آج ایک دفعہ پھر اپنے قارئین کی توجہ اپنی فوج کیخلاف بھارتی پراپیگنڈا کی جانب مبذول کرانا مقصود ہے۔یہ ایک قدرتی امر ہے کہ اگر دشمن کو جواب نہ دیا جائے تو وہ شیر ہو جاتا ہے۔یہی حال بھارتیوں کا ہے۔چینیوں کے سامنے تو وہ بھیگی بلی ہیں لیکن پاکستان خصوصاً پاکستان فوج کیخلاف پھٹے ہوئے جوتے کی طرح اعتراضات میں بڑھتے جا رہے ہیں۔روزانہ نئے نئے اعتراضات تراش کر سامنے لے آتے ہیں۔ ان کا ایک سب سے بڑا اعتراض یہ ہے کہ انکے ریٹائرڈ جنرلز بڑی سادہ زندگی گزارتے ہیں جبکہ ہمارے جنرلز شاہی محلات میں رہتے ہیں۔ وہ اپنے ایک ایسے آرمی چیف کی مثال دیتے ہیں جو ریٹائرمنٹ کے بعد گٹرگائوں میں تین کمروں کے فلیٹ میں رہائش پذیر رہا۔مجھے صحیح نام تو یاد نہیں غالباً یہ کمارا منگلم تھا۔مجھے نہیں معلوم کہ اس جنرل کا پس منظر کیا تھا اور وہ تین کمروں کے فلیٹ میں رہنے پر کیوں مجبور ہوا جبکہ ان کے عام جنرلز تو بڑے بڑے پر تعیش بنگلوں میں رہتے ہیں اور فوج کی طرف سے بہت سی دی گئی مراعات سے بھی فیضیاب ہوتے ہیں۔
لہٰذا آج میں ان معترض بھارتیوں کو اور اپنے قارئین کو بھی اپنے ایک ایسے آرمی چیف سے متعارف کرانا چاہتا ہوں جس نے ریٹائرمنٹ کے بعد بقیہ زندگی آرٹلری میس کے دو کمروں میں گزاردی۔یہ تھے ہماری فوج کے آخری کمانڈر انچیف لیفٹیننٹ جنرل گل حسن جو ایک سال سے بھی کم عرصہ فوج کے چیف رہے اور وہ بھی لیفٹیننٹ جنرل کے رینک میں۔1942میں انہیں فرنٹئیر فورس رجمنٹ میں کمیشن ملا۔ انہیں برما جنگ پر بھیج دیا گیا۔ لیفٹیننٹ گل ایک سمارٹ اور ایکٹو آفیسر تھا ۔ان پر اپنے ڈویژن کمانڈر میجر جنرل نکلسن کی نظر پڑی تو انہوں نے لیفٹیننٹ گل کو اپنا اے ڈی سی چن لیا۔ انہیں جنرل میسر وی کے ساتھ بھی چند دنوں کیلئے اے ڈی سی کے فرائض سراانجام دینے پڑے جو بعد میں پاکستان فوج کے کمانڈر انچیف بنے۔
پاکستان معرض وجود میں آیا تو انہیں قائد اعظم کا اے ڈی سی مقرر کر دیا گیا۔1965کی جنگ کے دوران یہ جنرل ہیڈ کوارٹر میں ڈائرکٹر ملٹری اپریشنز تھے۔1971کی جنگ میں یہ چیف آف جنرل سٹاف تھے ۔ بہر حال جنگ کے خاتمے نے پوری قوم کو خون کے آنسو رولائے۔ پوری قوم بمع فوج بہت ڈپریسڈتھی۔یہ حالت ملک کیلئے بہت خطرناک تھی۔ بھارت کی فوج تا حال مغربی پاکستان کے بارڈر پر تھی۔ بھارتی وزیر اعظم اندرا گاندھی سے پر امن حالات کی امید نہیں کی جا سکتی تھی کیونکہ وہ پہلے ہی مشرقی پاکستان میں فتح کے نشے میں چور تھی۔ اس نے فخر سے اعلان کیا تھا کہ ’’ میں نے آج دو قومی نظریے کو بحر ہند میں پھینک دیا ہے‘‘۔یہ وہ دور تھا جب مشرقی پاکستان بنگلہ دیش بن چکا تھا۔بھارتی فوج بنگلہ دیش پر قابض تھی ۔ ہمارے 93ہزار سولجرز اور سویلین بھارتی قیدی بن چکے تھے۔ ملک میں ہر طرف غم اور آنسوئوں کی فضا تھی۔