کرنل سید امجد حسین شاہ کی یاد میں

مرحوم کرنل سید امجد حسین شاہ نہ صرف میرے گہرے دوست بلکہ بڑے بھائی کی حیثیت رکھتے تھے۔ میرا ان سے محبت اور عزت کا ملا جلا لگائو 70 سال کے طویل عرصہ پر محیط تھا جو زمانہ طالب علمی میں شروع ہوا اور ان کے اپنے اللہ کے حضور حاضر ہونے تک متواترجاری رہا۔ میں اس شدید دکھ اور صدمہ کو اپنی باقی ماندہ زندگی کے دوران کبھی نہ بھول پائوں گا کہ میں ان کی رحلت پر لاہور سے غیر حاضر ہونے پر ان کے جنازہ میں شریک نہ ہو سکا۔ اس سے زیادہ گہرا صدمہ مجھے اس امر پر ہے کہ 5 جولائی بروز بدھ وار لاہور میں موجود ہونے کے باوجود میں نظریہ پاکستان ٹرسٹ کی طرف سے کرنل سید امجد حسین شاہ کو خراج عقیدت پیش کرنے کیلئے منعقدہ ریفرنس میں اچانک ملٹری ہسپتال لاہور چھائونی میں زیر علاج داخل ہونے کے باعث شرکت نہ کر سکا۔اللہ تعالیٰ کی خصوصی شفقت اور کرم نوازی کے باعث مرحوم نے اپنی زندگی میں وہ اعلیٰ ترین مقام حاصل کیا جو بہت کم لوگوں کو نصیب ہوتا ہے۔ مجھے یقین کامل ہے کہ اگلے جہان میں بھی رب العزت ان کو جنت الفردوس میں بلند ترین مرتبہ اور مقام عطا فرمائے گا۔ کیونکہ انہوں نے اپنی پوری زندگی ایک سچے عاشق رسول ﷺ کی حیثیت میں بسر کرنے میں کبھی کوئی دقیقہ فروگذاشت نہیں کیا تھا۔ وہ ایک سچے عاشق علامہ محمد اقبال بھی تھے۔ اور انہی کے حکم پر انہوں نے نوجوانی سے ہی قائد اعظم محمد علی جناح کی خدمت میں حاضر ہو کر تحریک پاکستان میں وہ پرخلوص اور سرگرم خدمات بجا لائیں جن کی مثال نہیں ملتی۔ ان کے دو نادر نمونے قارئین کی خدمت میں پیش ہیں۔
1937ء میں جب قائد اعظم لاہور تشریف لائے تو نوجوان امجد حسین سید کی عمر 17 برس تھی انہوں نے بیرسٹر محمد علی جناح سے ملاقات کا ارادہ کیا یہ ملاقات آسان نہ تھی اس کا ذکر انہوں نے مجھ سے کئی بار کیا اور برادرم ڈاکٹر محمد اجمل نیازی نے اپنی خوبصورت کتاب ’’شناسان حمید نظامی سے ملاقاتیں‘‘ کے صفحہ نمبر 62 اور 63 میں نہایت تفصیل سے بیان کیا ہے کہ کس طرح بیرسٹر محمد علی جناح کے پرسنل اسسٹنٹ مسٹر لوگو (Mr LOGO) کے انکار کے باوجود نوجوان امجد حسین شاہ اپنے اصرار پر قائم رہا اور بالآخر قائد اعظم سے ملاقات میں اسی روز کامیابی حاصل کر لی۔
