قارئین لمحہ موجود میں جھوٹ اس قدر عام بلکہ آکسیجن کی طرح ناگزیر ہو گیا ہے کہ لگتا ہے اس نے باقاعدہ سچ کی جگہ سنبھال لی ہے جبکہ سیاستدان‘ حکمرانوں نے اسے مزید توقیر اور ٹھوس اہمیت عطا کر دی ہے۔ پورا معاشرہ اس خوداعتمادی سے جھوٹ بول رہا ہے جیسے سچ بول کر سرخرو ہو رہا ہو حالانکہ سچ اور جھوٹ میں حدامتیاز اتنی واضح ہے جتنی کہ دریائے نیل و ابیض میں حد بندی کی لکیر موجود ہے‘ تاہم جھوٹے کی خوش فہمی کا یہ عالم ہوتا ہے کہ وہ سمجھتا ہے صرف وہی بول‘ سن اور دیکھ رہا ہے جبکہ اس کے واضح جھوٹ کا شکار ہونے والا گونگا‘ بہرہ اور اندھا ہے۔
٭....سچ اپنی گواہی آپ ہوتا ہے جبکہ جھوٹ کو سچ ثابت کرنے کیلئے گواہی دلوانی پڑتی ہے۔
٭....سچ کو ایک اور بقاءحاصل ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ خود حق ہے۔ وہ سچ بولنے میں آپ کے قول میں آپ کے ساتھ شریک ہو جاتا ہے جبکہ جھوٹ آخر کار آپ کو تنہا چھوڑ دیتا ہے‘ گرفتار کرا دیتا ہے۔
٭.... سچ کو جھوٹ میں اور جھوٹ کو سچ میں تبدیل کرنے کی کوشش ایسے ہی ہے جیسے آپ کاغذ کے پھول سے خوشبو اور خوشبودار پھول سے بدبو تخلیق کرنا چاہیں جبکہ آپ نقل پر اصل کا گمان کر سکتے ہیں‘ لیکن اصل کو نقل ثابت نہیں کر سکتے۔
٭.... جس طرح اللہ تعالیٰ کو اپنا آپ ثابت کرنے کیلئے دوسرا خدا پیدا نہیں کرنا پڑا‘ اسی طرح سچ کو بھی کسی دوسری گواہی کی ضرورت نہیں پڑتی ہے۔ سچ ہمیشہ تنہا ہوتا ہے اور خدا کی طرح یکتا ہوتا ہے۔ آخر کار سرخرو ہوتا ہے۔
٭.... سچ سکون کی اور سکون سچ کی پیداوار ہے۔
٭.... سچ کبھی بھی اور کسی بھی قیمت پر باطل سے دب نہیں سکتا جس کی سب سے بڑی مثال حضور پُرنور کی تنہا سچی ذات ہے جن کے مقابلے پر ہمیشہ باطل کی ہزاروں قوتیں موجود ہیں‘ لیکن وہ ہمیشہ شکست بکنار رہیں۔ سچ کو کبھی اللہ تعالیٰ تنہا نہیں چھوڑتا بلکہ اسے بچانے کیلئے کئی بار خود اسے براہ راست بھی مداخلت کرنا پڑی جیسے شق القمر کا معجزہ‘ ابابیلوں کے منہ سے کفار پر سنگباری‘ سارے سانپوں کو کھا جانے کا واقعہ۔ یہ سب کچھ سچ کو بچانے اور سچ کے فاتح ہونے کی محکم دلیلیں ہیں۔ اس کے برعکس اگر ہم جھوٹ کے حوالے سے بات کریں تو یہ سچ سامنے آتا ہے کہ جھوٹ کا اس سے بڑا المیہ اور کیا ہوگا۔ یہ ہر صورت میں ظاہر ہوکر رہتا ہے اور جب ایک بار ظاہر ہو جائے تو پھر باقی ساری زندگی جھوٹا‘ اسے چھپانے‘ دبانے اور مٹانے یا سچ ثابت کرنے ہی میں لگا رہتا ہے‘ لیکن ناکام رہتا ہے۔
٭.... جھوٹ کی دائمی اذیت اسی وقتی فائدے سے کہیں زیادہ ہوتی ہے جو جھوٹ بول کر جھوٹا شخص وقتی طورپر حاصل کرتا ہے۔
٭.... جھوٹ کو سچ ثابت کرنے کی مثال ایسی ہے جیسے آپ سورج کے سامنے بیٹھ کر اس کی تمازت سے بچنے کیلئے اپنے چہرے پر خود ہی سایہ کر لیتے ہیں جبکہ وہ اپنی پوری تمازت کے ساتھ اپنی جگہ پر موجود رہتا ہے۔ یوں سمجھئے کہ جھوٹ بھی آپ کے قول و فعل کے پردے سے پوری طرح باہر جھانک رہا ہوتا ہے۔ جس طرح سوچ کے اوپر پلو نہیں پھیلایا جا سکتا‘ اسی طرح آپ کا جھوٹ بھی بے نقاب رہتا ہے۔
اس کی دوسری مثال ایسی ہے جیسے کوئی بدصورت انسان اپنے میں حتمی یقین کے باوجود کہ وہ بدصورت ہے‘ اچھا نظر آنے کیلئے میک اپ کا سہارا لیتا ہے۔ جھوٹ کو چھپانے کیلئے وقتی طورپر آپ بھی میک اپ کی طرح لوگوں کو دھوکہ دینے میں کامیاب ہو جاتے ہیں مگر میک اپ اترنے کے بعد جس طرح اصلی نقوش اور رنگت واضح ہو جاتی ہے‘ بعینہ جھوٹ بھی اپنی عریاں حالت میں ظاہر ہوکر رہتا ہے۔ یہ اور بات ہے کہ جھوٹ کی برہنگی کبھی کبھی زیادہ وقت لے سکتی ہے۔
آخری بات یہ کہ یاد رکھیے آپ انفرادی طورپر محض اپنی زبان کے سہارے کبھی جھوٹ نہیں بول سکتے کیونکہ اس عمل بد کے دوران یعنی جھوٹ بولنے میں آپ کا چہرہ‘ آنکھیں‘ ہونٹ‘ تاثر‘ سب کچھ آپ کے خلاف آپ کے عمل میں ردعمل کے طورپر شامل و شریک ہو جاتا ہے۔ یوں آپ چار عدد بڑی سچائیوں کی بہت بڑی تعداد کے سامنے اپنا جھوٹ برقرار نہیں رکھ سکتے جو اس وقت آپ سے متصادم ہوتی ہیں اور آپ کی پشت لگا دیتی ہیں۔ سو بہتر یہی ہے جھوٹ سے ہر صورت گریز کریں۔ یہی کوشش اس دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی آپ کی توقیر اور بخشش کا سبب بن سکتی ہے۔ مختصراً یوں کہا جا سکتا ہے کہ ہمیشہ سچ میں بچت ہے‘ جھوٹ سے بچ کر ہی آپ سچ کے مفادات سے بہرہ مند ہو سکتے ہیں بلکہ دائمی سکون قلب حاصل کر سکتے ہیں۔ ہمارے خیال میں دائمی سکون حاصل کرنے کیلئے جھوٹ سے گریز کا زو ر لگا دینا چاہئے۔ سودا ہرگز خسارے کا نہیں ہے۔