آئی ایم ایف پروگرام اور مستقبل کے امکانات

تین جولائی کو آئی ایم ایف کے بورڈ نے پاکستان کیلئے چھ ارب ڈالر اور تین سال کی مدت کا ایک پروگرام منظور کرلیا ہے۔ قومی معیشت کیلئے یہ ایک اہم سنگ میل ہے۔ اس کی آمد میں غیر ضروری تاخیر نے معاشی صورتحال کو مزید ابتری سے دو چار کردیا تھا۔ امید کی جاسکتی ہے کہ اس پروگرام کے آغاز سے معاشی ا ستحکام کو فروغ حاصل ہوگا۔ آج کے مضمون میں ہم اس پروگرام کے چند اہم حقائق نذر قارئین کرینگے اور معیشت میں حالیہ رجحانات کا جائزہ لیتے ہوئے اس پروگرام کی کامیابی کی اہمیت اور پاکستانی معیشت کی مستقبل کی تصویر پیش کرینگے۔ اول، اس پروگرام کے تحت آئی ایم ایف پاکستان کو چھ ارب ڈالر کی مدد تین سالوں میں فراہم کریگا۔ لیکن پاکستان کی خصوصی ضرورتوں کا خیال کرتے ہوئے، پروگرام کی منظوری کے موقع پر پہلی قسط ایک ارب ڈالر کی فی الفور فراہم کردی جائیگی، جواگر جمعے کو نہیں تو پیر کی شام تک اسٹیٹ بینک کو موصول ہوجائیگی۔ یہ خطیر رقم ملک کے زرمبادلہ کے ذخائر کو بڑھانے میں مددگار ہوگی اور اس سے شرح تبادلہ میں استحکام بھی آئیگا۔ دوم، پروگرام کی نگرانی سہل رکھی گئی ہے اور پہلے سال میں یہ سہ ماہی بنیادوں پر ہوا کریگی اور بعد کے دو سالوں میں یہ ششماہی بنیادوں پر ہوگی۔ قبل ازیں یہ ساری مدت میں سہ ماہی ہوتی تھی جو نسبتاً دشوار گذار عمل ہوتا تھا۔ سوم، اس پروگرام کے دوران ملک کو غیرملکی قرضوں کی ضرورت اڑتیس ارب ڈالر کی ہوگی جن کے ذرائع کی نشاندہی پروگرام میں کردی گئی ہے۔ ان ذرائع میں ورلڈ بینک، ایشین ڈیولپمینٹ بینک اور دوست ممالک چین، سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور قطر شامل ہیں۔ یہ پروگرام یقیناً مشکلات کا حامل ہے۔ اس میں دئیے گئے اہداف کا حصول سخت جانفشانی ، محنت اور توجہ کا تقاضا کریگا۔ اس میں مشکلات مزید یوں پیدا ہوگئی ہیں کہ جب مذاکرات مکمل ہوئے اور بجٹ پیش کیا گیا تو اس میں سال کے اختتام پر جو اندازے لگائے گئے تھے وہ پورے نہیں ہوئے۔ مثلاً بجٹ کے موقع پر ٹیکس وصولی کا نظر ثانی شدہ تخمینہ چار ہزار ایک سو پچاس ا رب روپے لگایا گیا تھا۔ اس کے برخلاف وصولیاں صرف تین ہزار آٹھ سو بیس ارب روپے کی ہوئی ہیں، لہذا اس میں تین سو تیس ارب روپے کی کمی رہ گئی ہے۔ دوسری جانب اخراجات کے نظر ثانی شدہ تخمینے بھی کچھ کم رکھے گئے تھے خصوصاً مارک اپ کی ادائیگی قریباً دو ہزار ارب روپے رکھی گئی تھی جبکہ امکان یہ ہے کہ اس کا کل خرچہ دو ہزار دو سو ارب روپے آئیگا۔ان دو بڑے اہداف میں ناکامی پروگرام پر عملدرامد کو مشکل تر بنادے گی۔ ٹیکس کے معاملے میں اب ہم کیونکہ کم تر وصولی سے شروع کررہے ہیں، ہماری ضرورت چالیس فیصد سے زیادہ اضافہ حاصل کرنے کی ہوگئی ہے، جو ہمالیہ سر کرنے کے مترادف ہے۔ ماضی میں ہم نے زیادہ سے زیادہ بیس فیصد کی شرح سے ٹیکس کو بڑھایا ہے۔ اس کو دوگنا کرنا ایک نیا ریکارڈ ہوگا۔
