برہان مظفر وانی شہید کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ بھارتی فوجیوں کے مظالم کی داستانیں سن کر کم عمر برہان بے چین ہو جایا کرتاتھا۔ وہ بھارتی فورسز کے مظالم کے کئی واقعات اپنی آنکھوں سے بھی دیکھ چکا تھا۔ لہٰذا درندہ صفت فوجیوں کے خلاف اسکے دل میں نفرت کا لاواپک رہا تھا۔ وانی کے بڑے بھائی خالد کی بھارتی فوج کے ہاتھوں شہادت کے بعد وہ بہت بے چین رہنے لگا تھا۔اس کا ذکر نام نہاد کشمیر اسمبلی میں بھی ہوتا۔ بعض ارکان اسمبلی یہ کہنے پر مجبور ہو گئے کہ حکومت برہان مظفر وانی سے مذاکرات کرے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ ظلم، جبر، تشدد اور خونِ ناحق ہمیشہ ردعمل کو جنم دیتا ہے۔ بھارتی حکمران سمجھتے ہیں کہ وہ ظلم کے ہتھکنڈوں سے آزادی کے بھڑکتے شعلوں کو ٹھنڈا کر رہے ہیں، لیکن بھارتی فوج کا ظلم آزادی کے شعلوں کو مزید تیز تر کر رہا ہے۔ یہی معاملہ برہان وانی شہید کا تھا۔ بھارتی فوج کے مظالم نے اسے آتش فشاں بنا دیا۔2013ء میں جن تین بھارتی فوجیوں نے کشمیری مسلمان بچیوں کی عصمت دری کی، انکے بھیانک انجام کی ویڈیو بنا کر فلم سوشل میڈیا پر جاری کر دی تھی۔ وانی اور انکے ساتھیوں نے سوشل میڈیا کو تحریک آزادی کیلئے بڑی مہارت سے استعمال کیا اور عالمی توجہ بھی حاصل کی۔ بھارتی حکومت نے برہان وانی شہید کے سرکی قیمت دس لاکھ مقرر کر دی۔ برہان نے اپنی قوم کے جوانوں میں جذبہ جہاد بیدار کرنے کیلئے بندوق کے ساتھ ساتھ انٹرنیٹ اور فیس بک کو بھی خوب استعمال کیا۔ وہ جہادی زندگی، بھارتی فوج کے کشمیریوں پر مظالم اور مجاہدین کی بھارتی فوج کے ساتھ معرکہ آرائیوں کی ویڈیو اَپ لوڈ کرتا۔آج بھارتی افواج کشمیری بچوں کے سامنے بے بس نظر آتی ہیں۔ جہاں مظفر وانی کی شہادت سے تحریک آزادی کو نئی مہمیز ملی، وہیں بھارتی بربریت اور سفاکیت میں بھی اضافہ ہوا۔ مہلک اور ممنوعہ اسلحہ کا بے دریغ استعمال کیا گیا۔ اسرائیل سے پیلٹ گنیں درآمد کرکے سینکڑوں کشمیریوں کو شہید کیا، اسرائیل نے گو بعد میں فلسطینیوں کیخلاف اس کا استعمال روک دیا۔ مگر بھارت نے سفاکیت کی انتہائ اور انسانیت کی دھجیاں بکھیرتے ہوئے اس کا بے رحمانہ استعمال کرکے دس ہزار سے زائد بچوں، بچیوں اور نوجوانوں کو معذور کردیا، ان میں سے اکثر کی بینائی جاتی رہی اور چہروں کے خدوخال بدل گئے۔ بھارت نے اسی پر اکتفا نہیں کیا، بلکہ مقبوضہ وادی میں کیمیائی اسلحہ کا بھی استعمال کیا جارہا ہے۔ پاکستان نے عالمی برادری سے مقبوضہ کشمیر میں بھارت کی طرف سے کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال کی تحقیقات کرانے کا مطالبہ بھی کیا ہے۔ ترجمان دفتر خارجہ کا کہنا ہے کہ بھارتی سکیورٹی فورسز کشمیری نوجوانوں کو شہید کرنے اور املاک کو تباہ کرنے کیلئے ایسا گولہ بارود استعمال کر رہی ہیں جن میں مختلف کیمیائی مواد استعمال کئے جا رہے ہیں۔ بھارتی فورسز کی طرف سے تباہ کئے گئے گھروں سے ملنے والی کشمیری نوجوانوں کی نعشیں اتنی بری طرح جلی ہوئی تھیں، انکی شناخت ممکن نہیں رہی تھی۔مقبوضہ جموں کشمیر میں روا رکھے جانے والے بھارتی مظالم کی مثال انسانی تاریخ میں نہیں ملتی۔ بیٹوں کو ماوں، بہنوں کے سامنے ننگا کرکے ماراجاتا، ان کے جسموں پر کھولتا ہوا پانی ڈال دیا جاتا ہے، جس سے ان کی کھال اتر جاتی ہے، بعد ازاں ان کے زخموں پر مرچیں چھڑک دی جاتی ہیں۔ جس سے وہ تڑپ تڑپ اور سسک سسک کر موت کے اندھیروں میں گم ہو جاتے ہیں۔