اسلام آباد (خصوصی نامہ نگار+ نوائے وقت رپورٹ) صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے اقوام عالم کی توجہ بھارت میں ہندوتوا پالیسیوں کے تحت اقلیتوں اور خصوصاً مسلمانوں و کشمیریوں پر مظالم اور ان کی نسل کشی کی طرف مبذول کرواتے ہوئے یہ غیر انسانی رویئے ختم کرنے اور بنیادی حقوق دلانے کیلئے اپنا کردار ادا کرنے پر زور دیا ہے اور خبردار کیا ہے کہ بھارت غیر انسانی رویہ کی جس روش پر چل رہا ہے اس سے اس حد تک داخلی انتشار کا شکار ہو سکتا ہے کہ اس کا وجود تک برقرار نہیں رہے گا اور وہ خود ہی اپنی پیدا کردہ خرابیوں پر پاکستان کو مورد الزام ٹھہرائے گا۔ منگل کو نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی میں ہندوستان میں ہندوتوا کی ادارہ سازی اور علاقائی سلامتی کا نقطہ نظر کے موضوع پر عالمی کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے صدر مملکت نے بھارت کے توسیع پسندانہ عزائم اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر مفصل بات کی۔ کانفرنس میں امریکہ‘ چین‘ ایران‘ جرمنی اور پاکستان کے دانشوروں نے شرکت کی۔ صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے کہا کہ مسلمانوں پر ظلم جاری رکھنے پر بھارت داخلی انتشار کا شکار ہو سکتا ہے۔ بھارت میں امن کا دارومدار اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کے ساتھ سلوک پر ہے۔ بھارت تاریخی طور پر کبھی ایک ملک نہیں رہا۔ بھارت ماضی میں 500 سے زائد شاہی ریاستوں پر مشتمل تھا۔ نسل کشی اور اقلیتوں پر ظلم و ستم نہ روکنے پر بھارت آج بھی ٹوٹ سکتا ہے۔ مودی حکومت کی سربراہی میں ہندوتوا کے نظریے کو فروغ دیا جا رہا ہے۔ انتہا پسند ہندوتوا نظریے سے بھارتی معاشرے میں تشدد‘ بدامنی پھیلے گی۔ بھارت مستقبل میں پاکستان کو اپنی خامیوں اور انتہا پسندانہ پالیسیوں کا ذمہ دار ٹھہرائے گا۔ بھارتی غیر قانونی قبضے والے کشمیر میں مسلمانوں پر ظلم بھارت کی ہندوتوا پالیسیوں کا عملی مظہر ہے۔ بھارت کا ترمیم شدہ ’’ شہریت ایکٹ‘‘ ہندوتوا کی متعصبانہ ذہنیت کی عکاس کرتا ہے۔ مودی حکومت کی کشمیریوں کے خلاف کارروائیاں نسل کشی کے مترادف ہیں۔ دنیا مفادات کے باعث کشمیر میں پریشان کن صورتحال کو سنجیدگی سے نہیں لے رہی۔ عالمی برادری مسلمانوں کے خلاف کھلی نفرت کا بھارت کا حقیقی چہرہ دیکھے۔ مسلمان بھارت کی آبادی کا تقریباً 15 فیصد ہیں مگر بھارتی پارلیمنٹ میں مناسب نمائندگی نہیں۔ بھارت میں مسلمانوں کو سرکاری ملازمتوں میں مناسب حصے سے بھی محروم رکھا گیا ہے۔ بھارت دیگر اقلیتوں خصوصاً مسلمانوں کو برداشت نہیں کر سکتا۔ بھارت مسلمانوں کی خدمات مٹا کر تاریخ کو دوبارہ لکھنا چاہتا ہے۔