ایک مزید بری پیش رفت صنعتی پیداوار کے حوالے سے ہے۔ دس مہینوں کی کارگردگی (جولائی تا اپریل) کے نئے اعدادو شمار بتا رہے ہیں کہ اس عرصے میں گذشتہ سال کے مقابلے میں پیدوار میں تین اعشاریہ ساٹھ فیصد کی کمی ہوئی ہے۔ اس کمی کا سامنا قریباً تمام بڑی صنعتوں مثلاً آئرن و اسٹیل، سیمنٹ، گاڑیاں، فارماسیوٹکل، مشروبات او ر تمباکو، الیکٹرانکس اور ٹیکسٹائل میں دیکھنے میں آیا ہے۔ یہ کمی سا ل کے دوران آہستہ آہستہ اس قابل ذکر سطح تک پہنچی ہے۔ اس سلسلے میں ایک اہم بات یہ ہے کہ جب اس سال میں مجموعی پیداوار کا اندازہ لگایا جارہا تھا تو مارچ تک کی صنعتی پیداوار کو شامل کیا گیا تھا جو نسبتاً کم گراوٹ کا اشارہ کررہی تھی۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ تین اعشاریہ تین فیصد کی گروتھ جو دکھائی گئی ہے وہ اندازہ حقیقت سے زیادہ ہے اور صحیح اندازہ دو اعشاریہ نو، یا دو اعشاریہ سات ہے جو ورلڈ بینک اور ایشین بینک نے لگایا ہے۔
معاشی سرگرمیوں میں بڑھتی سست روی کا ایک اور اشارہ پیٹرولیم مصنوعات کے اصراف کے اعدادا و شمار میں شائع ہوا ہے۔ اس سے متعلقہ تنظیم نے جو رپورٹ شائع کی ہے اس کے مطابق جون میں ختم ہونے والے سال میں ان اشیاء کے استعمال میں پچیس فیصد کمی واقع ہوئی ہے، جو ایک حیران کن کمی ہے۔ خصوصاً ڈیزل کا استعمال بیس فیصد کم ہوا ہے۔ یہ وہ ایندھن ہے جو معیشت میں ریڑ ھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے۔ اتنے بڑے پیمانے پر اس کی مانگ میں کمی صاف بتا رہی ہے کہ معاشی سرگرمیاں سخت مندی کا شکار ہیں۔
ایک اچھی خبر افراط زر (inflation) کے حوالے سے ہے جس کی شرح تمام تجزیہ نگاروں کی پیشین گوئیوں کے برخلاف گر گئی ہے۔ جون میں یہ شرح آٹھ اعشاریہ نو فیصد رہی بمقابلہ نو اعشاریہ ایک، جو مئی کے مہینے میں رہی تھی۔ یوں تو گذشتہ سال کے مقابلے میں افراط زر کی شرح بہت زیادہ ہے، لیکن اگر ہم اس سال کے تناظر میں دیکھیں جہا ں گمان یہ تھا کہ افراط زر ہاتھ سے نگلتا جارہا ہے اور اس کی شرح میں ہوشربا اضافہ ہوسکتا ہے، تو ہم دیکھیں گے کہ یہ پیش رفت ایک مثبت تبدیلی کی نقیب ہوسکتی ہے۔ یہ بہتری اشیاء خورد و نوش کی وافر مقدار میں فراہمی اور ان کی قیمتوں میں نسبتاً کم اضافہ ہے۔ اگر یہ سلسلہ جاری رہتا ہے تو کوئی وجہ نہیں ہے کہ یہ معتدل اضافہ قائم رہیگا اور افراط زر کی رفتار واحد عدد (Single digit) میں محدود رہیگا۔ اس تجزیے کی بنیاد یہ ہے کہ نئے سال میں جو عناصر افراط زر پر اثرات ڈالتے ہیں وہ متوازن تصویر پیش کررہے ہیں۔ افراط زر کو سب سے بڑا چیلنج بجٹ میں اٹھائے گئے ٹیکس سے متعلق اقدامات سے ہے۔ ان اقدامات میں بہت سی اشیاء ایسی ہیں جن کی قیمتیں فوری طور پر بڑھیں گی اور افراط زر پر اثر انداز ہونگی۔ لیکن یہ ایک دفعہ کا اضافہ ہے اور مستقل اضافے کا باعث نہیں بنے گا۔
