قرض اُتارو، ڈیم بناﺅ، شفاف انتخاب کراﺅ

پاکستان کے معاشی ماہرین متفق ہیں کہ بیرونی قرضے تشویشناک حد تک بڑھ چکے ہیں۔ گزشتہ پانچ سالوں کے درمیان بیرونی قرضوں میں غیر معمولی اور ہوشربا اضافہ ہوا ہے۔ موجودہ اور آنےوالی نسلوں کو قرضوں کے جال میں بری طرح پھنسا دیا گیا ہے۔ ان قرضوں کی وجہ سے پاکستان کی آزادی اور سلامتی شدید خطرے میں پڑچکی ہے۔ تربیلا اور منگلا ڈیم کے بعد گزشتہ 50سال میں کوئی بڑا ڈیم تعمیر نہیں کیا گیا۔
عالمی ادارے انتباہ کررہے ہیں کہ پاکستان کی مقتدر اشرافیہ نے اگر بروقت اقدامات نہ اُٹھائے تو عوام بھوک اور پانی کی قلت کی بناءپر مرسکتے ہیں۔ پاکستان کونسل فار ریسرچ آف واٹر نے بھی عالمی اداروں کے سنگین خدشات سے اتفاق کیا ہے اور خطرے کی گھنٹی بجادی ہے۔ پاکستان کے سب لیڈر اقتدار کیلئے تن من دھن کی بازی تو لگا رہے ہیں مگر کسی کو بیرونی قرضوں اور پانی کی کوئی فکر نہیں ہے کیوں کہ وہ جانتے ہیں کہ اگر پاکستان قحط سالی کا شکار ہوا تو وہ پاکستان سے باہر فرار ہوجائینگے جبکہ عوام کو ہی شدید مشکلات اور مصائب کا سامنا کرنا پڑےگا۔ ان حالات میں چیف جسٹس پاکستان میاں ثاقب نثار کا دم غنیمت ہے جو بصیرت اور وژن کا ثبوت دیتے ہوئے اپنے آئینی اور قانونی اختیارات کو ذاتی مفادات کیلئے استعمال کرنے کی بجائے بیس کروڑ عوام کے مفاد کیلئے استعمال کررہے ہیں۔ انہوں نے پاکستانی قوم کو قرضوں سے نجات دلانے اور پانی ذخیرہ کرنے کیلئے ڈیم بنانے کو اپنی ترجیح بنایا ہے اور عوام سے اپنی لازوال محبت کا عملی ثبوت پیش کیا ہے۔
خدا کے عاشق تو ہیں ہزاروں
بنوں میں پھرتے ہیں مارے مارے
میں اس کا بندہ بنوں گا جس کو
خدا کے بندوں سے پیار ہوگا
فخر پاکستان چیف جسٹس پاکستان میاں ثاقب نثار نے آئین کے آرٹیکل 184/3اور آرٹیکل نمبر 9 کی روشنی میں وفاقی حکومت کو ترجیحی بنیادوں میں بھاشا ڈیم (4500 میگا ڈیم) اور مہمند (منڈا) ڈیم (700میگا واٹ) تعمیر کرنے کا حکم دیا ہے اور اس کیلئے خصوصی فنڈ بھی قائم کیا ہے۔ چیف جسٹس پاکستان نے سب سے پہلے اپنی جانب سے دس لاکھ روپے خصوصی فنڈ میں جمع کرادئیے ہیں جس سے ان کی حب الوطنی کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔انہوں نے ایک کمیٹی بھی تشکیل دی ہے جو بروقت ڈیم کی تعمیر یقینی بنائے گی۔ چیف جسٹس نے قوم سے اپیل کی ہے کہ وہ ڈیموں کی تعمیر کیلئے مالی تعاون کریں۔ پاکستان کے عوام چونکہ چیف جسٹس کے بے مثال جذبے، عزم اور عوام کے محبت کے قائل ہوچکے ہیں اس لیے یقین سے کہا جاسکتا ہے کہ عوام قومی مقصد اور آنیوالی نسلوں کی زندگی کیلئے دل کھول کرتعاون کرینگے۔ ایک رپورٹ کے مطابق چیف جسٹس پاکستان ایک ہزار ارب پتی افراد سے قرضوں کی واپسی اور ڈیموں کی تعمیر کیلئے مالی تعاون کیلئے رابطہ کرینگے۔ قرضے معاف کرانےوالے کاروباری افراد کو 75فیصد رقم خصوصی فنڈ میں جمع کرانے کے احکامات جاری کیے جاچکے ہیں۔
