کہا جاتا ہے کہ کوئی بھی بڑا شاعر‘ ادیب یا تخلیق کار اپنے زمانے کے علاوہ آنے والے تمام زمانوں کا بھی نمائندہ ہوتا ہے عالم گیر اور آفاقی سچائیوں کے رمز آشنا یہ ادیب اپنے مضبوط تخیل کے ذریعے اپنی تخلیق میں ایک زمانے سے دوسرے زمانے میں زبردست تخلیقی جست لگاتے ہیں اور یوں ان کی لکھتیں نہ صرف ان کے اپنے بلکہ آنے والے ہر عہد کا اعتبار حاصل کر لیتی ہیں۔ میر‘ غالب ‘ اقبال‘ شیکسپیئر ‘ ورڈز ورتھ اور ان جیسے تاریخ کے بڑے بڑے نامور اہل قلم اور اہل دماغ کا طرہ امتیاز یہی تو ہے کہ انہوں نے اپنی تخلیقات میں اپنے منفرد اسلوب کے ذریعے فطرت شناسی کی انتہاؤں کو چھونے کی سعی کی ہے جس کے باعث سینکڑوں برس گزر جانے کے باوجود بھی ان کی تخلیقات برس گزر جانے کے باوجود بھی ان کی تخلیقات میں تازگی‘ تنوع اور ترفع پایا جاتا ہے اور ان کے عہد کی بات ہمیں اپنے عہد کی بات معلوم ہوتی ہے۔
سلیم شہزاد ہمارے عہد کے سرائیکی زبان میں لکھنے والے ایسے شاعر ادیب اور دانش ور ہیں جن کی تخلیقات میں ایک طرف تو ان کے کلچر اور ثقافت کی بو باس رچی بسی ملی ہے اور دوسری طرف ان کی فکر کی گہرائی کا اظہار ان کی خاص علامتوں‘ استعاروں اور تشبیہات کے ذریعے ہوتا ہے جن کے پس منظر میں ان کے عمیق مشاہدے اور مطالعے کی جھلک نظر آتی ہے۔ اپنے سہل‘ غیر ادق مگر انتہائی خوبصورت اور دل میں اتر جانے والے طرز اظہار کے ذریعے اپنی فکر کی جولانیوں کو قاری کے سامنے اس طرح پیش کرتے ہیں کہ بوجھ پن کا احساس تک نہیں ہوتا اور کہانی کے پُر پیچ سفر میں ان کا ہم رکاب قاری ہنسی خوشی کہانی کا سفر طے کر لیتا ہے۔
’’گھان‘‘ سلیم شہزاد کا چھپنے والا ان کا پہلا سرائیکی ناول ہے جس نے سرائیکی زبان کی مٹھاس سے بھرپور دل کش اسلوب علامتی تارو پود میں سجی وباء کی ایک منفرد کہانی کو اہل نقد و نظر کے نزدیک اعتبار و مقام عطا کیا اور سرائیکی ادب میں شاعر ہونے کے ساتھ ساتھ بطور ایک کامیاب ناول نگار کے بھی ان کی ادبی حیثیت کو مسلم کر دیا۔
2020ء کے اوائل میں جب پوری دنیا میں کرونا وائرس کا شور و غوغا بلند ہوا تو آٹھ سال قبل شائع ہونے والے سلیم شہزاد کے ناول ’’گھانٔ‘‘ کا از سر نو مطالعہ کیا گیا۔ جس میں شہر میں آنے والی ایک وبا کی کہانی کو علامتی انداز میں پیش کیا گیا اہل نقد و نظر اور ادب کے اساتذہ اور طالب علموں کے نزدیک یہ امر نہایت حیرت انگیز تھا کہ سلیم شہزاد کے ناول ’’گھانٔ‘‘ میں جو منظر نامہ پیش کیا گیا ہے‘ کرونا وائرس سے پھیلنے والی آج کی عالمی وباء کے منظر نامے سے اس کی حیرت انگیز مماثلت پائی جاتی ہے جو کہ صاف ظاہر ہے کہ ناول نگار سلیم شہزاد کی عمیق نظری اور مضبوط تخیل کی جیتی جاگتی تصویر ہے۔ مثال کے طورپر ’’گھانٔ‘‘ کی درج ذیل سطور کو ملاحظہ فرمائیں۔
’’شہر اچ ہر بندے دا نک مونہہ کجیا ہوئے۔
ہر کوئی مونہہ تے چھکا بدھی ودے‘‘
’’اوہ ٹردا ٹردا بزار دی ھک گلی تونٔی
مسیں پجیا ہو سی جو ک موٹرسائیکل اوں
دے کو لوں لنگھیا جیندے تے پیچھوں بیٹھے
بندے دے ہتھ اچ کوئی مشین ہئی
تے او اوں مشین نال دھوں سٹینڈا ویندا ہا
