عالمی طور پر ویمن ڈے (عورتوں کا دن) منایا جاتا ہے۔ ہم بھی مغرب کی تقلید کرنے کو اعزاز سمجھتے ہیں۔ مغرب اور امریکہ نے انسانوں کی آسودگی اور ترقی کے لئے جو کچھ کیا ہے اسے میں خراج تحسین کے قابل سمجھتا ہوں مگر ان کی اندھا دھند پیروی غلامانہ ذہنیت اور احساس کمتری کی غماز ہے۔ معاشرتی طور پر جو معاملات ہیں ان میں ہم آگے ہیں مگر بہت پیچھے رہ گئے ہیں۔ اگر ہمارے پاس دولت، طاقت اور حمیت ہوتی تو مغرب جو ہمارے اصولوں اور باتوں پر عمل کر کے اتنا آگے نکلا ہے تہذیبی اور تمدنی طور پر زندگی گزارنے کا اپنا کوئی نظام ان کے پاس نہیں ہے۔ ہم سب سے آگے ہوتے۔
ویمن ڈے تو وہ مناتے ہیں مگر ایک بھی ایسی عورت ان کے پاس ہے جس کی مثال دی جا سکے؟ ایک بہترین ازدواجی زندگی کے حوالے سے رحمت عالم محسن انسانیت رسول کریم حضرت محمدﷺ کی اہلیہ ام المومنین حضرت خدیجتہ الکبریٰؓ سے بڑی مثال کوئی اور نہیں ہے۔ ایسی مثالی بیوی آسمان کی بوڑھی نگاہوں نے آج تک زمین پر چلتی ہوئی نہیں دیکھی۔ ویمن ڈے کے لئے اس سے بڑی یاد تاریخ انسانی میں نہیں ہے۔ محکمہ اوقاف پنجاب کے دانشور اور اہل علم و دانش ڈائریکٹر جنرل طاہر رضا بخاری نے مجھے فون کیا کہ ہم حضرت خدیجتہ الکبریٰؓ کا دن منا رہے ہیں۔ اس کے ساتھ سیدہ کائنات حضرت فاطمتہ الزہراؓ کا بھی ذکر خیر ہو گا۔ مجھے بھول گیا کہ وہ دن کیا تھا۔ میری گذارش سیکرٹری اوقاف محمد شہر یار سلطان اور ڈی جی اوقاف طاہر رضا بخاری سے ہے کہ وہ حضرت خدیجہؓ، حضرت فاطمہؓ اور ساری امہات المومنینؓ کا دن منانے کا بھی اہتمام کریں۔ آج کے لئے بھی موضوع امہات المومنینؓ تھا مگر تذکرہ زیادہ تر حضرت خدیجہؓ کا ہوتا رہا۔ سلطان صاحب اور بخاری صاحب دونوں روحانی قبیلوں سے تعلق رکھتے ہیں۔ سلطان صاحب سلطان باہوؒ صاحب کے سلسلے کے چشم و چراغ ہیں اور ان کا اولیااللہ کے خانوادے سے تعلق تو ثابت ہے مگر مجھے یقین نہیں آ رہا کہ وہ ایک اعلیٰ بیورو کریٹ بھی ہیں۔ میں تو بیورو کریسی کو برا کریسی کہتا ہوں مگر اب کیا کروں۔ سارے بیورو کریٹ سلطان صاحب جیسے ہو گئے تو پھر میں بیورو کریسی کا کیا نام رکھوں گا۔ یہ کریڈٹ شہباز شریف کا بھی ہے کہ وہ ایسے افسران بالا کو لے کے آئے ہیں۔ محکمہ اوقاف کے لئے اس سے بہتر انتخاب نہیں ہو سکتا۔ میں اس پر بھی حیران ہوں کہ ڈائریکٹر جنرل کے طور پر طاہر رضا بخاری کو یہاں رکھا ہوا ہے۔ وہ اچھے دل و دماغ کے آدمی ہیں۔ وہ خانقاہی نظام کو بہترین روحانی نظام میں بدلنا چاہتے ہیں۔ میں ہمیشہ ”برا کریٹس“ اور ”افسران تہہ و بالا“ کے خلاف لکھتا ہوں۔ سلطان صاحب اور بخاری صاحب کا شکریہ کہ ان کی وجہ سے افسران کے حق میں لکھ سکا ہوں۔ سیاستدان بھی ہمت کریں تاکہ میں ان کے حق میں لکھ سکوں۔ پیپلز پارٹی کے ایک سیاستدان رانا آفتاب نے مجھے بہت متاثر کیا ہے۔ مگر ”صدر“ زرداری نے انہیں الگ بٹھا دیا ہے اور وہ اپنی پارٹی کے زوال کے کمال کو اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں۔ طاہر رضا بخاری کا خانوادہ نارنگ منڈی اور جڑانوالہ میں بہت عقیدت اور عزت کا وارث گھرانہ ہے۔ نارنگ منڈی میں جہاں وہ رہتے ہیں اسے پیر بخاری محلہ کہتے ہیں۔ سیاستدان بھی مجھے موقع دیں بلکہ اجازت دیں کہ میں ان کی عزت کر سکوں اور ان کی حمایت کر سکوں؟