اگر چیف جسٹس پاکستان عوام کو یقین دلائیں کہ وہ ریٹائرمنٹ کے بعد بھی اپنے مقدس قومی مشن کی تکمیل کیلئے کوششیں جاری رکھیں گے تو عوام کا ردعمل زیادہ فعال اور حوصلہ افزاءہوسکتا ہے۔ اُمید ہے چیف جسٹس پاکستان اپنے جانشین کو بھی اعتماد میں لے رہے ہونگے۔ اللہ کے فضل و کرم سے اگلے پانچ سال کے دوران جو بھی چیف جسٹس پاکستان کے منصب پر فائز ہوں گے وہ بھی حب الوطنی کے جذبے سے سرشار ہیں اور وہ اس امر کو یقینی بنائیں گے کہ ڈیموں کی تعمیر میں تاخیر نہ ہو۔ پاکستان کے قومی مسائل جن کا تعلق آنےوالی نسلوں سے ہے ان کو مجرمانہ غفلت کے حامل نااہل اور کرپٹ سیاستدانوں پر نہیں چھوڑا جاسکتا۔ اب پاکستان کی اعلیٰ عدلیہ کو آئین اور قانون کے مطابق عوام کے بنیادی حقوق کے سلسلے میں فعال اور مو¿ثر کردار ادا کرنا پڑے گا جو لوگ جوڈیشل ایکٹوازم کی مخالفت کررہے ہیں ان کو پاکستان کی سلامتی اور مستقبل کو لاحق چیلنجوں کا ادراک ہی نہیں ہے اور وہ صرف اپنے اپنے من پسند سیاستدانوں کے اسیر بنے بیٹھے ہیں جن کا ریکارڈ انتہائی افسوسناک ہے۔ پاک فوج اور عدلیہ آئین کے اندر رہتے ہوئے پاکستان کی ترقی و خوشحالی کیلئے قابل ذکر کردار ادا کرکے پاکستان کو بحرانوں سے باہر نکال سکتے ہیں اور جمہوری سیاسی حکومتوں کی کارکردگی کی مانیٹرنگ کرسکتے ہیں۔انتخابی مہم میں روز بروز جذبہ اور جنون بڑھتا جارہا ہے۔ سیاسی کھلاڑی پارلیمنٹ میں اپنا حصہ لینے کیلئے پورا زور لگارہے ہیں۔ عوام کو ایک بار پھر بیوقوف بنانے کیلئے دلفریب نعرے لگائے اور بلند بانگ دعوے کیے جارہے ہیں جبکہ سیاسی چہرے بھی پرانے ہیں اور سیاسی انتخابی نظام بھی پرانا ہے۔
وہی لوگ ہیں ازل سے جو فریب دے رہے ہیں
کبھی اوڑھ کر لبادہ کبھی پہن کر نقابیں
پاکستان کے علمی فکری اور سماجی فورم عوامی رائے عامہ کو بیدار کرنے اور الیکشن کمشن پر شفاف اور قابل اعتماد انتخابات کرانے کیلئے دباﺅ ڈالنے کیلئے فکری نشستیں منعقد کررہے ہیں۔جناب الطاف حسن قریشی کی سربراہی میں قومی امور پر بروقت رہنمائی کرنےوالے فورم پائنا نے پنجاب یونیورسٹی سینٹر فار ساﺅتھ ایشین سٹڈیز اور پاکستان سٹڈی سینٹر کے تعاون سے ”قابل اعتماد انتخابی عمل کے تقاضے“ کے موضوع پر فکری نشست کا اہتمام کیا جس میں معروف صحافیوں اور دانشوروں کے علاوہ یونیورسٹی کے طلبہ شریک ہوئے۔ پلڈاٹ کے صدر احمد بلال محبوب نے کلیدی خطاب کیا اور کہا کہ پاکستان اپنی تاریخ کے اہم موڑ میں داخل ہوچکا ہے۔ جمہوری نظام نے پہلی بار دس سال مکمل کیے ہیں۔
