حضرت علی ؓکا فرمان ہے کہ جس پر احسان کریں اُس کے شر سے محفوظ رہیں۔ میں ذاتی طور پر ان مراحل سے گزر چُکا ہوں اور بہت سے لوگوں کو جانتا اور پہچانتا ہوں جنہوں نے احسان کا بدلہ شر کی صورت میں سُود سمیت وصول کیا۔ ویسے میں ہمیشہ کہتا ہوں کہ:’’انسان کے قاتل سے پہلے احسان کے قاتل کو پھانسی چڑھا دینا چاہیے‘‘ مختصر سی زندگی جس کا زیادہ حصہ بسّر ہو چکا بس تھوڑا سا باقی ہے۔ کچھ پتہ نہیں کس وقت جناب عزرائیل ؑآ جائیں اور بظاہر موت لیکن ایک ایسی زندگی شروع ہو جائے جسے کبھی موت نہیں آئے گی۔ اس زندگی میں بہت سے نشیب و فراز دیکھے ہیں کچھ ماضی اور حال میں رونما ہوئے حالات و واقعات نے میری روح پر ایسے زخم اور نشانات چھوڑے ہیں جن کے جواب تلاش کرتے کرتے بال سفید ہو گئے ہیں۔ کبھی بحیثیت مسلمان اور کبھی بحیثیت پاکستانی اُن کا جواب اور وجہ ستم تلاش کرتا ہوں۔جب سے ہوش سنبھالا ہے اپنے دیرینہ دوست امریکہ سے دوستی نبھاتے نبھاتے کتنے زخم کھائے ہیں ان پر مرہم رکھتے رکھتے تھک چکے ہیں۔ آج دنیا کی دہشت گردی کی جنگ پاکستان کے سینے پر لڑی جا رہی ہے اور دنیا میں ’’امن‘‘ کیلئے ہماری بہادر افواج نے اپنا خون دے کر آخر کار ضرب عضب اور آپریشن ردالفساد پر اس کا اختتام ہونے والا ہے۔ مگر ہم آج بھی اپنے دیرینہ دوستوں کو کھونا نہیں چاہتے اور آج بھی بہترین دوستی کی خواہش لے کر وزیراعظم امریکہ جا رہے ہیں۔
ہم نے اپنے پڑوسیوں پر اپنے وسائل اور حیثیت سے بڑھ کر بحیثیت مسلمان اور بحیثیت ہمسائے کے اپنی ذمہ داری ایک نہیں دس قدم آگے بڑھ کر نبھا رہے ہیں۔ یہاں تک کہ گزشتہ کئی دہائیوں سے مسلسل اپنا خون پلانے میں مصروف ہیں۔ مگر ہمیں جواب میں ہمیشہ نفرت اور انتقام کی آگ کے سوا کچھ نہیں ملا۔ ہم نے مہمان نوازی کی انتہا کی ہے جواب میں ہمیں بم دھماکے، قتل و غارت اور ہمارے بُت پرست دشمنوں سے مل کر ہر وقت پاکستان کو غیر مستحکم کرنے کی ناکام شازشوں کے کچھ سوا نہیں ملا۔ہمارے بچوں نے اپنے حصے کا دودھ انہیں پلایا، ہم نے ان کی بہن بیٹیوں اور مائوں کے ننگے سروں پر دوپٹہ اور پردہ دیا ان کے کئی لاکھ مہاجروں کو پاک سرزمین پر تحفظ فراہم کیا مگر جواب میں ہمیں بُت پرستوں سے مل کر مساجد، امام بارگاہوں، مزارات، ریلوے اسٹیشن، ایئر پورٹس، آرمی پبلک سکول اور بہت سے دوسرے اہم مقامات پر انہی محسنوں کی لاشوں کے ٹکڑے ملے۔ اور جن بچوں نے اپنے حصے کا دودھ انہیں پلایا انہی کی جلی ہوئی لاشیں ملیں۔
