جب شمالی وزیرستان میں آپریشن کے لئے رحمت اللعالمین رسول کریم حضرت محمد کی تلوار کے ساتھ منسوب کرتے ہوئے ضرب عضب کا نام دے کر فوجی کارروائی شروع ہوئی، ہمارے دوست کالم نگار بہادر بے غرض دانشور کالم نگار خواجہ جمشید امام کے گھر اسی دن بیٹی پیدا ہوئی۔ جس کا نام انہوں نے عضب جمشید رکھ دیا۔ پاکستان کی بیٹی اور پاک فوج اور حضور کی تلوار سے نسبت ہے۔ اسے ایک نئے انداز میں جمشید نے اپنی زندگی میں داخل کیا ہے۔ اسی لئے میں کہتا ہوں کہ نسبت نسب سے بڑی ہوتی ہے اور ہم عقیدت عقیدے سے بڑی ہوتی ہے۔ انشاءاللہ پاک فوج سرخرو ہو گی اور سرشار ہو گی۔ جمشید امام کا جذبہ بھی شمالی وزیرستان میں جہاد کرنے والوں اور شہید ہونے والوں کے ساتھ ہم آہنگ ہو گیا ہے۔ قوم پاک فوج کے ساتھ ہے۔ چھوٹے بچے بھی ان کے ساتھ ہیں اس میں اب تو عشق رسول کی تڑپ بھی شامل ہو گئی ہے۔
جمشید کا تعلق تحریک انصاف سے ہے۔ وہ اپنے لیڈر عمران خان کو غلط حکمت عملی اپنانے پر تنقید کا نشانہ بناتا رہتا ہے۔ یہ روایت دوسری سیاسی پارٹیوں میں نہیں ہے۔ ن لیگ میں چودھری نثار کی نواز شریف سے اختلاف کی کہانی ایک ایشو بن گئی تھی۔ جسے شہباز شریف نے بڑی خوش اسلوبی سے سیاسی مفاہمت میں ڈھال دیا ہے۔ ورنہ کسی کی جرات نہیں کہ وہ نواز شریف کے سامنے چوں بھی کر سکے۔ چودھری نثار ایک خوددار اور بہادر آدمی ہیں۔ جمشید بھی ایک مخلص ساتھی ہے۔ چودھری نثار کی طرح اس کا بھی خیال ہے کہ دوست اور ساتھی غلام نہیں ہوتے۔ ان کی اپنی شخصیت اور زندگی ہوتی ہے۔
اس کا خیال ہے کہ لاہور تحریک انصاف کے صدر علیم خان امیر کبیر ہونے کے باوجود ایک درویش آدمی ہے۔ اچھا انسان ہے۔ اس کے چہرے پر کبھی غصہ نہیں دیکھا گیا۔ وہ ہر شخص کی عزت کرتا ہے میں بھی جمشید کی تائید کرتا ہوں۔ گورنمنٹ کالج میں علیم خان پڑھتا تھا۔ میں وہاں پڑھاتا تھا۔ نجانے وہ میری کلاس میں تھا کہ نہیں مگر وہ مجھے استاد محترم سمجھتا ہے۔ جمشید کے بقول جماعت اسلامی سے تحریک انصاف میں آئے ہوئے لوگ اسے کام نہیں کرنے دیتے۔ اعجاز چودھری پنجاب کے صدر بن گئے ہیں اور وہ پنجاب کا وزیراعلیٰ بھی بننا چاہتے ہیں اس طرح جماعت اسلامی کے دوسرے سیاستدان محمود الرشید کے ساتھ اعجاز صاحب کا مقابلہ ہو گا۔ میں شریک اقتدار جماعت اسلامی اور وزیر جماعت سراج الحق طالبان کے .... ہیں۔ مگر اصل مستحق تو علیم خان ہے۔ محمود الرشید تحریک انصاف کے پرانے لوگوں میں سے ہے۔ کسی زمانے میں لاہور ائرپورٹ پر صرف وہی عمران کا استقبال کرتا تھا۔ عمران بھارت کے دورے سے خوش خوش واپس آئے تھے اور کہتے تھے کہ انہیں ہندو جوتشی حضرات نے کہا ہے کہ 2014ءمیں وہ اقتدار میں آ جائیں گے۔ جبکہ جمشید کا خیال ہے کہ عمران پاک فوج کی آخری چوائس ہو گا وہ مقتدر حلقوں میں پسندیدہ آدمی نہیں ہے۔ وہ آجکل پاک فوج کے ساتھ طالبان کے مقابلے میں پاک فوج کے آپریشن ضرب عضب کا حامی ہے اور پاک فوج کے مقابلے میں ایک مخصوص میڈیا کے خلاف ہے۔ جبکہ عمران کے لئے خود خیبر پختونخواہ کچھ دوستوں کاابھی یہ خیال ہے کہ عمران وزیراعظم بنے گا۔ اس وقت سیایس منظرنامے پر وزیراعظم نواز شریف کے علاوہ عمران خان ہیں۔ آصف زرداری بھی ہیں مگر کیا وہ وزیراعظم بنیں گے؟
مجھے لگتا ہے کہ عمران ”14 اگست“ سے بھاگ رہا ہے۔ ”14 اگست“ کا معاملہ یہاں ذومعنی ہو گیا ہے۔ لانگ مارچ اور کوئک مارچ گڈمڈ ہو گئے ہیں۔ 14 اگست پاکستان کی علامت بھی ہے۔ عمران کس سے بھاگنا چاہتا ہے؟ وہ بھارت دوستی کا بھی غیر مشروط حامی ہے۔ نواز شریف سے متفق بھی ہے اور متصادم بھی ہے۔ اسے خود پتہ نہیں کہ وہ کیا کرنا چاہتا ہے اور کیا کر رہا ہے۔
شاہ محمود قریشی اسد عمر اور سیف اللہ بخاری کی مدد سے انقلاب لانا چاہتا ہے۔ برادرم حسن نثار بھی بہت انقلابی اور دوستانہ انداز میں عمران پر تنقید کرتا رہتا ہے۔
14 اگست کے لئے عمران خان ابھی سے کشمکش کا شکار نظر آتا ہے۔ ایک سال میں نواز شریف نے کیا کیا۔ تو کوئی پوچھے کہ خیبر پختونخواہ میں عمران کے وزیراعلیٰ پرویز خشک نے کیا کیا ہے۔ ایک سال میں بار بار تحریک چلانے کے اعلانات کے باوجود کیا ہوا ہے؟ اس دوران لاہور پر شوکت خانم ہسپتال میں اور بنی گالے اسلام آباد میں نواز شریف کے ساتھ عمران کی دو ملاقاتیں بھی ہو چکی ہیں۔ ڈاکٹر طاہر القادری نے یونین کونسل کی سطح تک اپنے رابطے تیز کر دیئے ہیں۔ وہ میڈیا کے لوگوں اور سیاستدانوں سے روزانہ ملاقاتیں کرتے ہیں۔ ان کی ملاقات میرے ساتھ بھی ہوئی ہے۔ وہ انقلاب کی بات کسی ہچکچاہٹ کے بغیر کرتے ہیں وہ اپنے ارادوں میں بڑے پکے ہیں۔ 14 اگست کے لئے بھی ابھی تک عمران خان نے کوئی پالیسی نہیں بنائی۔ کوئی کام نہیں کیا۔ لوگ آتے ہیں عمران خان کے جلسے جلوسوں میں تو وہ خود بخود آجاتے ہیں۔ بس یہی زعم عمران خان کے لئے بہت ہے۔ جس طرح شوکت خانم کینسر ہسپتال خود ہی لوگوں نے بنایا۔ بلکہ اسے خود بخودکہا جائے تو غیر مناسب نہیں ہو گا۔ لوگ عمران کے پاس اپنے آپ آجاتے تھے۔ چندہ دیتے تھے اور عمران کا شکریہ بھی ادا کرتے تھے۔ شکریہ ادا کرتے اور چندہ وصول کرنے میں بھی فاتحانہ اور غیر دوستانہ تاثرات اس کے چہرے پر صاف دیکھے جا سکتے تھے۔ کوئی .... .... اس کے پاس نہیں۔ کوئی بھولی بسری مسکراہٹ اس کے چہرے پر آنے سے ڈرتی ہے۔ نواز شریف کا بھی دوستوں کے لئے یہی حال ہے۔ قریبی ساتھی بھی دونوں سے بیزار اور بددل ہیں مگر انہیں چھوڑ بھی نہیں سکتے۔ ان دونوں کی شخصیت میں کچھ ہے۔ کچھ نہ کچھ تو ہے؟ چودھری نثار نے کچھ سٹینڈ لی۔ پھر بیٹھ گئے۔ نواز شریف کے پاس جا کے بیٹھ گئے حمزہ شہباز شریف بھی .... ملاقات کے .... تھے۔ یہ ملاقات اسلام آباد ہوتی تو مریم نواز ساتھ ہوتی۔ مگر میرا خیال ہے کہ یہی وہ آدمی ہے جو نواز شریف کے گوڈوں گٹوں میں بیٹھ گیا ہے۔ چودھری کے انداز خسروانہ سے کبھی کبھی لگتا ہے کہ اس نے نواز شریف کو وزیراعظم بنوایا ہے۔ کیا یہ بھی چودھری نثار سے پوچھنا پڑے گا کہ عمران خان کو کون وزیراعظم بنوائے گا۔ جمشید سے بھی پوچھا جا سکتا ہے؟
فی الحال تو ہم عمران خان سے پوچھتے ہیں کہ ان کے قریبی ساتھی سیف اللہ خان نیازی کا سلسلہ روزگار کیا ہے۔ اور وہ کروڑ پتی کیسے بنا ہے۔ اس کے لئے تفصیل کسی اگلے کالم میں لکھوں گا۔ عمران جو یو ٹرن لیتے چلے آرہے ہیں۔ اس میں جہانگیر ترین‘ شاہ محمود قریشی‘ اسد عمر اور سیف اللہ نیازی کا کتنا کردار ہوتا ہے؟ عائلہ ملک کو بھی اس حوالے سے نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ آجکل وہ گوشہ نشین ہے مگر گوشہ عافیت کہاں ہے؟
اب ایک افسوس ناک بات کہ شہباز شریف براہ کرم اس کا بھی نوٹس لیں اور آئی جی مشتاق سکھیرا بھی توجہ کریں شب برات کی روحانی برکات والی قبولیت دعا کی گھڑیوں میں گزرتی ہوئی رات کو جمشید امام کے گھر چوری ہوئی۔ درویشوں کے گھر سے چوروں کو کیا ملے گا۔ چور بھی سیاستدان ہو گئے ہیں۔ چھ سات لاکھ روپے کا نقصان ہوا ہے۔ جمشید صاحب کے پاس اس سے زیادہ کیا ہو گا۔ مجھے بہت صدمہ ہوا ہے۔ چوروں کی ذہنی کیفیت پر بھی افسوس ہوا ہے۔ اب پولیس والوں کی انتظامی ذہنیت کیا رنگ دکھاتی ہے۔ ایک جملہ اس حوالے سے جمشید نے بہت خوب کہا ہے۔ وطن کی سرحد کوئی پار کرے تو فوج گولی مار دیتی ہے گھر بھی وطن کی طرح ہوتا ہے۔ گھر کی سرحد کوئی پار کرے تو پولیس اس کی ساتھی بنی جاتی ہے۔ ہماری پولس کے پاس اس بات کا جواب ہے؟ اپنی بیٹی کا نام عضب جمشید رکھنے والے آدمی کا یہ جملہ بھی عمران خان کی آنکھیں کھول دینے کے لئے کافی ہے۔
”غنڈہ اتنا برا نہیں ہوتا۔ اس کا مُنڈا زیادہ برا ہوتا ہے۔ اس کے بقول سیف اللہ نیازی تحریک انصاف کے لئے بہت خطرناک ثابت ہو گا۔ اس طرح ایک آدمی خالد نیازی نے مولانا عبدالستار خان نیازی کی وزارت اور سیاسی عافیت کا بیڑا غرق کر دیا تھا اور کروڑوں کمائے تھے۔