میاں غفار احمد
خبر یہ ہے کہ سابق وزیراعلیٰ پنجاب سردار عثمان احمد خاں بزدار کے خلاف اینٹی کرپشن اسٹیبلشمنٹ ڈیرہ غازی خان میں غیر قانونی بھرتیوں کے حوالے سے ہونے والی تحقیقات میں بہت سی بے قائدگیاں سامنے آئی ہیں۔ ذرائع کے مطابق محکمہ انہار اور لوکل گورنمنٹ سمیت بعض دیگر محکموں میں گریڈ ایک سے گریڈ 16 تک 220 سے زائد افراد سابق وزیراعلیٰ کے دور میں میرٹ کے منافی بھرتی کئے گئے۔ ان تمام تر بھرتی ہونے والوں میں سے بعض نے اقبالی بیان میں بہت سے راز افشاں کر دیئے ہیں اور بتایا گیا ہے کہ اینٹی کرپشن اسٹیبلشمنٹ نے اس مقصد کے لئے پنجاب پولیس کے ایک بہت ہی اچھی شہرت کے حامل ایس پی رینک کے آفیسر کو تعینات کیا ہے جو میرٹ پر کام کرنے کے حوالے سے منفرد پہچان رکھتے ہیں۔ یہ تحقیقات بہت تیزی سے جاری ہیں جبکہ گزشتہ ہفتے ہی ڈیرہ غازی خان میں اربوں روپے کے ترقیاتی کاموں میں ہونے والی بے قائدگیوں پر لوکل گورنمنٹ کے ایکسیئن خرم کھوسہ کو بھی اینٹی کرپشن انتظامیہ نے دیگر ساتھیوں سمیت گرفتار کر لیا ہے بتایا گیا ہے کہ ٹھیکیداروں، سب انجینئرز اور ایس ڈی او پر بھی مقدمہ درج ہے جس کی گرفتاری کے لئے کارروائیاں جاری ہیں۔
ڈیرہ غازی خان، چوبارہ ،ضلع لیہ، مظفرگڑھ ملتان اور لودھراں میں ضمنی الیکشن کی مہم بھرپور انداز میں جاری ہے اور جوڑ توڑ عروج پر ہے۔ مسلم لیگ (ن) کے بہت سے لوگ اپنی پارٹی امیدواروں پر مقامی گروہ بندیوں کو ترجیح دے رہے ہیں۔ ڈیرہ غازی خان کے حلقہ پی پی 288 میں پی ٹی آئی کے سیف الدین کھوسہ کا مقابلہ آزاد جیت کر ممبر قومی اسمبلی بننے والے امجد فاروق کھوسہ کے بیٹے عبدالقادر کھوسہ سے ہے اور وہ اس حلقے سے مضبوط ترین امیدوار ہیں۔ تا دم تحریر اس حلقے سے عبدالقادر کھوسہ کی پوزیشن مضبوط ہے۔ مظفرگڑھ کی تحصیل جتوئی میں باسط سلطان بخاری کی اہلیہ کا مقابلہ پی پی 272 کے لئے پی ٹی آئی کے معظم جتوئی سے ہے جو سابق وفاقی وزیر مملکت بھی رہ چکے ہیں ابھی تک معظم جتوئی کی پوزیشن بہت مضبوط ہے کیونکہ لوٹا ہونے کے علاوہ خاندانی جھگڑوں نے باسط سلطان کی پوزیشن بہت کمزور کر دی ہے۔ انہیں اپنی اہلیہ کی انتخابی مہم چلانے میں دشواری کا سامنا ہے اور اگر سابق ایم پی اے احمد کریم قسور لنگڑیال نے معظم جتوئی کی کھل کر حمایت کر دی تو معظم جتوئی بھاری لیڈ سے کامیاب ہوں گے۔ علی پور کے حلقے پی پی 273 میں ابھی گوپانگ گروپ مضبوط نظر آتا ہے مگر عمران خان کے دورے کے بعد صورتحال پی ٹی آئی کے امیدوار یاسر عرفات جتوئی کے حق میں بہتر ہو سکتی ہے۔ پی پی 217 ملتان میں سلمان نعیم اور مخدوم شاہ محمود قریشی کے بیٹے رکن قومی اسمبلی زین قریشی میں مقابلہ سخت ہے اور سلمان نعیم ابھی تک سابق وفاقی وزیر خارجہ کو ٹف ٹائم دے رہے ہیں لودھراں کے دونوں حلقوں میں سے پی پی 224 میں پی ٹی آئی کے عامر اقبال شاہ کامیاب ہوتے دکھائی دے رہے ہیں کیونکہ لیگی امیدوار زوار وڑائچ کی طرف سے دوران اقتدار مقامی سرائیکیوں اور مخالفین کے خلاف کرائے گئے ناجائز مقدمے اب ان کے سامنے آ رہے ہیں اور لوگ کھل کر اپنی نفرت کا اظہار کر رہے ہیں۔ دوسری طرف لودھراں کے حلقہ پی پی 228 میں ٹرائیکا کے درمیان صورتحال تاحال واضح نہیں ہو رہی۔ بظاہر مقابلہ پیر رفیع الدین شاہ اور کیپٹن عزت جاوید کے درمیان ہے۔
پنجاب پولیس نے اب عدالت کے اختیار بھی سنبھال لئے ہیں اور وہ فیصلے جس کا اختیار خالصتاً عدلیہ کے پاس ہے اب وہ بھی پولیس کرنے لگ گئی ہے اور توجہ طلب امر یہ ہے کہ یہ سب آئی جی پنجاب راو سردار علی خان کے آبائی شہر لودھراں میں ہوا ہے۔ منشیات کے حوالے سے 9 سی کا مقدمہ ایک ایسا مقدمہ ہوتا ہے جس میں ملزمان کی ضمانت اول تو ہو نہیں سکتی کہ یہ ناقابل ضمانت ہے۔ لودھراں پولیس منشیات کی برآمدگی پر دو ملزمان زاہد اور سجاد کے خلاف تھانہ سٹی میں مقدمہ نمبر 243/22 بجرم 9 سی درج کرتی ہے۔ یہ مقدمہ 7 مارچ 2022 کو سب انسپکٹر محمد عرفان کی مدعیت میں درج ہوتا ہے جس کے مطابق دونوں ملزمان سے 1600 گرام چرس کی برآمدگی ظاہر کی گئی۔جس وقت یہ مقدمہ درج ہوا تو ایک منشیات فروش جس کا نام شیخ سنی تھا وہ جیل میں تھا اور مقدمہ درج ہونے کے ایک ہفتے بعد رہا ہوا پھر رہا ہونے کے دو دن بعد زیادہ مقدار میں منشیات کے استعمال کے باعث موت کے منہ میں چلا گیا۔ پولیس نے اصل ملزمان سے مبینہ طور پر معاملات طے کر لئے اور تفتیش میں مرنے والے سنی کے نام پر بعد از موت پرانی تاریخوں میں اسی 1600 گرام منشیات کی برآمدگی ظاہر کر دی اور اصل ملزمان کو مبینہ ڈیل کے عوض مکمل ڈھیل دے کر اپنی تفتیش کے ریکارڈ میں بھی بری کر دیا پبلک پراسیکیوٹر نے بھی تفتیش سے اختلاف کیا اور عدالت نے بھی اس تفتیشی رپورٹ سے اختلاف کرتے ہوئے اسے مسترد کر دیا کیونکہ 9 سی کے ملزم کو عدالت ہی سزا اور جزا دے سکتی ہے۔ 9 سی کا مقدمہ درج ہونے کے بعد پولیس کے پاس معافی کا اختیار ہی نہیں تاہم لودھراں پولیس کے پاس تمام تر اختیارات شاید بطور خاص دئیے گئے ہیں۔ امن وامان اور پولیس گردی کے حوالے سے یہ ضلع ہمیشہ ہی سے جرائم پیشہ افراد کا سہولت کار رہا ہے۔ پرانی بات ہے ایک ایس پی مظفرگڑھ سے ٹرانسفر ہو کر لودھراں تعینات ہوئے تو میں نے انہیں مبارکباد دی کہ آپ اچھے اور پرسکون ضلع میں آ گئے ہیں۔ کہنے لگے کیا ضلع صرف سات تو تھانے ہیں اس ضلع میں۔ مگر چند ماہ بعد ہنستے ہوئے کہنے لگے۔ یہ سات بھی 70 کے برابر ہیں۔