اصلاح احوال کیلئے انقلاب ناگزیر ہے!

مکرمی! پاکستان اسلامی اصولوں کے مطابق زندگی گزارنے کی غرض سے بے شمار قربانیاں دے کر حاصل ہوا، مگر آج اس میں قوم نہیں بلکہ پاکستانی عوام بسے ہوئے ہیں۔ کیونکہ ہم قوم کی اصطلاح پر پورا نہیں اترتے۔ قوم کے لیڈران ہوتے ہیں جنکی رہنمائی میں ساری قوم آگے بڑھتی ہے۔ مگر بد قسمتی سے قائداعظم کے بعد کوئی لیڈر ایسا نہ مل سکا جس کی شخصت بے داغ ہو۔ حکمرانوں نے ذاتی مفادات کو ملکی مفادات پر ترجیح دینا شروع کر دی۔ تاہم ایوب خان کے دور تک بزنس مین الگ اور سیاست دان الگ ہوا کرتے تھے۔ سیاست کا مقصد دولت کمانا نہیں مگر اپنی شان بڑھانا ضرور تھا۔ یہ لوگ وقار کے ساتھ زندگی گزارتے، انصاف کی بات کرتے اور ملک کی خاطر کام بھی کرتے مگر 70 کی دہائی میں جب بھٹو نے عوام میں سیاسی شعور اجاگر کیا تو نئے نئے لیڈر سامنے آنے لگے جن کا کوئی سیاسی پس منظر نہیں تھا۔ اور ان کو انصاف یا اخلاقیات سے کوئی غرض نہیں تھی۔ اس کے بعد بزنس مینوں نے سیاست کے فوائد کو محسوس کیا اور بزنس مین ہی سیاستدان بننا شروع ہو گئے جبکہ موجودہ وقت میں سیاست ہی بزنس بن چکی ہے۔ سینٹ میں جس طرح سیٹیں خریدی گئی ہیں اس کے اثرات آئندہ الیکشن پر بھی پڑیں گے۔ پیسہ صرف سیاستدانوں کی نہیں بلکہ ووٹروں کی بھی ترجیح بن چکا ہے۔ امیدواروں نے جس طرح اپنی جائیدادوں کے گوشوارے جمع کروائے ہیں اور انکی جو قیمت لگائی گئی ہے کسی بھی امیدوار کو صادق اور امین نہیں کیا جا سکتا۔ تمام امیدواروں کو آئین کی شق 60 اور 62 کے تحت تا حیات نااہل قرار دیا جائے اور جس طرح سے حکومت نے موٹروے کے لئے غریب کسانوں کی زمینیں اپنی مرضی کے ریٹ پر خریدی ہیں اسی طرح اگر ان کی جائیدادیں انہی کے لگائے گئے ریٹ کے مطابق زبردستی خریدلی جائیں تو انکے ساتھ ہرگز زیادتی نہ ہوگی۔ ان کی نیلامی سے ملک کا تمام قرضہ اتر سکتا ہے اور ان کی نااہلی سے ملک کو ایک نئی قیادت مل سکتی ہے۔ (ڈاکٹر کیپٹن محمد ابراہیم، ماموں کانجن تاندلیا نوالہ 041-3431912)

ای پیپر دی نیشن

''درمیانے سیاسی راستے کی تلاش''

سابق ڈپٹی سپیکرقومی اسمبلی پاکستان جن حالات سے گزر رہا ہے وہ کسی دشمن کے زور کی وجہ سے برپا نہیں ہو ئے ہیں بلکہ یہ تمام حالات ...