سیاسی گاربیج بیگ!

پیپلزپارٹی کے سیاسی شجر پہ آج کل موسمِ خزاں کی آمد آمد ہے، بے شمار پتے زرد ہو کر کسی اور کی جھولی میں گِر رہے ہیں۔ ایک وقت تھا جب شہید قائدعوام ذوالفقار علی بھٹو نے پیپلزپارٹی کی بنیاد رکھتے ہی الیکشن میں حصہ لیا اور یہ تاثر تقویت پکڑ گیا کہ پیپلزپارٹی اگر کھمبے کو بھی ٹکٹ دے گی تو وہ کامیاب قرار پائے گا۔ بہت سے کوچوان ریڑھی بان اور مزدور طبقہ سیاست کے میدان میں آئے۔ بھٹو کو پھانسی کی سزا ہوئی تو درجن بھر جیالوں نے خود سوزی کرکے تاریخ انسانیت میں ایک نیا باب رقم کیا۔ ہزاروں جیالوں پہ کوڑے برسے، لاکھوں نے قید اور قلعے کاٹے ۔ یہ سب کچھ اس لیے ہوا کہ جیالوں کے پاس ایک مقصد اور بھٹو کا دیا ہوا ویژن تھا۔ ساڑھے گیارہ سالہ ضیائی آمریت کے دور کے بعد جیالوں نے بھٹو کی بیٹی دخترِ مشرق بے نظیر بھٹو کو بھی باپ جیسا مان اور وقار دیا۔ پھر بھٹو کا پورا گھرانہ عالمی اور خانگی سازشوں کا شکار ہوا۔ یہ بات کہنے میں اب کوئی مضائقہ نہیں کہ بھٹو کے بیٹے مرتضیٰ بھٹو اور بے نظیر بھٹو کا قاتل کوئی ایک شخص ہی ہے۔ بے نظیر بھٹو کی شہادت کے بعد آصف علی زرداری اور ان کی بہن فریال تالپور نے ایک جعلی وصیت کے ذریعے پہلے تو پیپلزپارٹی پر قبضہ کیا اور پھر پاکستان کے عوام کے اموشن کو بلیک میل کرتے ہوئے اقتدار کے ایوانوں پر قبضہ جمایا اور پھر ایک ایسی لوٹ مار ،کرپشن ،چور بازاری، معاشی ڈاکہ زنی اور احسان فراموشی کی سیات کی بنیاد رکھی۔ پانچ سال تک یہ معاشی ڈاکو ہاتھوں اور پاﺅں سے بیس کروڑ عوام کے جسم سے خون نچوڑتے رہے۔ کرپشن کی کوئی حد مقرر نہ تھی مفاہمت کی سیاست اور جمہوریت کے نام پر آج ایک میٹر ریڈر ڈیڑھ سو ارب روپے کا مالک بن چکا ہے جبکہ خود زرداری اور اس کی بہن کے کل اثاثے ساٹھ ارب ڈالر سے تجاوز کر چکے ہیں اور پھر ایک این آر او کے ذریعے جب پیپلزپارٹی کو نوازشریف کے رائے ونڈ پیلس کی لونڈی بنا دیا گیا تو جیالے بہت تلملائے ،چیخے، پکارے دھاڑیں مار کر روتے رہے مگر کسی کی ایک نہ سنی گئی حتیٰ کہ کوئی دلاسہ دینے والا بھی موجود نہیں تھا۔ کبھی باپ بیٹے کو نابالغ قرار دے کر مغلیہ دور کی یاد تازہ کر رہا تھا اور کبھی بیٹا راتوں رات بالغ ہو کر محمد شاہ رنگیلے کا کردار ادا کرنے آ دھمکتا ہے۔ ایک اشرف سوہنا، صمصام بخاری، انیس طارق، طارق تارڑ، فواد چوہدری اور چوہدری فرخ الطاف پر ہی کیا موقوف امتیاز صفدر وڑائچ، فردوس عاشق اعوان، افضل چن، نذر گوندل اور جنوبی پنجاب سے کارکنوں کی ایک بڑی تعداد پرواز کیلئے پَر تول رہی ہے۔ فردوس عاشق اعوان کے بارے میں میںنے سلمان تاثیر (مرحوم) کی فرمائش پر لکھا کہ یہ پیپلزپارٹی کی شیرنی ہے۔ آج وہی نام نہاد شیرنی لومڑی بن کر نیا محمد بن قاسم تلاش کرنے گھر سے نکلی ہے۔ 