میں یہاں صوبائی خطیب برادرم عارف سیالوی کا خاص طور پر ذکر کرنا چاہتا ہوں۔ وہ میرے پیر بھائی ہیں۔ بہت اچھے بھائی ہیں۔ خطیب مسجد داتا صاحب مفتی رمضان سیالوی بھی بہت محترم ہیں۔ ایسے لوگ محکمہ اوقاف میں ہیں تو اس کی حیثیت اور اہمیت دوبالا ہو گئی ہے۔ میں داتا صاحبؒ کے سائے میں جامع ہجویریہ میں بھی گیاہوں اور آج مجھے محکمہ اوقاف کے صدر دفتر میں آنے کا موقع ملا ہے۔ مذہبی اور روحانی سرگرمیاں لوگوں کو رسول کریم کے عشق سے جوڑ دیں گی۔ اور لوگ آپ کی زندگی کے ساتھ اپنی زندگی کو مربوط کرنے کی کوشش کریں گے۔ حضور کی ازدواجی زندگی دنیا والوں کے لئے اور دین والوں کے لئے مشعل راہ کا کام دے گی۔
حضور نے فرمایا کہ تم میں سے وہ اچھا جو اپنے گھر والوں کے لئے اچھا۔ گھر والوں میں گھر والی بہت اہم ہے۔ میں چونکہ یہ استحقاق نہیں رکھتا کہ علمائے دین کے سامنے کچھ کہوں میں تخلیقی کیفیتوں کا آدمی ہوں۔ فطری طور پر شاعر ادیب ہوں۔ کالم نگار تو اس کے بعد ہوا ہوں۔ میں نے بہت مودبانہ انداز گفتگو اختیار کیا۔ کسی ملک میں سربراہ مملکت کی اہلیہ خاتون اول کہلاتی ہے۔ میرے خیال میں دنیا کے سب مسلمانوں کے لئے ام المومنین حضرت خدیجتہ الکبریٰؓؓ عظیم خاتون اول ہیں مگر یہ لفظ مجھے ان کے مرتبے کے سامنے کمتر لگتا ہے۔ میں انہیں سب سے بڑی خاتون اسلام سمجھتا ہوں۔ جیسے محترمہ فاطمہ جناح کو مرشد و محبوب ڈاکٹر مجید نظامی نے مادر ملت کا خطاب دیا جسے ساری قوم نے قبول کیا۔ ان کے نام سے بہت کم لوگ واقف ہیں۔ جب لیاقت علی خان کی بیوی نے خاتون اول کے تنازعہ کا آغاز کیا تو قوم نے مادر ملت کو خاتون پاکستان کا خطاب پیش کیا۔ خاتون اول تو بدلتی رہتی ہیں مگر خاتون پاکستان ایک ہے اور ہمیشہ سے وہ محترمہ فاطمہ جناح مادر ملت ہیں۔
یہ مثال میں نے بالواسطہ پیش کی ہے۔ ام المومنین حضرت خدیجہؓ ہمیشہ ہمیشہ کے لئے خاتون اسلام ہیں۔ حضور کی پیاری بیٹی حضرت فاطمتہ الزہراؓ خاتون جنت ہیں۔ اس سے مجھے یاد آیا کہ عورت کی کئی حیثیتیں ہیں۔ ماں جنت ہے۔ بہن عزت ہے۔ بیٹی رحمت ہے اور بیوی محبت ہے۔ یہ چاروں صفات حضور کے آنگن میں موجود تھیں۔ آپ کی سیرت اور زندگی سے باخبر ہر مسلمان اور انسان کی زندگی بھی ان خوبیوں کی خوشبو سے بھر سکتی ہے۔ جو حضور کو جانتے ہیں وہ انہیں مانتے ہیں اور کامیاب بلکہ سرخرو اور سرشار زندگی گزارتے ہیں۔ ازدواجی زندگی اس کا حصہ ہے۔