پوری قوم ڈپریشن میں تھی۔فوج عوام سے بھی زیادہ ذہنی ٹینشن کا شکار تھی کیونکہ اس سارے کرائسس کا تمام تر الزام فوج پر لگایا جا رہا تھا۔ کچھ آفیسرز پر یہ بھی الزام تھا کہ انہوں نے مشرقی پاکستان میں بہت زیادہ جنگی جرائم کا ارتکاب کیا ہے۔لہٰذا انکے خلاف مقدمہ چلایا جائیگا اور انہیں سخت سزا دی جائیگی۔ایسے گھمبیر حالات میں جنرل گل حسن سب کے سامنے آیا۔ فوج اور قوم دونون کو اس طوفان سے نکال کر اپنے پائوں پر کھڑا کیا۔کہا جاتا ہے کہ ڈکٹیٹر جس سیڑھی سے بلندی پر چڑھتا ہے سب سے پہلے اس سیڑھی سے جان چھڑاتا ہے۔یہی کچھ انکے ساتھ بھی ہوا ۔نئے عہدے کے چند ماہ بعد ہی بھٹو صاحب نے ان سے استعفیٰ لے لیا۔صدر جنرل یحیٰ خان کو اقتدار چھوڑنے پر مجبور کیا۔ ائیر فورس چیف اے آر خان کے ساتھ مل کر جناب بھٹو صاحب کو روم سے بلا کر اقتدار کی مسند پر لا بٹھایا تو بھٹو صاحب نے جنرل جنرل کو کمانڈر انچیف مقرر کر دیا۔جنرل صاحب کی اپنی خواہش پر انہیں لیفٹیننٹ جنرل ہی رہنے دیا گیا۔ اقتدار میں آنے کے بعد کئی ایسے واقعات ہوئے کہ وزیر اعظم بھٹو صاحب کے آرمی چیف اور ائیر چیف دونوں سے اختلافات پیدا ہو گئے۔لہٰذا دونوں کو بلا کر ان سے استعفے لے لئے گئے اور بعد میں دونوں کو سفارت کی ذمہ داریاں دے کر باہر بھیج دیا گیا۔جنرل صاحب کو پہلے آسٹریا اور بعد میں یونان بھیجا گیا۔ جنرل صاحب تا حال غیر شادی شدہ تھے۔لہٰذا آسٹریا میں ایک سوئس خاتون سے شادی کر لی۔
1977کے الیکشن میں بھٹو صاحب پر دھاندلی کے الزامات لگے تو جنرل صاحب پروٹسٹ کے طور پر سفارت سے استعفیٰ دیکر واپس پاکستان آگئے۔ یہاں پر ان پر بھٹو صاحب کے حکم پر مقدمہ قائم کر دیا گیا۔ریٹائر منٹ کے بعد یہ فوج کے آرٹلری میس میں دو کمرے لے کر رہائش پذیر ہو گئے۔ عہدے کے مطابق یہ بہت سی سہولیات کے حقدار تھے مگر انہوں نے سوائے ڈرائیور کے باقی تمام سہولتیں لینے سے انکار کر دیا۔زندگی کے آخری پچیس سال آرٹلری میس کے دو کمروں میں ہی گزار دئیے۔9اپریل1999کو وفات پائی تو ان کا پورے پاکستان میں نہ کوئی مکان تھا نہ ہی کوئی پلاٹ نہ ہی کہیں کوئی اکائونٹ۔جنرل صاحب نے اپنے ڈرائیور کو دو ہزار دو سو روپے اپنی تجہیز و تکفین کیلئے دے رکھے تھے جو استعمال کئے گئے۔بقیہ جائیداد میں پانچ جوڑے استعمال شدہ کپڑے،تین سو کتب اور ایک عدد سوزوکی کار جو مبلغ تین ہزار میں بکی۔ جنرل صاحب کی وصیت کے مطابق ان تین ہزار سے آدھے انکی غیر ملکی بیوی اور آدھے الشفا آئی ہاسپٹل اور ایدھی ٹرسٹ کو دئیے گئے۔جنرل صاحب واقعی ایک عظیم اور محب وطن انسان تھے جنہوں نے پوری زندگی وطن کی خدمت میں گزار دی۔ہم فخر سے کہہ سکتے ہیں کہ بھارت کے کسی جنرل نے بھی سادگی اور قناعت کی ایسی مثال قائم نہیں کی۔