دوسری جانب زیادہ اہم بات یہ ہے کہ پروگرام کے حصول کیلئے جو سابقہ اقدامات (prior action s) اٹھا لیے گئے ہیں، خصوصاً شرح تبادلہ اور شرح مارک اپ کے حوالے سے اور جو افراط زر پر زیادہ اثرات مرتب کرتے ہیں، وہ اب ہمارے سامنے نہیں ہونگے۔ خصوصاً اگر پروگرام پر عملدرامد دلجمعی کیساتھ ہوتا ہے تو یہ منفی اثرات آگے درپیش نہیں ہونگے لہذا یہ توقع کیجاسکتی ہے کہ افراط زر قابو میں رہیگا۔ اس پس منطر میں ہم یہ بھی توقع رکھتے ہیں کہ جولائی میں ہونے والے مانیٹری پالیسی کمیٹی کے اجلاس میں شرح مارک اپ سے متعلق اضافہ کی اب کوئی گنجائش نہیں ہے۔ یہ شرح پہلے ہی بہت اونچی سطح پر ہے اور اس کیوجہ سے بجٹ میں مارک اپ کے اخراجات تاریخی سطح پر پہنچ گئے ہیں اور یہ اب ارتکازدولت کا باعث بن رہے ہیں۔اس اونچی سطح کیوجہ سے سرمایہ کاری ممکن نہیں ہے لہذا اس میں کمی وقت کی اہم ضرورت ہے۔
پروگرام کا کم از کم فائدہ معاشی استحکام کی بحالی ہے۔ اس کیلئے ہمیں شرح تبادلہ، شرح مارک اپ ، بیرونی ادائیگیوں کے توازن اور بجٹ (خصوصاً ٹیکس وصولیوں) پر نظر رکھنی ہوگی۔ گذشتہ دنوں شرح تبادلہ میں غیر متوقع تبدیلی سامنے آئی تھی۔ اس سے یہ گمان پیدا ہوا کہ شاید عدم استحکام موجود ہے، لیکن بعد ازاں یہ صورتحال درست ہوگئی۔ اس کے برخلاف اسٹاک مارکیٹ میں مندی دو دن سے قائم ہے اور انڈیکس میں چھ سو زیادہ پوائنٹ کم ہوگئے ہیں۔ یہ تشویش کا باعث ہے اور ہم توقع رکھتے ہیں کہ آئندہ چند دنوں میں یہ صورتحال بہتر ہو جائیگی۔ بجٹ سے متعلق مختلف گروہوں کے تحفظات پر گفتگو جاری ہے اور ان کے حل سے صورتحال مزید بہتر ہوگی۔
اب ہمارے سامنے نئے سال کے نتائج کی آمد کا انتظار ہے۔اس سلسلے میں سب سے پہلے ٹیکس وصولیوں کی معلومات ہیں جو یکم اگست کو موصول ہوجائیں گی۔ بیرونی ادائیگیوں کے اعداد شمار اگست کے تیسرے ہفتے میں سامنے آجائینگے۔ بجٹ خسارے کی معلومات تاخیر سے موصول ہوتی ہیں۔ اگر یہ نتائج ان اندازوں کے مطابق نکلتے ہیں جو پروگرام میں لگائے گئے تھے تو ہم اعتماد کیساتھ استحکام اور ترقی کی راہ پر گامزں ہوجائینگے۔ لیکن اگر یہ نتائج ان اندازوں کے برعکس نکلے تو ہماری مشکلات قائم رہیں گی۔ ایسی صورت میں پروگرام کا جاری رہنا صرف اس حالت میں ممکن ہوگا اگر ہمیں آئی ایم ایف کے تجویز کردہ مزید اقدامات، جو ٹیکسوں اور شرح سود میں اضافہ اور اخراجات میں اور روپے کی قدر میں کمی سے متعلق ہونگے، اٹھانے پر تیار ہوجائیں، جو ہمارے لیے آسان نہیں ہوگا۔ لیکن ایک ناکام پروگرام دیگر خطرات کا باعث ہوسکتا ہے۔ لہذا ایک بے یقینی کی فضا پیدا ہو جائیگی جو معیشت کی نشو و نما کیلئے برا ہوگا۔ ان حالات میں ہمارے پاس پروگرام میں کامیابی کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ نہیں ہے۔

ای پیپر دی نیشن

آج کی شخصیت۔۔۔۔ جبار مرزا 

جب آپ کبھی کسی کے لیے بہت کچھ کہنا چاہ رہے ہوتے ہیں لفظ کہیں بھاگ جاتے ہیں ہمیں کوئی ایسے الفظ ملتے ہی نہیں جو اس شخصیت پر کہہ ...