یہ کریڈٹ تو عمران خان کو ہر صورت میں دینا ہی پڑے گا کہ عمران خان نے اس قوم کو یہ شعوردیا کہ سابقہ حکمران چور تھے اور باری باری حکمرانی کے مزے لوٹتے ہوئے وہ عوام کو بیوقوف بناتے رہے،عوام ہمیشہ کسی مسیحا کی تلاش میں رہے،،،آخر عمران خان کی شکل میں ان کو ایک مسیحا مل گیا جس نے اس قوم کو ایک نئی راہ دکھائی اور عوام کو ایسے خواب دکھائے کہ جن کی تعبیر کی شکل میں حقیقی عوامی حکمرانی کا خواب پورا ہونا تھا،عمران خان نے عوام کو ریاست مدینہ کا تصور دیا ،،،اور،،،پھر وہ وقت آگیا جب عوام نے عمران خان کو اپنا نمائندہ چن لیا اور عمران خان نے بطور وزیراعظم حلف اٹھا لیا۔۔۔اس کے بعد دو سال گزر گئے اور پھر۔۔۔چراغوں میں روشنی نہ رہی۔۔۔اور دو سال بعد عوام ان تمام خوابوں کی تعبیر ڈھوندنے کے لیے بھٹک رہے ہیں کہ جو عمران خان نے انہیں دکھائے تھے،،،اس پر تو یہ کہا جا سکتا ہے کہ جتنا بگاڑسابقہ حکمران چھوڑ کر گئے تھے ،وہ ٹھیک کرنے کے لیے دو سال کا عرصہ ناکافی ہے،،،لیکن کم از کم عوام کو جہاں جہاں کچھ ریلیف سابقہ حکومت میں مل رہا تھا وہ ہی برقرار رہتا تو شاید عوام اس قدر مایوس نہ ہوتے جس قدر آج ہیں،،،عوام کی موجودہ دور میں حالت یہ ہے کہ جیسے نئے خواب دیکھتے دیکھتے۔۔۔پچھلے سوادوں وی گئے۔۔۔بس دل کو تسلی دینے کے لیے اتنا ہی کافی ہے کہ۔۔۔سابقہ حکمران چور تھے اور موجودہ حکمران ایماندار۔۔۔لیکن اس پر بھی یہ ہوا کہ ابھی عوام سابقہ حکمرانوں کو چور اور موجودہ حکمرانوں کو ایماندار قرار دے کر دل کو تسلی دے ہی رہے تھے کہ موجودہ حکومت کے آٹا اور چینی چور بھی سامنے آگئے اور اس طرح عوام کی یہ تسلی بھی ٹوٹ گئی اور پھر عوام کو یہ بھی یاد آیا کہ چوروں کی حکومت میں چینی پچاس پچپن روپے ملتی رہی اور ایمانداروں کے دور میں چینی ایک دم سے نوے روپے پر چلی گئی اور موجودہ حکومت کی بے بسی کا یہ عالم ہے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے آرڈر کے باوجود حکومت عوام کو ستر روپے کلو کے حساب سے چینی مہیا کرنے میں ناکام رہی اورپھر بات چینی پر ہی ختم نہ ہوئی ِ،آٹے کا بحران بھی شروع ہوگیا ،ابھی لوگ سستا آٹا ہی ڈھونڈ رہے تھے کہ حکومت نے عوام کو ایک خوشخبری سنائی اور پیٹرول سستا کر دیا ،بس جی حکومت کی تو بلے بلے ہو گئی اور لوگ سب دکھ بھولتے ہوئے سوچنے لگے کہ پیٹرول سستا ہوتے ہی مہنگائی ختم ہو جائے گی اور ہر چیز سستی ہو جائے گی لیکن خواب پھر خواب ہی رہے اور مہنگائی کا کم ہونا تو دور کی بات پیٹرول ہی نایاب ہو گیا اور جب دوبارہ مہنگا ہوگیا تو اب دستیاب ہے ،ایک کے بعد ایک بحران کے بعد اب عوام کی حالت یہ ہے کہ ایمانداروں کی ناقص کارکردگی دیکھ کر چوروں کے دور کو یاد کرنے پر مجبور ہیں، ،،،راقم نے بھی ۲۰۱۳ اور ۲۰۱۸ کے انتخابات میں پی ٹی آئی کو ہی ووٹ دیا تھا اور اب موجودہ حکومت کی مایوس کن کارکردگی پر بہت افسوس رہتا ہے،اپنے سابقہ کالموں میں بھی موجودہ حکومت کی کارکردگی پر سوال اٹھاچکا ہوں اور بہت سے لوگوں کی طرح یہ بھی محسوس کرتا ہوں کہ کورونا کی وباء اور اس کے اثرات سے پیدا ہونے والی صورتحال سے نپٹنے کے لیے بھی موجودہ حکومت متاثر کن اور بروقت اقدامات کرنے میں ناکام رہی،انا پرستی کے خول سے باہر نہ نکلتے ہوئی اتنی کٹھن اور دشوار صورتحال میں بھی اپوزیشن کے تجربہ کار سیاستدانوں سے مشاورت کرنے کی ضرورت محسوس نہ کی گئی ،معیشت کو سہارا دینے کے لیے ڈاکٹروں کے مطالبات کو نظر انداز کرتے ہوئے انتہائی نامناسب وقت پر لاک ڈائون ختم کر دیا گیا ،جس سے معیشت میں توکوئی بہتری نہ آئی لیکن کورونا پورے ملک میں پھیل گیا اور سو جوتے بھی کھائے گئے اور اور سو پیاز بھی ،،،موجودہ صورتحال میں جب کہ عوام حکومت کی کارکردگی سے مایوس ہیں اور یہ مایوس کن صورتحال اگر مزید تین سال تک برقرار رہی تو سوچنے والی بات یہ ہوگی کہ کیا عوام دوبارہ چوروں کو ووٹ دینے پر مجبور ہوں گے اور کیا ایک دفعہ پھر چوروں کی باری آئے گی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کیا ایک بار پھر بازی پلٹنے والی ہے
Jul 07, 2020