کرکٹ بورڈ کے اعلیٰ افسران ڈاکٹر ظفر الطاف کی نظر میں!

Jul 07, 2015

حافظ محمد عمران

پاکستان کرکٹ بورڈ ملک میں کھیل کا سب سے امیر ادارہ ہے یہاں وسائل کی بھی کوئی کمی نہیں اور وسائل کو ضائع بھی دل کھول کر کیا جاتا ہے۔ اگر اس وسائل کے ضیاع کا کوئی عالمی ریکارڈ بنتا ہو تو یقینا سپورٹس بورڈ پنجاب گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈ کی انتظامیہ سے رابطہ کرکے پی سی بی کا نام تجویز کرتا۔ پی سی بی کی اعلیٰ انتظامیہ کھیل کی ترقی کے ساتھ ساتھ اپنے مفادات کو ترجیحی بنیادوں پر دیکھتی ہے۔ بااختیار اور اپنے دستخطوں سے فائدہ یا نقصان پہنچانے والوں کے نزدیک کسی شخص کے اہل ہونے، ’’وفادار‘‘ ہونا زیادہ اہم ہے۔ ایک ایسے ڈائریکٹر بھی ہیں جو مطلوبہ معیار پر پورا نہیں اترتے لیکن وفاداری کے تقاضوں کو نبھاتے ہیں اس لئے بورڈ کے خزانے پر بوجھ ہیں لیکن ذاتی حیثیت میں ’’موج‘‘ کر رہے ہیں۔ کرکٹ بورڈ کی ویب سائٹ کے حوالے سے ہر دوسرے دن ایک بری خبر میڈیا میں آتی ہے۔ اب ایک نان کرکٹر نے بغیر تنخواہ کے کام کرنے کی پیشکش کرکے تمام سابق کرکٹرز کی مشکلات بھی بڑھا دی ہیں۔ پی سی بی ڈائریکٹر گیم ڈویلپمنٹ کے عہدے پر ممکنہ تقرری کے مضبوط امیدوار ایزد سید بغیر معاوضہ کے پی سی بی میں خدمات انجام دینے سے پی سی بی میں کھلبلی مچ گئی۔ ان دنوں کرکٹ کے حلقوں میں یہ بحث جاری ہے کہ کئی کئی سال سے بھاری معاوضہ وصول کرنے والے یہ آفیشلز بورڈ میں رہ کر کیا کام کر رہے ہیں۔ پاکستان میں کرکٹ کا معیار دن بہ دن گر رہا ہے، ہماری ٹیم کی رینکنگ اس وقت ون ڈے میں نویں نمبر پر ہے اور ہمیں چیمپئنز ٹرافی میں شرکت کے لالے پڑے ہوئے ہیں مگر دوسری طرف پی سی بی کے اعلیٰ عہدیداروں کے بینک بیلنس میں تسلسل سے اضافہ ہو رہا ہے۔ بعض افسران ایسے ہیں جو کوئی ڈاکومنٹ بھی نہیں لکھ سکتے مگر لاکھوں روپے ماہانہ تنخواہ لے رہے ہیں۔ ذرائع کے مطابق زمبابوے کرکٹ ٹیم کے کامیاب دورہ پاکستان کی خوشی میں تمام سٹاف کو بونس بھی دیا گیا ہے مگر سوال یہ ہے کہ ٹھنڈے کمروں میں بیٹھ کر لاکھوں روپے ماہانہ وصول کرنے والے ان اعلیٰ عہدیداروں کی آؤٹ پٹ کیا ہے؟ ۔ دوسری طرف اس بارے میں پی سی بی کے سابق چیئرمین ڈاکٹر ظفر الطاف کا کہنا ہے کہ ڈائریکٹرز کی جیبیں بھرنے کے بجائے ملک میں کرکٹ کنڈیشنز بہتر بنانے پر توجہ دی جائے۔ یہاں ڈائریکٹر بنے بیٹھے لوگ ایک کانسیپٹ پیپر نہیں لکھ سکتے۔ ۔ انہوں نے نوائے وقت سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ملک بھر میں گراؤنڈز بہتر بنانے پر کام ہونا چاہئے اس مقصد کیلئے سائنسدان چاہئیں۔ پی سی بی کے ڈائریکٹرز کام کرتے نہیں اور بھاری معاوضوں سے اپنی جیبیں بھرتے رہتے ہیں۔ یہ سب لوگ سفارشی ہیں جنہیں کام کا کچھ پتا نہیں۔ پی سی بی کو چاہئے کہ کئی برس سے کرکٹ کو نقصان پہنچانے والے ان ڈائریکٹرز کا احتساب کرے ں۔کرکٹ کی بہتری کیلئے کھلاڑیوں کو فرسٹ کلاس کرکٹ میں زیادہ پیسے دینے چاہئیں۔ ہاکی والے بھی اپنی جیبیں بھرتے رہے اور کھلاڑیوں کی فکر نہیں کی۔ آج قومی کھیل کی حالت سب کے سامنے ہے۔ ترجمان پاکستان کرکٹ بورڈ کے مطابق زمبابوے سیریز کے کامیاب انعقاد کے بعد بورڈ نے ملازمین کو بونس دیا ہے۔ ایزد سید کے بلامعاوضہ کام کرنے کی پیشکش پر بھی بورڈ ترجمان کا کہنا تھا یہ رپورٹس ہیں کہ انہوں نے اس عہدے پر کام کیلئے بلامعاوضہ خدمات کی پیشکش کی ہے۔ ہم نے بھی یہی سنا ہے۔ کرکٹ بورڈ کے سابق چیئرمین جنرل توقیر ضیاء کا کہنا ہے کہ جو کام کرتا ہے اسے رکھیں جو نہیں کرتا اسے فارغ کریں اور گھر بھیجیں۔ ذرائع کے مطابق کرکٹ بورڈ میں اہم عہدوں پر نان کرکٹرز کو ذمہ داریاں دینے کے بارے میں بھی غور ہو رہا ہے۔ مستقبل میں کرکٹرز کو براہ راست کھیل کے میدان سے جڑے کاموں میں آزمایا جائے گا۔ کرکٹ بورڈ کے چیف سلیکٹر اعلانہ اظہار کر چکے ہیں کہ ہمارے پاس ملک بھر میں کوئی اچھا آل راؤنڈ نہیں ہے۔ ون ڈے میں پاکستان بدترین درجہ بندی پر کھڑا ہے۔ ایک طرف لاکھوں روپے ماہانہ تنخواہیں تو دوسری طرف انٹر ڈسٹرکٹ انڈر 19 کرکٹ ٹورنامنٹ کے فاتح کھلاڑیوں کو بمشکل چار ہزار یا اس سے کچھ زائد روپے فی کس انعامی رقم ملتی ہے۔ حالات کیسے بہتر ہونگے! جس بورڈ کے چیئرمین دو ہوں، تین کپتان ہوں اور ایک میڈیا ڈیپارٹمنٹ کے دو اسفران ہوں وہاں سب اپنا آپ ہی بچائیں گے نا! 

مزیدخبریں