مولاناظفرعلی خان

Jul 07, 2022

مولانا ظفرعلی خان19جنوری1873میں کوٹ میرٹھ شہر وزیرآباد میں پیدا ہوئے، انہوں نے اپنی ابتدائی تعلیم مشن ہائی سکول وزیرآباد سے مکمل کی اور گریجویشن علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے کی۔ کچھ عرصہ وہ نواب محسن الملک کے معتمد کے طور پر بمبئی میں کام کرتے رہے، اس کے بعد کچھ عرصہ مترجم کی حیثیت سے حیدرآباد دکن میں کام کیا اور محکمہ داخلہ کے معتمد کے عہدے پر بھی فائز رہے، اخبار دکن ریویو جاری کیا اور بہت سے کتابیں تصنیف کرکے اپنی حیثیت بطور ادیب وصحافی خاصی مستحکم کی۔1908ء میں لاہور آئے، روزنامہ زمیندار کی ادارت سنبھالی جسے ان کے والد مولوی سراج الدین احمد نے1903ء میں شروع کیا تھا۔ مولانا کو اردو صحافت کاا مام کہاجاتاہے اور زمیندار ایک موقع پر پنجاب کا سب سے اہم اخبار بن گیا تھا۔اس اخبار نے مسلمانوں کی بیداری اور ان کے سیاسی شعور کی تربیت کرنے میں کلیدی کردار ادا کیا، باوجود اس حقیقت کے کہ اس کی اشاعت محدود تھی اور مسلمانوں کے پاس نہ صنعت تھی نہ تجارت جس کی وجہ سے اشتہارات کی تعداد اتنی کم تھی کہ اخبار کو چلانا جان جوکھوں کا کام تھا، بعض اوقات ایسی صورت بھی پیدا ہوجاتی تھی کہ عملے کو تنخواہ دینے کیلئے پیسے بھی نہیں ہوتے تھے۔مولانا نے صحافیانہ زندگی کی شروع انتہائی دشوار گزار اور ناموافق حالات میں کی۔ اس زمانے میں لاہور اشاعت کا مرکز تھا اور تینوں بڑے اخبار پرتاب، محراب اور بھارت ہندومالکان کے پاس تھے۔ اسی دورمیںمولانا اور زمیندار نے تحریک پاکستان کیلئے بے لوث خدمات انجام دیں۔ کامریڈ(مولانامحمدعلی جوہرکااخبار) اور زمیندار دو ایسے اخبار تھے جن کی اہمیت تحریک پاکستان میں مُسلَم ہے اور دونوں کے کردار کو بیک وقت تسلیم کیاجانا چاہیے۔ 1934ء میں جب پنجاب حکومت نے اخبار پر پابندی عائد کی تو مولانا ظفرعلی خان جو اپنی جرات اور شاندار عزم کے مالک تھے انہوں نے حکومت پر مقدمہ کردیا اور عدلیہ کے ذریعے حکومت کو اپنے احکامات واپس لینے پر مجبور کردیا، اگلے دن انہوں نے اللہ کا شکر ادا کیا اور ایک طویل نظم لکھی جس کے ابتدائی اشعار یہ ہے۔
یہ کل عرش اعظم سے تار آگیا
زمیندار ہوگا نہ تاحشر بند
تری قدرت کاملہ کایقین
مجھے میرے پرودگارآگیا
ہمارا المیہ یہ بھی ہے کہ ہم اپنی تاریخ ساز ہستیوں کو بھول جاتے ہیں یا نظرانداز کئے رکھتے ہیں۔
کہتے ہیں جو قوم اپنی تاریخ بھول جاتی ہے اس کے ملک کا جغرافیہ بدل جاتاہے، ہم یہ چرکا کھاچکے ہیں یہ زخم پاچکے ہیں، مشرقی پاکستان کا صدمہ ہماری اسی بے اعتنائی اور کج ادائی کا نتیجہ رہا۔وہ عظیم لوگ جنہوں نے فرنگی سامراج اور رام راج کے خلاف سینہ سپر ہوکر گولیاں کھائیں، لاٹھیوں کے وار سہے، جن کے جسم چُور چُور ہوتے رہے، قید وبند کی مصیبتیں جھیلیں، دارورسن کو اپنے مسلک اور آزادی کے جھولے سمجھ کر جھول گئے، ہم انہیں کیسے بھول سکتے ہیں، انہیں کیوں بھولنا چاہتے ہیں۔ یہ آزادی کی نعمت ، یہ سربلند پاکستان اور ایک پائندہ قوم انہی کی جدوجہد کا ثمرہے۔
مولانا ظفرعلی خان ایک نام ہی نہیں، ایک تحریک، ایک للکار اور برصغیر میں اہل اسلام کے دشمنوں اورمنافقوں کیلئے ایک خوف کی علامت تھی۔ ان کی تحریر، ان کی تقریر، ایک شمشیرتھی جو ہروقت مخالفوں کو ہراساںکئے رکھتی تھی۔مولانا ظفرعلی خان ایک عہد ساز شخصیت اور تاریخ کا دھارا بدلنے والے فرد تھے ۔مولانا کی آواز میں گرج اورل فظوں اور شعروں میں گونج تھی۔ ان کا اخبار زمیندار برصغیر کے مسلمانوں کی پکار بن چکا تھا اور یہ روایت نہیں ، حکایت ہے کہ دوچار آنے میں بکنے والا اخبار پانچ دس روپے تک بھی بکتا رہا۔ اخبار پڑھنے والا ایک ہوتا، سننے والے بیسیوں ہوتے تھے، جن کے جسموں میں خون کھولتا اور ان کا انگ انگ یوں بولتا تھا جیسے وہ سامراج کی بڑی سے بڑی دیوار سے ٹکراجانا چاہتے ہوں۔
مولانا ظفرعلی خان نے سیاست ہی نہیں، صحافت اور شعر وادب میں بھی نئی راہیں نکالیں اور انہیں جوش، جذبہ اور والہانہ پن عطا کیا۔وہ جس عہد میں زندہ تھے، اس وقت برصغیر میں عظیم لوگوں کی ایک کہکشاں تھی۔ قائداعظم محمدعلی جناح،علامہ اقبال۔ مولانا محمدعلی جوہر،مولانا شوکت علی، نواب بہادر یار جنگ، حسرت موہانی اور مخالفین میں بھی ایک سے بڑھ کے ایک تھا۔ مولانا چومکھی لڑنے میں بے مثل تھے۔ کیا تقریر شاعری، مخالف اخباروںمیں لکھنے والے بے شمار ادھر زمیندار میں اکیلے مولانا ظفرعلی خان۔ اور امر واقعہ ہے چند دن بعد ہی بڑے بڑے جغادری میدان میں چھوڑبھاگتے۔ تقریر کرتے تو مجمع یادم بخود رہتا یا زندہ باد مولانا ظفرعلی خان کے نعروں کی گونج زمین کو ہلاتی ہوئی فضائوں اور ہوائوںمیں گھل جاتی تھی۔مولانا ظفرعلی خان عظیم راہنمائی نامور صحافی، بے مثال شاعر اور بالاایمان عاشق رسولﷺ تھے۔

مزیدخبریں