پاکستان کی خارجہ پالیسی کیا ہے؟

ملک و قوم جس صورتحال سے آج گزر رہی ہے ایسی صورت ِ حال کا سامنا اس سے پہلے کبھی نہ تھا۔ بی بی سی کی نشریات کے حوالے سے پاکستان کی ایک سیاسی جماعت اور اسکے سربراہ پر پاکستان میں تخریبی کارروائیاں کرنے کیلئے بھارت سے بھاری رقوم ، ٹریننگ اور اسلحہ فراہم کرنے کی جب سے خبریں آئی ہیں ان دنوں سے انڈیا نے زور شور سے اپنے غیر اخلاقی، غیر قانونی اور بین الااقوامی قوانین و ضوابط کی خلاف ورزیوں پر پردہ ڈالنے کیلئے پاکستان پر انڈیا بارڈر ایریااور دیگر اندرونی معاملات میں دخل اندازی کے الزامات کا واویلا مچا رکھا ہے۔ اگرچہ پہلے بھی ’’چور مچائے شور‘‘ کے مترادف انڈیا آئے روز پاکستان بارڈر کی خلاف ورزیاں کرتے ہوئے پاکستانی علاقے کے ا ندر گھس کر کئی لوگوں کو قتل کر چکا ہے۔ دو تین برسوں سے خاص طور پر سیالکوٹ سیکٹر پر آئے روز فائرنگ کر کے بے گناہ لوگوں کو شہید کرنا انڈیا کا وطیرہ بن چکا ہے۔ واہگہ بارڈر کے قریب بھی گاہے بگاہے انڈین فورسز پاکستانی بارڈر کے اندر گھس کر کئی بے گناہ مسلمانوںکو شہید کر چکی ہیں۔ آزادکشمیر سے حیدرآباد تک تمام بارڈر پر انڈیا پاکستان کے بے گناہ شہریوں کو آئے دن ظلم کا نشانہ بنا رہا ہے اور اسکے ساتھ ساتھ پاکستان کے اندر بھی کئی انڈین تخریب کار اپنی کارروائیوں میں ہمہ وقت مصروف ہیں۔ خیبر پی کے اور فاٹا کے علاقوں سے بعض مساجد میں ایسے ہندو بھی پکڑے گئے جو برس ہا برس سے مساجد میں امامت کروا رہے تھے۔
دینا بھر میں ’’را‘‘ کا نیٹ ورک کس سے ڈھکا چھپا ہے ’’را‘‘ کی ایسی کارروائیاںکس کس روپ میں پاکستان میں را کے ایجنٹ انتشاراور تخریبی کیلئے کر رہے ہیں جن کے بارے میں عام انسان سوچ بھی نہیں سکتا۔ انڈین را کے ریٹائرڈ ملازم ایک سکھ نے پاکستان کے ایک معروف اخبار کو 1990میں انٹرویو دیتے ہوئے بتا یاتھا کہ جن دنوں ذوالفقار علی بھٹوپر عدالت میں کیس زیر سماعت تھا، را کے ایجنٹ وہ سکھ مصر کے ایک میگزین کے نامہ نگار کی حیثیت سے اسلام آباد (پاکستان) میں موجود رہے۔ دو تین سال تک وہ متواتر پاکستان کی جاسوسی کرتے رہے اور کامیابی کے ساتھ متعین وقت گزار کر واپس گئے۔پاکستان کیخلاف انڈیا ہر روز اخبارات ، ٹی وی چینلز ار دنیا بھر کے ہر فورم پر شور مچا رہا ہے کہ پاکستان انڈیا کے اندرونی معاملات میں دخل اندازی کر رہا ہے۔ انٹرنیشنل بارڈر کی خلاف ورزیاں کر رہا ہے۔
سوچنا یہ ہے کہ ہمارا محکمہ خارجہ اور ہمارے دنیا بھر میں سفارتخانے اس معاملے میں کیا کردار ادا کر رہے ہیں۔ کیا ہم انڈیا کی کارروائیوں کیخلاف کوئی مؤثر احتجاج کر رہے ہیں یا نہیں؟ کیا دنیا کو باور کروا رہے ہیں کہ پاکستان کیخلاف جو جو دہشت گردی انڈیا کر رہا ہے اس پرپردہ ڈالنے کیلئے شور مچا رہا ہے ۔ اگر پاکستان انڈیا کے مذکورہ اقدامات کیخلاف کچھ کر رہا ہے تو اس کا رزلٹ کیا سامنے آرہا ہے؟ اگر کوئی کاروائی نہیں کر رہا تو کیوں نہیں کر رہا؟
اب تو افغانستان نے بھی کھلے عام پاکستان پر افغانستان میں تخریبی کارروائیاں کروانے کے الزامات لگانے شروع کر دیئے ہیں حالانکہ معاملہ اسکے بالکل برعکس ہے۔ پاکستان میں تخریب کرنے اور کروانے والے تمام لوگ افغانستان میں بیٹھے ہیں۔انکی امدا د بھی وہاں سے ہو رہی ہے۔ ٹریننگ اور اسلحہ بھی فراہم کیا جا رہا ہے ۔دوسری جانب کوئی پچاس لاکھ افغان مہاجرین بھی 35برس سے پاکستان میں موجود ہیں جو نہ صرف ہماری اکانومی پر بوجھ ہیں بلکہ ان میں سے بعض لوگ سمگلنگ اور تخریبی کارروائیوں میں بھی ملوث ہیں۔ اسکے باوجود پاکستان نہ تو افغان مہاجرین کو واپس اُنکے ملک روانہ کر سکا ہے نہ ہی اُن کو کیمپوں تک محدود کر سکا ہے۔آخر اتنی کمزوری کی وجوہات کیا ہیں؟