الیکشن کمشن آزاد اور خودمختار ہے۔ نگران حکومت اہل تجربہ کار اور غیر جانبدار ہے۔ پارلیمنٹ دور رس انتخابی اصلاحات کرچکی ہے لہذا توقع کی جاسکتی ہے کہ 2018ءکے انتخابات پر امن، بروقت، شفاف اور قابل اعتماد ہوں گے اور پاکستان کی تمام سیاسی جماعتوں کو انتخابی مہم چلانے کیلئے یکساں مواقع دئیے جائینگے۔ پاکستان کے بزرگ ترین باہمت اور پرعزم سیاستدان اور ماہر قانون جناب ایس ایم ظفر نے نگران حکومت کو انتباہ کیا کہ اگر انتخابی عمل کو قابل اعتبار بنانے کیلئے مناسب اقدامات نہ اُٹھائے گئے تو انتخابات کے بعد سیاسی طوفان کھڑا ہوسکتا ہے۔
نیب کے چیئرمین جسٹس(ر) جاوید اقبال نے پائنا کی فکری نشست کی سفارشات اور تجاویز سے متاثر ہوکر درست اور صائب فیصلہ کیا ہے کہ 25جولائی تک کسی جماعت کے اُمیدوار کو گرفتار نہیں کیا جائےگا۔پائنا کے زیر اہتمام ہونےوالی فکری نشست میں جسٹس(ر) فقیر محمد کھوکھر ، ڈاکٹر عنبرین جاوید، مسلم لیگ (ن) کے میڈیا کوآرڈی نیٹر محمد مہدی، اے این پی کے مرکزی رہنما احسان وائیں، ڈاکٹر شفیق جالندھری، سجاد میر ، رﺅف طاہر، پروفیسر شبیر احمد نے اظہار خیال کیا۔ ہمدرد شوریٰ کی ماہانہ فکری نشست قائمقام سپیکر ابصار عبدالعلی کی صدارت میں ہوئی۔
مہمان خصوصی ڈاکٹر اعجاز بٹ نے ”انتخابات ضابطہ اخلاق، توقعات اور عوامی ذمے داریاں“ کے موضوع پر خطاب کیا اور کہا کہ پاکستان میں ووٹ دینا لازمی قرار دیا جائے تاکہ عوامی طاقت سے انتخابات کی کمزوریوں اور دھاندلی کو ختم کیا جاسکے اور اقلیت کی بجائے اکثریت کو حکومت کرنے کا موقع مل سکے۔ انہوں نے ووٹر اور اُمیدوار کی اہلیت مقرر کرنے پر زور دیا۔ مقررین نے انتخابات میں سرمایے کے اثرو رسوخ پر تشویش کا اظہار کیا اور الیکشن کمشن پر زور دیا کہ وہ تمام اُمیدواروں کو ضابطہ اخلاق کا پابند بنائے اور عوام کی توقعات پر پورا اُترے۔ رائے دہندگان سے اپیل کی گئی کہ وہ اپنے ووٹ کا درست استعمال کریں اور باکردار، بے لوث اُمیدواروں کا انتخاب کریں۔ ڈاکٹر جسٹس(ر) ناصرہ اقبال، پروفیسرمشکور صدیقی، جنرل(ر) راحت لطیف ، صدیق ریحان، میجر خالد نصر، کنول فیروز، ثمر جمیل خان نے اظہار خیال کیا۔ ہمدرد شوریٰ نے پاکستانی قوم کیلئے جامع اور قابل عمل قومی منشور تیار کیا ہے جس سے سیاسی جماعتیں استفادہ کرسکتی ہیں۔

ای پیپر دی نیشن