آج جدید زندگی میں جو ماڈرن عورتوں کا خیال ہے کہ وہ ورکنگ ویمن ہیں تو سن لیں کہ پہلی عورت جو ورکنگ لیڈی تھیں وہ حضرت خدیجہؓ تھیں۔ وہ تجارت کے پیشے سے منسلک تھیں۔ ایک بہت کامیاب تاجرہ تھیں۔ وہ بہت امیر کبیر عورت تھیں مگر دل کی فقیر خاتون تھیں۔ ان کے پیسوں سے حضور نے بھی تجارت کی اور تجارت کو پیغمبری پیشہ بنا دیا۔ تجارت کے جو اصول آپ نے اختیار کئے ان میں آپ کو اپنی اہلیہ کا مکمل تعاون حاصل تھا۔ آپ نے تجارت سے عام لوگوں کا بھلا چاہا۔ بھلا کیا۔ مہنگائی نہیں ہونے دی اور غریبوں کے لئے آسودگی پیدا کی۔ منافع خوری، ذخیرہ اندوزی اور مہنگائی کی روک تھام کی۔ آج رمضان المبارک میں مہنگائی کرنے والے کچھ تو سوچیں کہ مسلمان ہیں تو کیا کر رہے ہیں وہ آخرت میں حضور کو کیا منہ دکھائیں گے۔ حکومت بھی اس ضمن میں کوئی دلچسپی نہیں لیتی۔ حکمرانوں سے بھی پوچھ گچھ ہو گی۔
بیوگی کے بعد سرداران قریش نے حضرت خدیجہؓ کو شادی کے پیغامات بھیجے جو انہوں نے قبول نہ کئے اور پھر خود حضرت محمد کو شادی کا پیغام بھیجا۔ وہ آپ سے 15 سال بڑی تھیں۔ شادی کے وقت آج بھی لوگ سوچتے ہیں کہ لڑکی کی عمر کیا ہے؟
اپنے سے بڑی عمر کی خاتون کے ساتھ شادی کے بعد آپ کی ازدواجی زندگی اتنی خوشگوار تھی کہ اس کی دوسری کوئی مثال نظر نہیں آتی۔ جب آپ غار حرا میں اپنی تنہائیوں کو تسخیر کر رہے تھے اپنے دل سے ہمکلام تھے آپ نے اپنی شریک سفر سے کہا کہ کبھی کبھی گھبراہٹ ہوتی ہے۔ تو حضرت خدیجہؓ نے روایتی بیویوں کی طرح یہ نہیں کہا کہ آپ وہاں اکیلے میں کیا کرتے ہیں اب آپ گھر آ جائیں۔ انہوں نے جو کچھ کہا اس تخلیقی اور انوکھی معنویت سے بھری ہوئی بات پر کتابیں لکھی جا سکتی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ میں حرا کے دامن میں خیمہ لگا لیتی ہوں۔ وہاں سے فاطمہؓ کو آپ تک ضرورت کی چیزیں لے جانے میں بھی آسانی ہو گی اور آپ صرف یہ سوچ لیا کریں کہ میں باہر موجود ہوں۔ آپ کی کیفیت بدل جائے گی یہ بات جذبوں کی شراکت اور رفاقت کے سارے سلیقوں کا خلاصہ ہے۔
حضرت فاطمہؓ کی تربیت بھی اس عظیم خاتون نے کی جو ماں کے سب رتبوں سے واقف تھیں۔ بیٹی خاتون جنت بنی اور حسنؓ و حسینؓ کی ماں بنی۔ حضور کی اولاد صرف حضرت خدیجہؓ سے تھی جب آپؓ فوت ہو گئیں تو ساری عمر آپ ان کا دن مناتے تھے۔ ایک دفعہ ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہؓ نے کوئی بات کر دی تو آپ کا چہرہ مبارک سرخ ہو گیا۔ یہ آپ کے غصے کا زیادہ سے زیادہ اظہار تھا۔ آپ نے فرمایا عائشہ یہ بات پھر نہ کرنا خدیجہؓ میری محسنہ تھی۔ کیا آج بھی کوئی شوہر اپنی بیوی کے لئے یہ لفظ استعمال کرتا ہے؟
ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہؓ بھی آپ کی محبوب اہلیہ تھیں۔ حسن و جمال اور عقل و کمال میں ان کا کوئی ثانی نہیں ہے۔ رسول کریم کی رحلت کے بعد صحابہؓ کسی مسئلے پر الجھ جاتے تو کہتے حضرت عائشہؓ موجود ہیں۔ ان کے پاس جائیں گے اور مسئلہ حل ہو جائے گا۔ خدائے محمد کی قسم کوئی مرد صحابی بھی آپ کی علمی فضیلتوں کے سامنے نہ ٹھہر سکتا تھا۔ آپ نے غزوہ بدر میں حضرت عائشہؓ کے آنچل کو علم (جھنڈا) بنا لیا تھا۔ خاتون جنت سیدہ کائنات کے لئے کسی اور کالم میں کچھ عرض کروں گا۔
جو مرتبہ آپ نے عورت کو عطا کیا وہ بے مثال ہے۔ آئندہ کے لئے میری گزارش ہے کہ ویمن ڈے کے لئے امہات المومنینؓ بالخصوص حضرت خدیجہؓ کے دن کو یاد رکھا جائے۔