بیجنگ (رائٹر+ ایجنسیاں) متحارب نیوکلیئر ممالک پاکستان اور بھارت اس ہفتے کے آخر میں چین اور روس کی قیادت میں قائم سکیورٹی بلاک میں شامل ہونے کے عمل کا آغاز کرینگے۔ دونوں ممالک کے سربراہ روس میں ہونے والی شنگھائی تعاون تنظیم کے سربراہ اجلاس میں شریک ہونگے۔ یہ بات ایک سینئر چینی سفارتکار نے بتائی ہے۔ 2001ءمیں اس گروپ کے قیام کے بعد اس میں توسیع کا یہ پہلا موقع ہو گا۔ اس گروپ میں چین، روس، سابق سوویت ریاستیں، تاجکستان، ازبکستان، قازقستان، کرغیزستان شامل ہیں جبکہ پاکستان، بھارت، ایران، افغانستان اور منگولیا مبصر ہیں۔خیال رہے کہ اپنے قیام کے بعد اس میں پہلی بار پاکستان اور بھارت نئے رکن کے طور پر شامل ہو رہے ہیں۔ چین کے نائب وزیر خارجہ چینگ گوپنگ نے ایک نیوز بریفنگ میں بتایا کہ تنظیم کا اثر و رسوخ بڑھ رہا ہے، خطے کے زیادہ سے زیادہ ملک اس میں شامل ہو رہے ہیں۔ پاکستان اور بھارت کی اس میں شمولیت سے تنظیم اہم کردار ادا کرے گی۔ چینی وزیر کے مطابق یہ پیشرفت دونوں ملکوں کے درمیان باہمی تعلقات بہتر بنانے میں بھی معاون ثابت ہو گی۔ بھارت نے گزشتہ سال تنظیم میں شمولیت کی لئے درخواست دی تھی، جس پر جون میں گروپ کے وزرائے خارجہ نے ایک اجلاس میں مثبت سفارش دی۔ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی ابھرتی ہوئی تجارتی منڈیوں کی بی آر آئی سی ایس کانفرنس میں شرکت کیلئے ماسکو جائیں گے جہاں وہ اپنے پاکستانی ہم منصب نواز شریف کے ساتھ شنگھائی تعاون تنظیم کے ایک خصوصی اجلاس میں شریک ہوں گے۔ پاکستان کی وزارت خارجہ نے کوئی بیان نہیں دیا۔ یاد رہے کہ بنیادی طور پر یہ تنظیم افغانستان سے اُبھرنے والی شدت پسندی منشیات کی سمگلنگ کی روک تھام اور دیگر امور کیلئے قائم کی گئی تھی۔ چینی وزیر نے بتایا کہ کانفرنس میں افغانستان کی سلامتی پر بھی گفتگو ہو گی۔ چینی نائب وزیر خارجہ نے کہاکہ پاکستان اور بھارت کو شنگھائی تعاون تنظیم کی مستقل رکنیت دینے کا عمل رواں ہفتے شروع ہو گا، دونوں ملک چین اور روس کی قیادت میں اس سکیورٹی بلاک میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں، یہ فورم دونوں ممالک کے دو طرفہ تعلقات کی بہتری میں بھی تعمیری کردار ادا کرے گا۔ چینی نائب وزیر خارجہ نے کہا کہ پاکستان اور بھارت اسے مزید موثر اور فعال بنانے میں اہم کردار ادا کریں گے۔ پاکستانی وزارت خارجہ کے ترجمان قاضی خلیل اللہ نے کہا کہ پاکستان کی درخواست پر غور جاری ہے۔ ہمیں امید ہے کہ مستقل رکنیت کیلئے ہماری حمایت کی جائیگی۔ چنگ نے کہا اجلاس میں افغانستان میں سکیورٹی کی صورتحال پر بھی غور ہو گا۔ وزیراعظم نواز شریف دورہ ناروے مکمل کرکے شنگھائی تعاون تنظیم کے پندرہویں اجلاس میں شرکت کے لئے 9 جولائی کو روس جائینگے۔ ترجمان دفتر خارجہ کے مطابق وزیراعظم رکن ممالک کی موجودگی میں پاکستان کی نمائندگی کرینگے۔ ترجمان کے مطابق اجلاس میں بھارت ، برطانیہ، ترکمانستان سمیت مختلف رکن ممالک کے سربراہ بھی شرکت کرینگے۔ ترجمان دفتر خارجہ قاضی خلیل اللہ کے مطابق شنگھائی تعاون تنظیم کانفرنس کا انعقاد پہلی بار 2001ءمیں کیا تھا۔ اب کانفرنس کا اجلاس 9 اور 10 جولائی کو روس کے شہر فوما میں منعقد ہو رہا ہے۔دفتر خارجہ کے ترجمان نے کہا ہے کہ شمولیت کے لئے پاکستان کی درخواست پر غور کیا جا رہا ہے توقع ہے وہ ہماری مستقل رکنیت کی حمایت کرینگے۔ چینی نائب وزیر خارجہ کے مطابق اس اجلاس میں چینی صدر شی جن پنگ بھی شرکت کریں گے۔ افغانستان کی سکیورٹی صورتحال پر غور ہو گا۔ انہوں نے کہا کہ شمالی ترکستان تنظیم کے پاکستان، وسطی ایشیا سمیت اسلامی ممالک میں روابط میں وہ دہشت گردی کی حالیہ کارروائیوں میں ملوث ہے۔ چین اس معاملے پر خصوصی توجہ دے رہا ہے۔ وہ ان ممالک سے سکیورٹی تعاون کرے گا۔ بھارتی خارجہ سیکرٹری سجاتا مہتہ نے کہا ہے کہ جون میں تنظیم کے وزرائے خارجہ نے مثبت سفارشات دی تھیں ہم مزید پیشرفت کے منتظر ہیں۔
شنگھائی تعاون تنظیم
سکیورٹی بلاک
اسلام آباد (سہیل عبدالناصر) ایٹمی ہتھیار رکھنے والے دو حریف پاکستان اور بھارت چند روز بعد سکیورٹی کے بارے میں خطہ کے سب سے اہم اتحاد شنگھائی تعاون تنظیم کے مستقل رکن بننے جا رہے ہیں۔ نو اور دس جولائی کو روس کے شہر اوفا میں منعقد ہونے والی تنظیم کے سربراہ اجلاس میں دونوں ملکوں کی شمولیت کا باضابطہ اعلان کر دیا جائے گا۔ پاکستان کے وزیراعظم نواز شریف اور ان کے بھارتی ہم منصب نریندرا مودی بھی اس تاریخی اجلاس میں موجود ہوں گے اور قوی امکان ہے کہ کانفرنس کی سائیڈ لائن پر ان کی دو طرفہ ملاقات بھی ہو گی۔ دفتر خارجہ کے ماہرین کے مطابق اگرچہ پاکستان اور بھارت دونوں خطہ کے بڑے ملک ہیں لیکن شنگھائی تعاون تنظیم میں پاکستان کا کلیدی کردار ہو گا کیونکہ پاکستان اس تنظیم کے اکثر بنیادی ارکان کے ساتھ جغرافیائی طور پر جڑا ہوا ہے جب کہ بھارت کو اس خطہ کی معیشت، سلامتی اور سیاست میں کردار ادا کرنے کیلئے مطلوبہ رسائی حاصل نہیں۔ ایک بار پھر ایران کے ذریعہ ہی بالواسطہ طور پر بھارت اس خطہ تک رسائی حاصل کر سکتا ہے۔ پاکستان کی اصل اہمیت یہ ہے کہ وہ افغانستان کا پڑوسی ملک ہے اور یہ جنگ زدہ ملک ہی پورے خطہ میں عدم استحکام کا سبب ہے۔ افغانستان کے ساتھ جڑا ہونے اور افغانستان کی سلامتی میں پاکستان کا کردار ہی خطہ میں اس کے کردار کا تعین کرتا ہے اسی باعث روس اور چین دونوں نے شنگھائی تعاون تنظیم میں پاکستان کی شمولیت کا گرمجوشی سے خیر مقدم کیا ہے۔ اس ذریعہ کے مطابق اوفا میں پاکستان بھارت وزرائے اعظم کی ملاقات کا امکان بدستور موجود ہے۔ اگر یہ ملاقات ہوئی تو اس بار پاکستان کی طرف سے مذاکرات کی بحالی کے بجائے یہ مطالبہ کیا جائے گا کہ بھارت پاکستان کے اندر دہشت گردی کی سرپرستی ترک کر دے۔ بھارتی وزیراعظم کے ساتھ ملاقات کے دوران اس ضمن میں حوالہ دینے کیلئے بلوچستان اور فاٹا میں بھارتی مداخلت کے ثبوتوں اور شواہد کی پوری فہرست موجود ہے۔ وزراءاعظم کی ملاقات کو نتیجہ خیز بنانے کا عزم ہوا تو اوفا میں موجود سرتاج عزیز اور بھارتی وزیر خارجہ سشما سوراج کے درمیان بھی ملاقات ہو سکتی ہے جو سربراہ ملاقات کے خدوخال طے کرسکتے ہیں۔ شنگھائی تعاون تنظیم کے اجلاس کیلئے جس اوفا نامی جس شہر کا انتخاب کیا گیا وہ ماسکو سے اڑھائی گھنٹے کی فضائی مسافت پر واقع مسلم اکثریتی علاقہ ہے۔
پاکستان/ بھارت/ چین