وہ بھی کیا زمانہ تھا پاکستان اور بھارت کے درمیان ستمبر 1965ء کی جنگ جاری تھی ہماری افواج کمال جذبہ حب الوطنی سے سرشار پوری قوت ایمانی اور جانفشانی سے اپنے سے کئی گنا بڑی بھارتی افواج سے برسر پیکار تھیں۔ بری‘ بحری اور فضائی ہر محاذ پر انہیں ہزیمت اور پسپائی سے دو چار کر رہی تھیں تو قوم بھی یک جاں یک جاں اور ایک زبان ہو کر سیسہ پلائی دیوار بنے ان کی پشت پر کھڑی نعرہ زن تھی۔ قدم بڑھائو‘ ساتھیوں مجاہدوں ہم تمہارے ساتھ ہیں اور ایسا ہی ہوا۔ اور پھر وہ کیا سماں اور منظر تھا ہمارا ہو گھڑی ساتھ دینے والا مخلص دوست چین اپنی پوری قوت کے ساتھ ہمارے ساتھ کھڑا تھا۔ یہاں تک کہ وہ بھارت پرحملہ کرنے کے لئے اپنی افواج بھارت کی سرحد پر لے آیا تھا اور بین الاقوامی سرحد کو پار کرنے کے لئے ایک جواز پیدا کرنے کے لئے بہانہ تراشا کہ بھارت جوان کی بھیڑیں اٹھا لایا ہے انہیں واپس کرے ورنہ حملہ کے لئے تیار رہے اس پر بھارت خواس باختہ ہو کر اپنی بھیڑیں کے کئی ریوڑ سرحد پر لے آیا اور چین سے کہا ان میں سے وہ جتنی بھیڑیں چاہے لے لے ان کی گلو خلاصی کر دے لیکن چین نہ مانا اور کہا کہ ہمیں بھارتی نہیں اپنی بھیڑیں چاہئیں جو بھارت ہمارے علاقے سے اٹھا کر لے گیا ہے حالانکہ ایسا کچھ بھی نہ تھا یہ سرحد پار کرنے کا ایک بہانہ تھا اور ایسا کرنے کے لئے وہ بالکل تیار تھا۔ اور پیشتر اس کے کہ وہ بھارت پر حملہ کر کے اسے تہس نہس کر دیتا سیز فائر ہو گیا اور ہم روس کی انگلی پکڑے کاشقند جا بیٹھے اور بھارت کے ساتھ ایک ایسا معاہدہ کر لیا جس نے ہمارا ہماری افواج کا سب کیا کرایا ڈبو کر رکھ دیا۔یہ واقعہ آج اس لئے یاد آ رہا ہے کہ ان دنوں عمران خان نے نواز حکومت سے کچھ ایسا ہی مطالبہ کیا ہے جیسے چین نے بھارت سے کیا تھا۔ اور عدم تعمیل کی صورت میں اس پر چڑھ دوڑنے کا الٹی میٹم دیا تھا عمران خان کا کہنا یہ تھا کہ 2013ء کے انتخابات دھاندلی کی پیداوار ہیں ان کی ہڑتال کرائی جائے۔ اور پھر نئے سرے سے بائیو میٹرک سسٹم کے تحت صاف اور شفاف الیکشن کرائے جائیں اور ایسا کرنے کے لئے موزوں قوانین ترتیب دے کر ایک خود مختار اور غیر جانب دار الیکشن کمیشن تشکیل دیا جائے جس کے تحت کسی قسم کی دھاندلی کا امکان نہ رہے ان کا یہ مطالبہ جمہوری تقاضوں کے پیش نظر جائز بھی ہے اور بہت سے لوگ اس کی تائید بھی کر رہے ہیں اپنے اس مطالبے کو منوانے کے لئے انہوں نے پہلے پہل تو صرف چار مخصوص حلقے کھولنے کا مطالبہ کیا کہ اس کے خیال کے مطابق ایک بھری دیگ کو دم پختہ جانچنے کے لئے اس میں سے چند دانے ہی چکھے جاتے ہیں جب کہ دوسری طرف حکمومت کو خدشہ ہے کہ اگر یہ چار حلقے ہی کھول دیئے تو معاملہ یہاں تک محدود نہیں رہے گا۔ بلکہ بات نکلے گی تو بہت دور تک جائے گی۔ دوسری طرف حکومت کو عمران خان کے یہ مطالبات ہرگز منظور نہیں بلکہ وہ انہیں جواب دینے کی پوزیشن میں ہی نہیں تو کیا یہ سمجھ لیا جائے کہ یہاں اب دمادم مست قلندر ہونا ناگزیر ہو چکا ہے تو اللہ ہی خیر کرے ’’دمادم مست قلندر‘‘ سے ہمیں یہاں ایک اور واقعہ یاد آ رہا ہے کہ 1971ء کی پاک بھارت جنگ سے پہلے جب دونوں ملکوں کے درمیان کشیدگی انتہاء کو پہنچی ہوئی تھی اور دونوں طرف سے فوجیں ایک دوسرے پر وار کرنے کے لئے تیار کھڑی تھیں۔ تو اس صورت حال پر تبصرہ کرتے ہوئے۔ ذوالفقار علی بھٹو نے کہا تھا کہ اب کے بھارت نے جنگ کا پنگا لیا تو دمادم مست قلندر ہو گا۔ اس کے کچھ دنوں بعد جنگ چھڑی اور پاکستان دولخت ہو گیا تو بھٹو نے وضاحت کی کہ میں نے کہا تھا تاکہ اب کے جنگ چھڑی تو دمادم مست قلندر ہو گا اب اللہ نہ کرے عمران خان کو بھی کبھی ایسی وضاحت نہ کرنی پڑے اب عمران خان نے تو اپنی پوری مہارت اور توانائی کے ساتھ یہ بال میاں نواز شریف کی وکٹوں پر دے مارا ہے دیکھتے ہیں وہ یہ بال کس طرح کھیلتے ہیں جب کہ واضح رہے یہ بال کرکٹ کا نہیں سیاست اور سیاسی بصیرت کے کھیل میں کھیلا جانے والا بال ہے وہی جیتے گا جو سیاسی بصیرت سے مالا مال ہو گا۔ اور جب ڈاکٹر طاہر القادری بھی میاں برادران سے ٹونٹی ٹونٹی کھیلنے کی جارحانہ تیاری کر رہے ہیں تو ہم سوچتے ہیں ایسے میں ملک کا کیا بنے گا یہ ملک جو کہ پہلے ہی تاریخ کے بدترین بحرانوں سے دو چار ہے بلکہ اپنی بقا کی جنگ لڑ رہا ہے مزید کسی ایسے کھیل کا متحمل نہیں ہو سکتا جو سراسر کرسی اور اقتدار کی خاطر کھیلا جا رہا ہو ایسا کوئی بھی گندا کھیل یعنی فائول پلے یا لوز شارٹ ملک کو خدانخواستہ تباہی کے کنارے لا کھڑا کرے گا۔ ایسی صورت میں یہ جہاں عمران خان کو سوجھ بوجھ اور جذبہ حب الوطنی کا امتحان ہو گا وہاں میاں نواز شریف کی دور بینی اور دور اندیشی کا بھی کڑا ٹیسٹ ہو گا کیا ہی اچھا ہو ہمارے یہ لیڈر اس خطرناک صورت حال سے خیر خیریت سے نکل جائیں۔ اور وہ ایسا کوئی حل جو نکال سکیں جس سے سانپ بھی مر جائے اور لاٹھی بھی بچ جائے اور ہم تو یہ دعا ہی کر سکتے ہیں کہ چاروں طرف سانپوں میں ہی گھرے ہوئے ہیں۔