لاہور (انٹرویو: رفیعہ ناہید اکرام) گورنر پنجاب کی اہلیہ بیگم پروین سرور نے کہا ہے کہ لباس کے حوالے سے لوگ عمران خان کے بیان کو سمجھ نہیں سکے، سب باتیں غلط فہمی کی بنیاد پرکی جاتی رہیں۔ جینز پہن لینے یا دوپٹہ نہ اوڑھنے سے عورتیں آزاد نہیں ہو سکتیں۔ میں انگلستان میں بھی اپنے روایتی ملبوسات کو ترجیح دیتی ہوں۔ اسی لباس میں کوئین الزبتھ اور ویٹی کن کے پوپ سے ملی۔ دین کے دائرے کے اندر رہ کر ہر عورت ملکی ترقی و خوشحالی میں اپنا کردار ادا کرسکتی ہے۔ وزیراعظم بننے سے پہلے بینظیر بھٹو نے ہمارے گھر پر تین روز قیام کیا۔ میں صرف پنجاب ہی نہیں پورے ملک کیلئے کام کرنا چاہتی ہوں اور سرور فاؤنڈیشن، ویمن پیس کونسل اور گرل گائیڈنگ کے پلیٹ فارمزسے خدمات میں مصروف ہوں۔ شادی کا بندھن بہت مضبوط اور محفوظ رشتہ ہے تاہم سرور صاحب سے رشتے کیلئے میری والدہ رضامند نہیں تھیں۔ انہوں نے ان خیالات کا اظہار گزشتہ روز گورنر ہاؤس میں ’’نوائے وقت‘‘ سے ملاقات میں کیا۔ انہوں نے کہاکہ پاکستانی خواتین بہت باشعور اور باصلاحیت ہیں۔ اگر انہیں مواقع فراہم کردئیے جائیں تو وہ بہت کچھ کرنے کی اہلیت رکھتی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ بینظیر بھٹو پاکستان کیلئے کچھ کرنے کیلئے پرعزم تھیں۔ انہوں نے کہاکہ گرل گائیڈز میری بیٹیاں ہیں میں نے بطور صدر گرل گائیڈ ایسوسی ایشن انہیں تربیت اور ملازمت دلوانے کے لئے یونیورسٹی آف لاہور سے معاہدہ کیا ہے جبکہ ویمن پیس کونسل پنجاب کی پیٹرن انچیف ہونے کے ناطے صوبے کی خواتین کو حقوق کی فراہمی اور بااختیار بنانے کیلئے کام جاری ہے۔ جبکہ ا یمرجنسی مینجمنٹ کیلئے 1122کی ٹریننگ کروائی ہے۔ سرور فاؤنڈیشن کے حوالے سے انہوںنے بتایاکہ روزانہ 20لاکھ سے زائد افراد کو صاف پانی فراہم کیا جارہا ہے۔ سندھ اور بلوچستان میں بھی صاف پانی کی فراہمی کیلئے کام جاری ہے۔ جبکہ آب پاک اتھارٹی و دیگر تنظیموں کے تعاون سے اس سال کے اختتام تک 7ملین افراد کو صاف پانی فراہم کردیا جائے گا۔م ختلف علاقوں میں قائم 285 ’’ہنرگاہ‘‘ کے مراکز میں 20ہزار سے زائد خواتین کو تربیت دی گئی ہے۔ اپنے آبائی شہر ٹوبہ ٹیک سنگھ کے حوالے سے انہوں نے بتا یا کہ وہاں ہسپتال، سکول اور ہنرگاہ کے قیام کے علاوہ پانی کے 26فلٹریشن پلانٹس لگائے گئے ہیں۔ انہوں نے بتایاکہ میں انگلستان سے 17سال کی عمر میں پاکستان واپس آئی۔ سرور صاحب میرے چچا کے بیٹے تھے۔ تبھی انہیں پہلی دفعہ دیکھا، کچھ عرصے بعد جب میری چچی رشتہ لے کر آئیں تو میرے والد نے میری رائے پوچھ کر رشتے کیلئے ہاں کردی۔ تاہم میری والدہ اس رشتے کے حق میں نہیں تھیں۔ تب میں نے شرط رکھ دی کہ جب تک میری والدہ راضی نہیں ہوں گی میں بھی یہ رشتہ قبول نہیں کروں گی۔ بیگم گورنر نے ہنستے ہوئے بتایا کہ اس کے بعد معلوم نہیں کس طرح سرور صاحب نے صرف ایک ہی نشست میں میری والدہ کو اس طرح قائل کرلیا کہ ناصرف انہوں نے رشتے کیلئے ہاں کردی بلکہ وہ پھر زندگی بھر کیلئے ان کی پرستار بھی بن گئیں اور مجھے سمجھایا کہ جب تمہارا شوہر تمہارے سر کا تاج ہے وہ گھر میں داخل ہو تو بسم اللہ پڑھ کر استقبال کرو پھر الحمدللہ کہو کہ خیریت سے گھر پہنچ گیا۔ انہوں نے بتایا کہ سرور صاحب نے مجھے رونمائی میں کچھ نہیں دیا تھا بلکہ ہم دونوں ہی اس رسم سے لاعلم تھے۔ انہوں نے کہاکہ شادی کے بعد نصف دین مکمل ہوجاتا ہے، انگلینڈ میں رہنے کے باوجود ہمارا خاندان ہمیشہ اپنی مشرقی روایات اور کلچر سے جڑارہامیں آج بھی سرورصاحب کی پلیٹ میں کھانا اور گلاس میں پانی ڈال کر دیتی ہوں صبح کپڑے نکال دیتی ہوں تو وہ خوش ہو جاتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ سرور صاحب نے کبھی کھانے میں نقص نہیں نکالا اور نہ ہی مجھے کبھی اخراجات یا لباس کے حوالے سے روکا ٹوکا۔ گورنر صاحب کی مصروفیات کے حوالے سے سوال کا جواب دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ سرور صاحب میرا بہت خیال رکھتے ہیں اور مصروف تو ہم دونوں ہی رہتے ہیں مگر عمدہ ٹائم مینجمنٹ کے باعث ہم اپنے لئے بھی کوالٹی ٹائم نکال لیتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ گھر میں آخری فیصلہ مرد کا ہونا چاہئے تاکہ بچوں کو بھی پتہ ہو کہ انکے والد ہی گھر کے سربراہ ہیں۔ انہوں نے کہا کہ عورت کو کنٹری بیوٹ کرنا چاہئے، گھر والے بھی اجازت دے دیں ۔ انہوں نے کہا کہ جب ایک عورت گھر سے باہر نکلتی ہے تو اس کے ساتھ اسکے باپ بھائی اور شوہر کی عزت جڑی ہوتی ہے اسے پتہ ہوتا ہے کہ کس طرح اس نے خود کو باوقار انداز میںکیری کرنا ہے۔ انہوں نے کہا کہ میں نے ترکی ، بھارت، فلسطین، کشمیرودیگرممالک کا سفر کیا ہے وہاں کی عورتیں مردوں سے زیادہ محنت کرتی ہیں۔انہوںنے بتایا کہ یوکے میں گھر کے کام کھانا بنانے، صفائی کرنے،کپڑے سینے، بچوں کو سکول سے پک کرنے سمیت ساس سسر کو ڈاکٹر کی طرف بھی لے کر جاتی رہی۔