اسی ملاقات میں سید امجد حسین شاہ نے قائد اعظم سے درخواست کی کہ وہ اسلامیہ کالج لاہور کے طلباء سے خطاب فرمائیں جس پر بیرسٹر جناح نے پوچھا کہ کیا ان کے پاس کالج کے پرنسپل کی طرف سے ایسے دعوت نامہ کی کوئی اجازت یا اتھارٹی ہے اور جناح صاحب نے نوجوان امجد سید سے پرنسپل سے باضابطہ دعوت نامہ حاصل کرنے کا حکم دیکر فارغ کر دیا۔ جب کالج پہنچ کر پرنسپل سے اس بارے میں عرض کی تو پرنسپل ڈاکٹر بی اے قریشی نے پھیکا پھیکا جواب دیا کہ آپ لوگ کالج میں پڑھنے کیلئے آئے ہیں یا سیاست کرنے اس وقت حمید نظامی بھی نوجوان امجد شاہ کے ساتھ تھے۔ دوسرے دن پرنسپل نے ان دونوں کو یہ کہہ کر کالج سے خارج کر دیا کہ یہ نوجوان لڑکے کالج کے ماحول کو خراب کر رہے ہیں۔ اس پر مولانا عبد الستار خان نیازی کے مشورہ پر کالج کے نوجوان لڑکوں نے 10 روز تک احتجاج کیا جس کے نتیجہ میں انجمن حمایت اسلام کی سفارش پر دوبارہ کالج میں داخلہ دیدیا گیا۔
اس سارے واقعہ کی خبر علامہ اقبال اور بیرسٹر محمد علی جناح تک بھی پہنچی اور پنجاب مسلم لیگ کے قائدین نے امجد حسین شاہ اور حمید نظامی کے ولولہ اور جذبہ کو بہت سراہا۔ اس کے نتیجہ میں امجد حسین سید اور حمید نظامی کو لکھنئو میں 1937ء میں آل انڈیا مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس میں شرکت کی دعوت دی گئی اور ریلوے کے لاہور سے لکھنئو اور واپسی کے ٹکٹ بھی مہیا کئے گئے۔ لکھنئو پہنچنے پر آل انڈیا مسلم لیگ کے سیکرٹری جنرل نوابزادہ لیاقت علی خان نے پنجاب سے آئے ہو ئے ان دونوں نوجوان لڑکوں سے ملاقات کی اور اجلاس میں شرکت کی دعوت دی۔ اتنی چھوٹی عمر میں اتنی بڑی عزت بہت بڑے اعزاز کی بات ہے۔
یہاں پر یہ ذکر کرنا بہت ضروری ہے کہ جناب حمید نظامی جنہوں نے قائد اعظم کی ہدایت پر پنجاب میں مسلم سٹوڈنٹس فیڈریشن کی بنیاد رکھی تھی جو اس تنظیم کے بانی صدر تھے وہ بھی سید امجد حسین شاہ کو اپنا بڑا بھائی سمجھتے ہوئے ان کا بہت احترام کرتے تھے۔ جس کی وجہ تاریخ کا حصہ ہے کہ امجد حسین شاہ نے حمید نظامی کے اسلامیہ کالج لاہور کے داخلے میں بہت اہم کردار ادا کیا تھا۔ اس کی تفصیل میں جانا ضروری نہیں ہے۔ میں ان دنوں گورنمنٹ کالج لاہور میں پڑھتا تھا اور اپنے بڑے بھائی حبیب اللہ کے ساتھ جو FC کالج میں پڑھتے تھے موہنی روڈ کے ایک مکان افضال منزل میں رہتا تھا۔ حبیب بھائی اور حمید نظامی کی آپس میں دوستی تھی جس کے باعث وہ اکثر موہنی روڈ افضال منزل میں آیا کرتے تھے۔ حمید نظامی کو کباب اور فرائی کی ہوئی مچھلی بہت پسند تھی جس سے لطف اندوز ہونے کے لئے وہ اکثر بھاٹی دروازہ کے باہر کباب اور مچھلی کی مشہور دکانوں میں جایا کرتے تھے اور مجھے بھی ساتھ لے جاتے تھے۔ اس طرح میری حمید نظامی اور سید امجد حسین شاہ سے ابتدائی ملاقاتیں ہوئیں اور وہ دونوں مجھے اپنے چھوٹے بھائی کی طرح پیار کرتے تھے۔ اس طرح میں مسلم سٹوڈنٹس فیڈریشن کا سرگرم رکن بن گیا اور جب بھی بیرسٹر محمد علی جناح لاہور تشریف لاتے مجھے بھی ان سے ملاقاتوں کا موقع ملتا۔ لیکن اس تمام دورانیہ میں میں نے مشاہدہ کیا کہ حمید نظامی کوئی اہم فیصلہ سید امجد حسین شاہ کے مشورہ اور APPROVAL کے بغیر نہیں کرتے تھے اس لئے اگر میں یہ کہوں کہ 1937ء سے لیکر 1942ء تک جب سید امجد حسین شاہ نے انڈین آرمی میں شرکت کی تو یہ 5 سال کا عرصہ تحریک پاکستان پنجاب کے نوجوانوں میں ایک نیا ولولہ پھونکنے کا نہایت سرگرم دورانیہ تھا جس میں نوجوان امجد حسین شاہ نے کلیدی اور نوجوانوں کی قیادت کا اہم کردار کامیابی سے ادا کیا میں یہ بات اپنے ذاتی تجربہ کی بناء پر نہایت وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ پنجاب کی سیاست میں یونینسٹ پارٹی کا تختہ الٹنے میں اور تحریک پاکستان کو کامیابی کی مہمیز لگانے میں حمید نظامی اور سید امجد حسین شاہ کا کردار بے مثال ہے۔ 2 سال بعد 1944ء میں میں بھی فوج میں بھرتی ہو گیا اور اس طرح دوسری جنگ عظیم سید امجد حسین شاہ کو مڈل ایسٹ کے محاذ اور مجھے برما کے بعد جاپان کی آکوپیشن فورس میں لے گئی۔
جنگ کے ختم ہونے پر جب قیام پاکستان وجود میں آیا تو سید امجد حسین شاہ نے سفارتی محاذ پر انڈونیشیا میں نہایت شاندار خدمات بطور ملٹری اٹیچی ادا کی۔ اس دورانیہ میں میں نے مشرقی پاکستان سے مہاجرین کی پاکستان واپس لانے میں خدمات بجا لائیں۔ قیام پاکستان کے فوراً بعد میں اور سید امجد حسین شاہ 1948ء میں چکلالہ میں اکٹھے رہے اس وقت میں اور امجد حسین شاہ دونوں کیپٹن تھے اور ایک ہی MESS میں اکٹھے رہتے تھے۔ جہاں شاہ جی نہایت پر جوش انداز میں انگریز آفیسروں کے ساتھ بحث و مباحثہ کیا کرتے تھے کہ انگریزوں نے تقسیم ہند کے دوران گرداس پور کا ضلع بھارت کے حوالے کرکے پاکستان کے ساتھ ریڈ کلف ایوارڈ میں نہایت بڑی بے انصافی اور ظلم کیا ہے۔ یہ خاکسار بھی فوج سے ریٹائرمنٹ کے بعد کرنل سید امجد حسین شاہ کے نقش قدم پر چلتے ہوئے محترمی مجید نظامی مرحوم و مغفور کی معاونت اور ان کے فرمودات کی بجاآوری کیلئے کوشاں ہے۔ میری دعا ہے کہ رب العزت قائد اعظم کے ان تینوں معتمد ساتھیوں کرنل سید امجد حسین شاہ‘ جناب حمید نظامی اور مجید نظامی مرحوم و مغفور کو بلند درجات سے نوازیں اور خاص طور پر کرنل سید امجد حسین شاہ کی اولاد کو جن میں ان کے قابل صد احترام بیٹے اور بیٹیاں شامل ہیں صبر جمیل عطا فرمائے اور اپنے عظیم باپ کے نقش قدم پر چلتے ہوئے ملک و قوم کی مثالی خدمت بجا لانے کی توفیق دے۔ آمین۔

ای پیپر دی نیشن