چوائس چوائس ہوتی ہے،چوائس وزیر اعظم کی ہو یا عوام کی،یا پھر تیسری پارٹی کی،وزیر اعظم کی چوائس تو یہی ہے کہ صرف اور صرف وہ وزیر اعظم رہیں،جہا ں تک عوام کا معاملہ ہے،تو عوام نے جس تبدیلی سبز باغوں اور بلند وبانگ دعوؤں پر ووٹ دیئے تھے،آج سبھی شرمندہ ہیں،کہاں گئیں وہ کروڑوں نوکریاں،پچاس لاکھ گھر،ترقی و خوشحالی،امن و انصاف کی باتیں،پوری قوم کا قرضوں میں سر جکڑ گیا ہے،مہنگائی نے عوام کی ریڑھ کی ہڈی توڑ ڈالی ہے،خدا جانے یہ قوم کب دوبارہ کھڑی ہونے کے قابل ہو سکے۔ پیپلز پارٹی،ن لیگ سے عوام پہلے ہی بدظن ہیں،رہی سہی کسر پی ٹی آئی نے نکال دی،تیسری آنکھ تیسری پارٹی اورتیسری قوت ہی سب کچھ ہوتے ہیں،یہ جو زندگی میں تکون ہوتی ہے،اصل طاقت اْسی کے پاس ہوتی ہے،عاشق و معشوق کے درمیان جب رقیب آجاتا ہے تو منظر بدل جاتا ہے،آسمان اور زمین کے درمیان خلا ہے،انسان اور فرشتوں کے بیچ میں شیطان ہے،یہ تکون ہمیشہ معنی رکھتی ہے،تکون سے کہانیاں جنم لیتی ہیں۔ سیاست کے ایوانوں میں یہ تکون اپنا کام دکھاتی ہے،اقتدار کا سارا کھیل تکونا ہوتا ہے،عمران خان نے جب سے یہ کہا ہے کہ میں ہی آخری چوائس ہوں،میرے سوا کوئی چوائس نہیں،آپ یقین جانیں میں نے وزارت عظمی کی کرسی پر ایک نیا ہیولہ دیکھنا شروع کردیا ہے،اس دنیا میں کوئی بھی آخری چوائس نہیں ہوتا،محبوب بیوی مر جائے تو مرد اْسی محبوب بیوی کے چہلم پر ایک اور عورت کے ساتھ نکاح پڑھوا رہا ہوتا ہے،حد تو یہ ہے کہ جب شوہر مر جائے تو بیوی بھی دوسری شادی کرلیتی ہے،مطلب وقت اور حالات کے مطابق چوائس بدلتی رہتی ہے،چوائس کوئی ساکت و جامد شے نہیں ہے،یعنی چوائس بدلتی رہتی ہے،عمران خان کی اس بات میں رعونت بھی تھی،اور بچگانہ پن بھی،اس بات کا جواب شیخ رشید نے دیا ہے،شیخ رشید نے کہا ہے کہ ہم آخری چوائس نہیں ہیں،اگر ہوا تو پھر مائنس تھری ہوگا،شیخ رشید کے اس بیان پر وفاقی وزیر فواد چودھری نے کہا،کہ شیخ رشید مائنس ون کی بات کرکے کیا حاصل کرنا چاہتے ہیں،ان دونوں کے بیانات بیان کرنے کا مقصد پی ٹی آئی کے وزرائ اور مشیروں کا باہمی اختلاف ہے، ان کے درمیان تنازعات اتنے زیادہ ہیں کہ ہر وزیر کی اپنی ایک کہانی ہے،اسدعمر، فواد چودھری،فردوس عاشق اعوان،زلفی بخاری،مراد سعید،غلام سرور،اعظم سواتی، فیصل واوڈا،فہمیدہ مرزا،زرتاج گل،بہت نام ہیں،اسی طرح جہانگیر ترین لڑائی جھگڑے،ناپسندیدگیاں،اور کرپشن کی کہانیاں اب زبان زد عام ہیں،پارٹی کے اندر کافی بحران ہے،شیروں کے درمیان بھی رسہ کشی ہے،اور بہت سے ارکان اسمبلی ایک دوسرے سے ناخوش ہیں، پی ٹی آئی کے کارکن بری طرح بدظن ہیں ، اور پارٹی پر شدید تنقید جاری ہے ، شایداسی لئے شیخ رشید نے کہا کہ گندے کپڑے میڈیا پر نہ دھوئے جائیں، مطلب کپڑے تبھی دھوئے جاتے ہیں،جب وہ گندے اور آلودہ ہوتے ہیں،فواد چودھری کے بیان میں بھی بڑا وز ن ہے،فواد چودھری کہتے ہیں کہ میں نے عمران خان سے کہا تھا کہ پہلے سال احتساب کا عمل مکمل کرلیں،اب ہم ایک ایسی ریڑھی کھینچ رہے ہیں،جس کے ٹائروں سے ہوا نکل چکی ہے،پی ٹی آئی سے بھی تبدیلی کی ہوا چل پڑی ہے،شیخ رشید دبنگ آدمی ہیں،اْن کا فارمولا درست ہے کہ مائنس ون نہیں،مائنس تھری ہوگا،یعنی عمران،زرداری اور شہباز شریف۔۔۔۔۔۔۔لیکن مائنس ون اور تھری کے بجائے مائنس ٹین سے ملک میں امن و استحکام آئے گا،یعنی تمام آزمودہ مہروں کو اگلے الیکشن میں نہ آزمایا جائے،ورنہ صورتحال جوں کی توں برقرار رہے گئی،مائنس تھری سے بھی کچھ نہیں ہوگا،اب اسٹیبلشمنٹ کو سوچنا ہو گا،کہ ملک بچانا ہے عوام کو بچانا ہے،معیشت بچانی ہے،ساکھ بچانی ہے،اور اپنی عزت،سالمیت بچانی ہے،اسکے لئے مائنس ٹین کا فارمولا اپنانا ہو گا،یعنی صرف نواز،شہباز منہا نہیں کرنا ہوگا،ان کی باقیات،آل اولاد سے بھی پاکستان کو بچا نا ہوگا،نواز،شہباز،حمزہ،مریم نوازکو بھی اقتدار کی پینگیں جھولنے سے روکنا ہوگا،یہ کوئی بادشاہت نہیں ہے کہ بادشاہ سلامت کے بعد اْن کا بیٹا یا بیٹی تخت وتاج کے وارث بنیں،اس عظیم مملکت میں ایک سے بڑھ کر ایک ذہین و فطین،محب وطن اور لائق قابل افراد موجود ہیں،جو ملک کی باگ ڈور بااحسن خوبی سنبھال سکتے ہیں، یہی نہیں بلکہ ن لیگ کے شاہد خاقان عباسی،احسن اقبال وغیرہ سے بھی گریز کرنا ہوگا،اسی طرح زرداری کے علاوہ ابھی بلاول بھٹو کا بچگانہ رویہ بھی وزارت عظمی کا اہل نہیں،ملک نادان بچوں کے ہاتھ میں دے کر تباہ وبرباد نہیں کیا جاسکتا،نہ ہی یوسف رضا گیلانی،راجہ پرویز اشرف وغیرہ کو اقتدار میں شامل کیا جاسکتا۔