآباد اور کراچی اےک ہو جائیگا۔ جس کا انتظام کوئی بھی انتظامےہ احسن طرےقے سے نہےں کر سکے گی ۔ ارضی و سماوی آفات ہوں ، جنگ کی ہولناکےاں ہوں ےا وبائی بےمارےاں ہوں اگر ان مےں سے کسی اےک کا سامنا کر نا پڑ جائے تو مےگا سٹےز کے انتظامات کا کےا حشر ہو گا ۔ اسکے سوچنے سے ہی رونگھٹے کھڑے ہو جاتے ہےں کےا ان مسائل کا حل کسی کے پاس ہے؟ (ختم شد)

ای پیپر دی نیشن

میں نہ مانوں! 

خالدہ نازش میری سکول کی ایک دوست کو ڈائجسٹ پڑھنے کا بہت شوق تھا ، بلکہ نشہ تھا - نصاب کی کوئی کتاب وہ بے شک سکول بستے میں رکھنا ...