2007ء میں ایمنسٹی نے اپنی رپورٹ جاری کرتے ہوئے کہا ’’مقبوضہ جموں کشمیر میں گرفتار شدہ افراد پر وحشیانہ تشدد کے علاوہ ان کی خوراک اور پانی بند کر دیا جاتا ہے، انہیں سونے نہیں دیا جاتا، بجلی کے جھٹکے لگائے جاتے ہیں اور ان کے جسموں میں سوراخ کر دیئے جاتے ہیں۔‘‘ مئی 2006ئ میں بھارتی مصنفہ ارون دتی رائے نے کہا تھا ’’مقبوضہ کشمیر میں سات لاکھ بھارتی فوج نے صورت حال کو ابتر بنا رکھا ہے۔ بھارتی معاشرہ نازیوں جیسا ہے اور مقبوضہ جموں کشمیر سے بھارتی فوج کے انخلا تک امن ممکن نہیں۔‘‘حق خود اردیت کے وعدوں کو ایفا نہ کرنے اور بھارتی فوج کے اس طرح کے بے پناہ مظالم نے کشمیری نوجوانوں کو اسلحہ اٹھانے، مسلح تحریک چلانے، مرنے اور مارنے پر مجبور کردیا ہے۔ جبکہ مجاہدین کی کاروائیاں صرف بھارتی افواج تک محدود ہیں۔ اس بات کا اعتراف مقبوضہ جموں کشمیر کے سیکرٹری داخلہ تلک راج کاکڑ نے ان الفاظ میں کیا تھا ’’مجاہدین کسی سیاح یا بیگناہ شہری کو نشانہ نہیں بناتے۔ بلکہ ان کا ہدف صرف اور صرف بھارتی فوج اور چند بھارت نواز سیاستدان ہیں۔ اگر مجاہدین بیگناہ لوگوں کو نشانہ بنائیں تو یقینی بات ہے کہ ان کے کاز کو نقصان پہنچے گا۔‘‘مظفر وانی کی شہادت کے بعد سے کشمیری نوجوان بھارت کیخلاف سوشل میڈیا کا بھرپور استعمال کررہے ہیں، جو کہ مقبوضہ وادی کے اندر تو ممنوع قرار دیدیا گیا مگر مقبوضہ کشمیر کے باہر کشمیری اور پاکستانی نوجوان بھارتی بربریت کو ممکنہ حد تک بے نقاب کر رہے ہیں۔ کشمیریوں نے کشمیر ایشو کو بڑے جاندار طریقے سے عالمی برادری کے سامنے رکھا۔اقوام متحدہ، یورپی یونین اور ایمنسٹی انٹرنیشنل جیسی تنظیمیں بھی بھارت پر انسانی حقوق کے حوالے سے دباؤڈال رہی ہیں۔ بھارت نے ان تنظیموں کے وفود کو مقبوضہ کشمیر میں آنے سے روک رکھا ہے۔ بھارت نے مقبوضہ کشمیر میں اپنے مظالم چھپانے کیلئے اقوام متحدہ کے مبصرین کا نئی دہلی میں دفتر بھی بند کر رکھا ہے۔ جبکہ پاکستان میں یہ مصبرین موجود ہیں اور شیڈول کے تحت ایل او سی کا دورہ کرتے ہیں۔ بھارت کے عالمی اداروں کی تضحیک کا اندازہ اس سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ وہ نہ صرف عالمی اداروں کی انسانی حقوق سے متعلق تنظیموں کو مقبوضہ کشمیر کے دورے کی اجازت نہیں دیتا۔ بلکہ اس نے پاکستان میں موجود اقوام متحدہ کے مبصروں کی جیپ پر ایل او سی کے دورے کے موقع پر حملہ بھی کر دیا تھا۔ پاکستان اور بھارت کے مابین مسئلہ کشمیر پر تین جنگیں ہوچکی ہیں جو اس مسئلہ کی شدت اور سنگینی کو ظاہر کرتی ہیں۔ مگر پاکستان میں قومی اسمبلی کی کشمیر کمیٹی کی ہیئت پر ہمیشہ سے ہی غیر سنجیدگی کا اظہار ہوتا رہا ہے۔ ماضی میں مولانا فضل الرحمان تقریباً ایک دہائی سے کشمیر کمیٹی کے چیئرمین رہے۔ مگر کشمیر کاز کیلئے انکی سربراہی میں کشمیر کمیٹی عضو معطل بنی رہی ہے۔ پاکستان تحریک انصاف کے دور حکومت میں بھی تاحال یہ کمیٹی اب تک عضو معطل ثابت ہوئی ہے۔ جبکہ آج کے معروضی حالات اسکی فعالیت کے متقاضی ہیں۔ اس کے لئے ایک فعال سیاسی قیادت کی ضرورت ہے۔ وزیراعظم عمران خان اور انکی حکومت کو صرف ٹویٹر پر کبھی کبھار بیان داغنے کی بجائے فوری طور پر، دنیا بھر کی توجہ کشمیر پر مرکوز کرنے کی خاطر ایک فعال کشمیر کمیٹی کا قیام وقت کی اشد ضرورت ہے۔ خواہ اس کیلیے کشمیر کمیٹی کے تمام موجودہ ممبروں کی تبدیلی کا فیصلہ بھی کرنا پڑے۔ وقت آگیا ہے کہ حکومت اور قومی اسمبلی کے معزز ممبران فوری طور پر ایک فعال کردار کی حامل کمیٹی کے قیام میں اپنا بھرپور کردار ادا کریں۔