پنجاب یونیورسٹی اور مائنس 342 !!!!

ہم جب بھی جامعہ پنجاب جائیں، بہتری، ترقی اور خوشحالی کی امید کے ساتھ واپس آتے ہیں۔ نوجوانوں کے روشن چہرے، مسکراہٹیں، علم کی لگن، سیکھنے کی جستجو، تحقیق، تخلیق سب کچھ ایک ساتھ نظر آتا ہے تو کچھ وقت کے لیے خدشات کا خاتمہ ہو جاتا ہے۔ بڑی تعداد میں نوجوانوں کی جامعہ موجودگی اور علم سے محبت اس بات کا ثبوت ہے کہ روشنی ختم نہیں ہوئی۔ ابھی خواب دیکھے جا سکتے ہیں۔ امید لگائی جا سکتی ہے۔ ان نوجوانوں نے عملی زندگی میں آنے کے بعد ملک کی تعمیر و ترقی میں اہم کردار ادا کرنا ہے۔ ڈاکٹر مجاہد کامران کے دور میں ہمارا آنا جانا زیادہ رہتا تھا۔ بالخصوص جامعہ میں کھیلوں کے مقابلوں کو دیکھنا ہونہار اور باصلاحیت کھلاڑیوں کو میدان میں دیکھنے کا الگ ہی مزہ ہے۔ یہاں کھلاڑیوں کو کھیل اور تعلیم میں آگے بڑھنے کے یکساں مواقع ملتے ہیں۔ کرکٹ کے عروج کے دور میں کھلاڑی یونیورسٹیز کی ٹیم میں منتخب ہونے والا کھلاڑی یہ سمجھتا تگا کہ اس نے پاکستان ٹیم کے لیے کھیل لیا ہے۔ تعلیمی اداروں میں کھیلوں کا یہ معیار بھی واپس آنا چاہیے۔ ہاکی اور دیگر کھیلوں میں بھی صلاحیت کی کمی تو نہیں ہے لیکن مواقع کم ہیں، معاشی مستقبل محفوظ نہیں ہے۔ میرٹ نہیں ہے، حقدار کھلاڑی کو اس کا حق نہیں ملتا۔ یہ سب مسائل کیسے حل ہو سکتے ہیں۔ یہ سوچتے سوچتے ہم وائس چانسلر پنجاب یونیورسٹی ڈاکٹر نیاز اختر کے آفس تک پہنچ گئے۔ ان سے کافی دیر تک کئی اہم معاملات پر بات چیت ہوتی رہی۔
ڈاکٹر صاحب جامعہ پنجاب میں تعلیم کے معیار کو بلند کرنے اور یونیورسٹی کی درجہ بندی میں بہتری کے لیے بہت کام کر رہے ہیں اور اس مقصد میں انہیں خاطر خواہ کامیابی بھی ملی ہے۔ ہماری بدقسمتی ہے کہ ہم نے تعلیمی اداروں کو تعلیمی مورچوں کے طور پر استعمال ہی نہیں کیا۔ اصل میں یہی وہ جگہ ہے جہاں سے ہم دنیا کے بڑے بڑے ممالک کو شکست دے سکتے ہیں۔ دنیا پر اپنی دھاک بٹھانے کا اصل میدان یہی ہے۔ حکومت کوئی بھی ہو اسے سب سے زیادہ توجہ تعلیم اور تحقیق پر ہی دینی چاہیے۔ اساتذہ اس قوم کے ہیروز ہیں اگر تعلیمی ایمرجنسی لگائی جائے تو بہت سے مسائل ناصرف حل ہو سکتے ہیں بلکہ ہم کئی بڑے مسائل سے بچ بھی سکتے ہیں۔ ڈاکٹر نیاز اختر نے بتایا کہ پنجاب یونیورسٹی وفاق اور اتحاد کی علامت ہے۔ پنجاب بڑا بھائی ہونے کے ناطے پختونوں، بلوچوں اور سندھ سے آنے والے طلبائ￿ کو خاص اہمیت دیتا ہے کیونکہ اس تاریخی تعلیمی ادارے سے اتحاد اور اتفاق کا پیغام ہی جانا چاہیے۔ یہاں ہم صوبائی تعصب کے بجائے پاکستانیت کا درس دیتے ہیں۔ یہاں رنگ و نسل، زبان اور علاقے کے بجائے ایک قوم کا سبق دیتے ہیں۔ ہمارے دروازے پاکستان کے سب نوجوانوں کے لیے کھلے ہیں۔ جامعہ پنجاب کی خوش قسمتی ہے کہ یہاں ملک بھر سے طلبائ￿ حصول علم کے لیے آتے ہیں اور ہم ملک بھر سے آنے والے ان طلبائ￿ کے خدمت گار کی حیثیت سے کام کر رہے ہیں۔ ہم کوشش کر رہے ہیں کہ جلد از جلد میڈیکل کالج کا قیام عمل میں آئے اور اس شعبے میں ملک و قوم کی خدمت کر سکیں۔ جامعہ کے دروازے بلوچستان، کشمیر، گلگت بلتستان، خیبرپختونخوا اور سندھ سے آنے والے طلبائ￿ کے لیے کھلے ہیں۔ چودھری صاحب جو پیارے وطن نے ہمیں دیا ہے وہ قرض تو کبھی ادا نہیں کر سکتے لیکن یہاں بیٹھ کر اس کا کچھ حصہ واپس ضرور کر سکتے ہیں۔ آپ چکر لگاتے رہا کریں اتنی لمبی غیر حاضری اچھی بات نہیں ہے۔
عزیر بلوچ اور فیکٹری بلدیہ ٹاؤن یہ دونوں کردار پاکستان کی سیاسی تاریخ کے سیاہ باب ہیں۔ برسوں گذر گئے ہیں انصاف بھٹکتا پھر رہا ہے کون ہے جو ایسے ظالموں کو کیفر کردار تک پہنچائے گا، کون ہے جو متاثرین کو انصاف فراہم کرے گا اور کیا کبھی کوئی اصل مجرموں تک پہنچ پائے گا۔ ابھی تک تو عزیر بلوچ اور بلدیہ ٹاؤن فیکٹری میں آگ لگانے والے پیادے ابھی تک انجام کو نہیں پہنچ سکے تو اصل مجرموں کو سزا کون دے گا۔ گرفتاری کوئی سزا نہیں ہوتی نہ ہی اس سے پورا انصاف ملتا ہے نہ انصاف کے تقاضے پورے ہوتے ہیں۔ یہ دونوں واقعات اور اس کے کردار سیاسی جماعتوں کی تاریخ میں سیاہ باب کی حیثیت رکھتے ہیں۔ یہ کردار بتاتے ہیں کہ حکومت میں آ کر منتخب نمائندے کیسے اپنے ووٹرز کا گلا کاٹتے اور عام آدمی کا خون چوستے ہیں۔ بدقسمتی سے ایسے کردار ہر صوبے میں موجود ہیں اور ہر جگہ حکومتی عہدیدار ان کی پشت پناہی کرتے ہیں۔ یہ جمہوریت کا خون ہے، یہ انصاف کا خون ہے، یہ قانون کا خون ہے۔ جہاں برسوں رپورٹ عام ہونے میں لگ جائیں وہاں کیا انصاف ہو گا وہاں کیا اصل مجرموں تک پہنچا جائے گا۔
شاہد خاقان عباسی کہتے ہیں کہ اب مائنس ایک یا دو نہیں پورا ایک سو ساٹھ ہو گا۔ عباسی صاحب کے منہ میں گھی شکر جو ان کی قیادت نے اس ملک کے ساتھ کیا ہے اس کے بعد ایک سو مائنس ساٹھ بھی کم ہے۔ شاہد خاقان عباسی اور ان کے ساتھی جو خود کو جمہوریت کے بہت بڑگ چیمپئن سمجھتے ہیں ان دونوں نے باری باری جتنا نقصان اس ملک کو پہنچایا ہے اس کے بعد واقعی مائنس ایک سو ساٹھ کم معلوم ہوتا ہے۔ سابق وزیراعظم تیار رہیں مائنس تین سو بیالیس کا سفر شروع ہو چکا ہے اور یہ سفر ان دو بڑی جماعتوں کی نااہلی کی وجہ سے ہوا ہے۔ جمہوریت کے نام پر ملک کو قرضوں کی دلدل میں پھنسا کر مائنس ایک دو کہنے والے مائنس تین سو بیالیس کے لیے تیار رہیں۔