قارئین! مگر قابل فکر بات یہ ہے کہ پیپلزپارٹی، ق لیگ اور دیگر سیاسی جماعتوں سے راہِ فرار اختیار کرنےوالے سیاسی کارکن اور لیڈر تحریک انصاف کی طرف بھاگ رہے ہیں۔ عمران خان کی صاف دلی، صاف گوئی اور پرعزم شخصیت پر کوئی دو رائے نہیں مگر نئے پاکستان اور تبدیلی کا خواب اس وقت چکنا چور ہو کر رہ جاتا ہے کہ جب آپ کرپٹ سیاسی پارٹیوں کا ”رہندکھوند“ (بچاکُھچا) اپنے انڈوں کی ٹوکری میں رکھو گے تو یہ آپ کے پہلے سے موجود چند باضمیر کارکنان کو گندا کر دیں گے۔ سچ پوچھو تو تحریک انصاف کی اس وقت حالت ایک ”گاربیج بیگ“ یعنی کوڑے دان کی سی ہو کر رہ گئی ہے۔ بہتر ہے کہ عمران خان سیاست چھوڑ کر پاکستان کے میٹروپولیٹن شہروں کی صفائی اور کوڑا اٹھانے کا انتظام سنبھال لیں۔ قارئین! کیا آپ بھی میری طرح یہ محسوس کرتے ہیں کہ جیسے ہی ڈاکٹر طاہر القادری پاکستان میں تشریف لاتے ہیں تو سیاست کے سمندر میں ایک طغیانی سی آ جاتی ہے۔ اب کی بار ڈاکٹر طاہر القادری صاحب کو عوامی خواہشات کا احترام کرتے ہوئے ہم خیال سیاسی قوتوں کو ہم آہنگ کرنا ہوگا اور سیاسی مفاد پرستوں سے خبردار رہنا ہوگا۔
اب آتے ہیں جوڈیشل کمیشن کے متوقع فیصلے کی طرف ایک سیاسی کارکن ہونے کے ناطے میرا یہ تجزیہ ہے کہ پاکستان کی موجودہ عدلیہ سے یہ توقع رکھنا انتہائی درجے کی خوش فہمی ہے کہ وہ کوئی غیر جانبدارانہ سخت اور مضبوط مشکل فیصلہ کرنے کی پوزیشن میں ہے۔ سنائے جانیوالا فیصلہ مبہم اور غیر واضح ہوگا کہ مسلم لیگ ن کہے گی ہم جیت گئے اور تحریک انصاف اسے اپنی فتح قرار دے گی اور میں نہ مانوں کا جنگ و جدل والا ایک سلسلہ شروع ہو جائے گا۔ دوسری طرف ایم کیو ایم نے اپنی چالوں اور ”را“ کی چالاکیوں سے کراچی آپریشن میں فوج کو گھسیٹنے کی بہت کوشش کی لیکن زیرک جرنیل راحیل شریف کی عقل اور فہم کو داد دینی چاہیے کہ انہوں نے ایم کیو ایم اور پیپلزپارٹی کی حب الوطنی آزمانے کیلئے ”دولہا“ بھیجنے کی بجائے رینجرز کی صورت ”سربالہ“ بھیج دیا۔ اس طرح عسکری قیادت ایم کیو ایم کے ہاتھوں ٹریپ ہونے سے بچ گئی۔
یورپین یونین کی بے ہنگم زنجیر میں یوں تو کافی مردِ بیمار ہیں مگر اس وقت اٹلی، پرتگال، سپین، یونان اور سابقہ مشرقی یورپ کے کچھ ممالک معاشی طور پر انتہائی لاغر ہو چکے ہیں۔ گذشتہ روز یونان کو تقریباً دیوالیہ قرار دیدیا گیا۔ جس پر یورپین یونین کی طرف سے مشروط امداد سخت ترین ڈیل پیکیج کی صورت میں آفر کیا گیا۔ جس کو یونان کے اکسٹھ اعشاریہ پانچ فیصد لوگوں نے مسترد کر دیا۔ یہ ہوتی ہیں زندہ قوموں کی نشانیاں جبکہ پاکستان کے حکمران اور عوام ایک دن کی بھوک برداشت کرکے آئی ایم ایف ورلڈ بینک اور عالمی مالیاتی اداروں کی شرائط کو رد کا سوچ بھی نہیں سکتے۔ جھورا جہاز آج بہت تپا ہوا تھا کہہ رہا تھا وڑائچ صاحب حکمران عوام کو بے وقوف بنانے کیلئے جتنا پیسہ ”بلوم برگ“ جیسے نام نہاد اداروں کو دیتے ہیں وہی رقم عوام کی فلاح پر خرچ کی جائے تو نتائج یقینا مختلف ہوں گے۔تین بار کی اولمپکس چیمپئن ، ورلڈ چیمپئن اور متعدد دفعہ چیمپئن ٹرافی جینے والی ہاکی ٹیم کی بیلجیم کے شہر انتورتن میں وہ درگت بنی کہ عوام بے ساختہ چیخ اٹھے کہ ”کچھ شرم ہوتی ہے کچھ حیاہوتی ہے“اور شاید وزیراعظم کو بھی تب ہی نوٹس لینے کا خیال آیا جب نیاّ ڈوب چکی تھی۔

ای پیپر دی نیشن