بلوچستان میں کئی بار زائرین کا خون بہایا گیا۔ دہشت گردی کا ہر نشان ہمارے مشرقی بُت پرست پڑوسی اور مغربی کلمہ گو دوست نما دشمنوں تک گیا۔ نفرت کی انتہا دیکھیں اب تو کرکٹ میچ کے دوران بھی نفرت کی آگ نکل رہی ہے مگر ہماری محبت دیکھیں ہم آج بھی بہترین میزبان ہیں چاہے مہاجرین ہوں۔ افغانی وفود یا صدر کرزئی ہم ہر وقت نفرت کو محبت میں بدلنا چاہتے ہیں۔ ہمیں صدر کرزئی صاحب کی بھرپور میزبانی کا فائدہ نہیں پھر بھی ہم اپنے مسلمان بھائیوں سے دوستی کا یک طرف حق نبھا رہے ہیں۔ حالانکہ سابق صدر کرزئی کے اس حالیہ دورے کا فائدہ کرزئی کو ہی ہوا ہے۔ افغانستان میں رہنے والے کرزئی کے مخالفین یقینا اس مہمان نوازی سے ناخوش ہوں گے۔ مگر شاید ہماری خارجہ پالیسی اور بحیثیت مسلمان صلح حدیبیہ کی کوششیں اُس وقت تک جاری رہیں جب تک دنیا میں امن نہ آ جائے۔ میں ذاتی طور پر یہ سوچتا ہوں بقول شاعر:…؎
اَسی یاری یاری کردے رہے
اُوہ وقت گزاری کردے رہے
اَسی جان دی بازی لا بیٹھے
اُوہ دُنیا داری کردے رہے
پاکستان نے ہمیشہ ایک ذمہ دارا یٹمی ملک ہونے کا ثبوت دیا ہے۔ ہمارے اوپر حملہ آور ہونے والے دشمنوں کو بھی جواب محبت سے دیا جاتا ہے اور ابھی نندن کو آخری خیر سگالی کے طور پر زندہ سلامت بھیج دیا جاتا ہے۔ دنیا جانتی ہے کہ ہماری افواج دنیا کی ایک نمبر فوج ہے۔ہمارا کمانڈر دنیا کا بہترین کمانڈر ہے۔ہماری ISI دنیا کی ٹاپ موسٹ انٹیلی جنس ایجنسی ہے۔ تمام سازشوں سے باخبر ہیں مگر پھر بھی دنیا سے نفرت اور انتقام کی آگ کو ہر صورت محبت اور بہترین حکمت عملی کے ساتھ بجھانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ وزیر اعظم صاحب آپ کا ماہِ رواں میں امریکہ کا دورہ انتہائی اہمیت کا حامل ہے اور پہلی دفعہ وزیر اعظم نہیں جناب عمران خان کی شکل میں ایک سٹیٹس مین امریکی صدر سے مخاطب ہوگا۔ جس کی جیب یا ہاتھ میں کوئی پرچی نہیں ہوگی۔ جو امریکہ سے اندرون خانہ اپنے ذاتی تعلقات اور طوالت اقتدار کی بات نہیں بلکہ امت مسلمہ اور پاکستانی قوم کی بات کرے گا۔ پاکستانی قوم کی قربانیوں کی بات کرنے اور دنیا میں امن کیلئے پاکستان میں بہنے والے شہدا کے خون کی بات ہوگی۔ پاکستانی قوم کی آپ سے درخواست ہوگی کہ کسی بات سے یہ تاثر نہ ملے کہ آپ کچھ مانگنے آئے ہیں۔ وزیر اعظم اس قوم اور ملک کی روح زخمی ہے۔
جناب وزیر اعظم صاحب حضرت علی ؓکا فرمان ہے کہ اپنے دشمنوں کو ہزار موقع دیں کہ آپ کے دوست بن جائیں مگر اپنے دوستوں کو ایک موقع بھی نہ دیں کہ آپکے دشمن بنیں۔امریکہ سے ہماری دیرینہ دوستی ہے۔ انہوں نے ہمیں سیلاب، زلزلے، ایجوکیشن، ہیلتھ اور دوسرے شعبہ ہائے زندگی میں سپورٹ کیا ہے۔ ہم نے ہر ممکن اپنی دوستی کو برقرار رکھنا ہے۔ اور کوشش کرنی ہے کہ ہم جذبات نہیں بہترین دانشمندی کے ساتھ اپنا مقدمہ پیش کریں تاکہ اس کا فائدہ ہمارے دشمن نہ اُٹھا سکیں۔ حالانکہ اس قوم کو ہمیشہ محبت کے بدلے نفرت ملی ہے۔ کبھی اپنوں سے کبھی غیروں سے کبھی دشمنوں سے کبھی دوستوں سے بہت ہو چکا، اب بس کریں بس اور ٹوٹے دِل اور زخمی رُوح کے ساتھ آج شہدا کی رُوحیں بھی سوال کرتی ہیں۔…؎
ہم وفا کرتے رہے وہ جفا کرتے رہے
اپنا پنا فرض تھادُونوں ادا کرتے رہے