سلیم شہزاد کے ناول ’’گھانٔ‘‘ کی کہانی علامتی ہے جس میں زمانے کا ٹھکرایا ایک نفرت زدہ آدمی گندی جگہوں اور تالابوں کے کنارے بیٹھتا ہے اور مچھروں اور مکھیوں کی زبان سمجھتا ہے اور ان سے باتیں کرتا ہے مگر وہ اسے کوئی نقصان پہنچانے کی بجائے اسے اپنی ہی برادری کا ایک فرد سمجھتے ہیں۔ شہر میں اچانک ایک وبا پھوٹ پڑتی ہے یہاں اس وباء سے پیدا ہونے والی صورت حال آج کے کرونا وائرس کی صورت حال سے گہری مماثلت رکھتی ہے
ناول گھان کی کہانی کو اہل نقد و نظر نے اپنے اپنے انداز میں دیکھا اور سمجھا ہے لیکن راقم کے نزدیک کرہ ارض کے انسانوں نے ذاتی مفادات کی خاطر جب جب اپنے جیسے انسانوں کو ذات اور تباہی کے غاروں کی طرف دھکیلا ہے خالق کائنات کے غضب کا شکار ہوئے ہیں دنیا بھر کے شاعر‘ ادیب‘ قلم کار‘ پیشوا ہر زمانے اور ہر عہد میں انسان کو انسان کو ایک دوسرے کے ساتھ محبت کی تلقین کرتے آئے ہیں اور یہی ناول گھان کا موضوع بھی ہے تعصب تکبر اور تنگ نظری کا شکار لوگ نہ جانے اس بات کو کیوں فراموش کر دیتے ہیں کہ تغیر ہی وقت کی سب سے بڑی خاصیت ہے۔ آج کا غلام کل کا آقا اور آج کا آقا آنے والے کل کا غلام ہے اسی کشمکش اور تضادم سے ہی انقلابات جنم لیتے ہیں اور انسانوں کے دیرمان خلیج حائل ہوتی ہے لیکن جن معاشروں میں غیر انسانی رویوں کو تج کر انسان دوستی‘ محنت اور اخوت کے رویے پروان چڑھتے ہیں وہ معاشرے بجاطورپر دنیا کے مثالی معاشرے ہوا کرتے ہیں۔
ایک حقیقت پسند دانشور کی حیثیت سے سلیم شہزاد کو اس بات کا ادراک ہے کہ کرہ ارض کا باسی آدم کا بیٹا روز اول ہی سے حالات کا جبر سہتا آیا ہے زمانے کی تند و تیز ہواؤں نے ہر موڑ پر اسے نئے حوادث سے آشنا کیا ہے زمانے کے سرد و گرم سے نبرد آزما ابن آدم کو تاریخ کے مختلف ادوار میں کئی قسم کی آفتوں کا سامنا رہا ہے۔ غاروں اور جنگلوں میں رہنے بسنے والے آدمی کا فطرت عجب عجب امتحان لیتی رہی ہے لیکن ارتقاء کے دائمی راستوں کا یہ مسافر کٹھن اور صبر آزما حالات کے باوجو غم کے بھاری پتھر کو سینے پر رکھے ایک منزل سے دوسری منزل کا سفر کرتا آج کے چمکتے دمکتے جدید زمانے میں آ داخل ہوا ہے لیکن امتحانوں اور آزمائشوں نے یہاں بھی اس کا پیچھا نہیں چھوڑا جس پر اپنے ناول ’’گھان‘‘ میں سلیم شہزاد نے انسان کی ہزاروں لاکھوں برس کی ارتقائی مسافت کا انت یہ نکالا ہے کہ
’’انسان تھجوں لا دا گھانی وات ہے‘‘ ناول گھان کا منظر نامہ ہمیں بتاتا ہے کہ جب جب دنیا میں وبائیں آتی ہیں سب انسانوں نے ڈٹ کر اس کا مقابلہ کیا ہے اور اسے شکست دی ہے اور کرونا وائرس کی موجودہ صورت میں بھی ساری دنیا کے انسانوں نے مل کر اس وباء کو ختم کرنے کا عزم کیا ہے اور ماضی کی وباؤں کی طرح یہ وبا بھی ایک دن انشاء اﷲ کرہ ارض سے ہمیشہ کے لئے رخصت ہو جائے گی اور زمین کی رونقیں پھر سے بحال ہو جائیں گی۔
سلیم شہزاد کا ناول ’’گھان‘‘ بلاشبہ اپنی تکنیک اور بنت کے حوالے سے سرائیکی زبان کا اہم ترین ناول ہے۔ جس نے سرائیکی میں ناول نگاری کی روایت کو بڑھاوا دینے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ پروفیسر رفعت عباس نے بجا طورپر اس ناول کے بارے میں رائے دیتے ہوئے لکھا ہے
’’اپنے بیان تے تکنیک وچوں ایویں لگدے
جیویں سرائیکی زبان دے بھاگ وچوں
ایشیاء دے ایں جنوب مشرقی خطے کُوں
آپنا ھِک ناول ڈھیج گیا ہووے‘‘