پاکستان نے روسی یلغار کے دوران دامے درمے جو مدد کی تھی وہ ساری خاک میں مل گئی ہے۔ اب پاکستانی قوم اپنے اُن رہنمائوں کو بُرا بھلا کہنے پر مجبور ہے جنہوں نے آڑے وقت میں افغانستان کی مدد کی تھی۔
اسی طرح پاکستان مشرقی اور مغربی دونوں جانب سے دشمنوں کے نرغے میں ہے۔ ہمارے وزیر اعظم اور دیگر ارباب ِ بست و کشاد میں یہ جرأت نہیں کہ وہ انڈین وزیراعظم اور افغانی صدر کو اُن تمام شواہد کے ساتھ جو ہماری فورسز کے پاس ہیں بتا سکیں کہ انڈیا اور افغانستان پاکستان کو کس کس طرح سے نقصان پہنچا رہے ہیں۔ بی بی سی کی خبروں میں آج تک ہمیشہ صداقت پائی جاتی ہے۔انڈیا کی پاکستان میں تخریبی کارروائیاں کروانے کیلئے جس سیاسی جماعت کے بارے میں خبریں نشر ہوئی ہیں کیا وہ ثابت کر سکتے ہیں کہ بی بی سی کی خبروں میں صداقت نہیں اگر بی بی سی کی خبریں سراسر غلط ہیں توانڈیا اور پاکستان کی وہ سیاسی پارٹی انٹرنیشنل کورٹ یا یو کے کی عدالتوں میں بی بی سی کے خلاف کیس کیوں نہیں دائر کرتی؟
ان دنوں ملک ہر طرف سے اندونی اور بیرونی خلفشاروں اور سازشوں کا شکار ہے۔انرجی بحران کے سبب عوام ہڑتالیں کر رہے ہیں مہنگائی کے جن نے بہت سے بچے پیدا کر لیے ہیں۔ملک قرضوں کے شکنجے میں جکڑا ہوا ہے۔انڈسٹریل پیداوار اور زرعی پیداوار کا فقدان ہے ایکسپورٹ کریں تو کیا کریں؟عوام ٹیکسوں کے بوجھ تلے کراہ رہے ہیں۔ بالواسطہ اور بلاواسطہ ٹیکس کئی سو فیصد لاگو ہیں۔ کسان کے کھیت سے صارف تک پہنچتے پہنچتے پانچ روپے کی اشیاء (Commodities) پانچ سوروپے کی ہو جاتی ہیں۔ افغانستان گزشتہ 45برس سے حالت ِ جنگ میں ہے لیکن افغانی کرنسی پاکستانی روپے سے مہنگی ہے۔ عراق، ایران اور کویت بھی جنگ کی حالتوں سے گز رہے ہیں انکی کرنسی کی قیمت بھی پاکستانی کرنسی سے کہیں زیادہ ہے۔ ہمارے ہاں اشیائے خوردنی کے ریٹ چند دنوں میں ہی بڑھ جاتے ہیں جبکہ دیگر ممالک میں سالہاسال تک اشیائے خوردنی کے ریٹ وہی رہتے ہیں جس کے باعث وہاں کے عوام حکومتوں کیخلاف زبان نہیں کھولتے۔ بجلی ، گیس اور پانی کی وہاں کمی نہیں لوگ سکون سے اپنے اپنے کاروبار میں مصروف ہیں۔ ہم اپنے پیارے ملک میں قدرت کی تمام عطا کردہ نعمتوں کے باوجود بحرانوں کا شکار ہیں۔ملک میں معدنیات کے ماشاء اللہ ذخیرے جا بجا موجود ہیںہم ان کو زیر استعمال نہیں لا سکتے۔ دشمنوں نے ہمارے راستے میں ہمارے ہی ملک میں اس طرح کانٹے بچھا دیئے ہیں کہ ہم ترقی کی راہوں پر گامزن ہونے سے قاصر ہیں، اور دشمنوں کے حربوں کا توڑ بھی نہیں کر پا رہے ۔ ہمارے محکمہ داخلہ اور محکمہ خارجہ کے لوگ چوکنے ہو کر کام کرنے سے قاصر ہیں۔
جس طرح خبروں میں مشرقی اور مغربی جانب سے الزام تراشی ہو رہی ہے ہمارا میڈیا اس کا جواب دینے سے کیوں گریزاں ہے؟اگر محکمہ خارجہ صحیح صورت ِ حال سے میڈیا کو آگاہ کرے تو کرنٹ آفیئرزکے ہر روز کے پروگراموں اور اخبارات میں نمایاں طور پر عوامی آگاہی اور بین الاقوامی آگاہی کے پروگرام اس طرح سے شروع کیے جائیں کہ دشمنوں کو اُنکی پاکستان میں تخریبی کارروائیوں کے ثبوت فراہم کرتے ہوئے پاکستان کے سامنے معذرت کرنے پر مجبور کر دیا جائے۔

ای پیپر دی نیشن