چودھری شجاعت حسین نے وزیراعظم عمران خان کو خط لکھ کر میڈیا پر عائد ہونے والی پابندیوں پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔ نجی چینل کی نشریات بند ہونے کے بعد چودھری شجاعت حسین نے وزیراعظم کو اچھے مشورے دیے ہیں۔ پہلی لائن اس خط کی جان ہے جسے پڑھ کر یہ ثابت ہوتا ہے کہ جو کوئی بھی وزیراعظم کو حقائق بتانے کی کوشش کرتا ہے وہ حقیقت جاننے کے بجائے اسے مخالفت سمجھنا شروع کر دیتے ہیں۔ میڈیا کی اہمیت اور حیثیت سے انکار ممکن نہیں ہے اور تعمیری تنقید کی حوصلہ افزائی ہونی چاہیے کاش کہ وزیراعظم میڈیا سے اتن ہی پیار کرتے جتنا وہ اپوزیشن میں ہوتے ہوئے کرتے تھے۔ یہ بات ثابت ہو چکی ہے کہ مسلم لیگ ق نے یہ فیصلہ کر لیا ہے کہ اب وہ سیاسی معاملات میں سیاسی فیصلے کریں گے۔ وہ سیاسی فیصلوں میں آزاد ہیں اور اس معاملے میں اپنا ردعمل سیاسی جماعتوں کی طرح دیں گے لیکن اس کے ساتھ ساتھ گنتی پوری کرنے کے لیے پی ٹی آئی کو بوقت ضرورت ووٹ بھی دیتے رہیں گے۔ عملی طور پر پی ٹی آئی اور ق لیگ کا کوئی اتحاد نہیں ہے اب یہ تعلق صرف ضرورت کی بنیاد پر ہی قائم ہے۔ حکومت ان کی ضروریات پوری کرتی رہے گی اور وہ حکومت کی ضرورت پوری کرتے رہیں گے اس سے بڑھ کر کچھ نہیں ہے۔
ابھی سائرن بجا ہی تھا کہ جنوبی پنجاب سے تعلق رکھنے والے وزیر اعلیٰ پنجاب کے ایسے مشیران جن کے دھندے کی رپورٹ تیار ہو چکی ہے وہ اپنی کرپشن کو بچانے یا وزیر اعظم کو بلیک میل کرنے کے لیے ان سے ملاقات کر چکے ہیں اور یہ باتیں پھیلا رہے ہیں کہ وہ خود ملاقات کے لیے نہیں گئے تھے بلکہ انہیں وزیراعظم نے یاد فرمایا تھا۔ جناب وزیراعظم ان افراد کے خلاف بھرپور رپورٹ تیار ہے اب وقت ہے کہ آپ نے سیاسی طور پر بلیک میل نہیں ہونا کرکٹ کھیلتے ہوئے آپ نے کبھی کسی کھلاڑی کے ناجائز مطالبات کو نہیں مانا تھا اور کبھی سرنڈر نہیں کیا لیکن سیاسی زندگی میں آپ ایسا کرنے میں ناکام رہے ہیں اگر آپ نے اس معاملے میں بھی مصلحت سے کام لیا تو یقین جانیں رہی سہی امیدیں بھی دم توڑ دیں گی۔
وزیراعظم کی خاص ہدایت پر ذخیرہ اندوزوں کے خلاف کریک ڈاؤن ہوا ہے یہ اچھی بات ہے۔ مافیا اس پر ردعمل یقیناً دے گا۔ اب سب سے اہم بات وزیراعظم کا قائم رہنا ہے اگر اس معاملے میں ماضی کی کارکردگی کو دہرایا گی تو یاد رکھیں کہ چینی کی قیمت کم از کم سو روپے فی کلو ہو جائے گی اور چاولوں کی قیمت کو بھی پر لگ جائیں گے۔ ویسے چاولوں پر کریک ڈاؤن کی ضرورت نہیں تھی کیونکہ وہ آٹے جتنی اہم چیز نہیں ہے۔ گندم اور چینی کے ناجائز ذخائر پر کریک ڈاؤن کی ضرورت تھی۔ کیونکہ فصل سال میں ایک مرتبہ ہو تو اس کا ذخیرہ ہو سکتا ہے اور خرید و فروخت سارا سال جاری رہتی ہے۔ سو اس معاملے پر نہایت احتیاط کے ساتھ کام کرنے کی ضرورت ہے۔

ای پیپر دی نیشن