ڈاکٹر مجید نظامی، پھول اور میں

الحمدللہ! اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم اور آپ کی دعاؤں سے جون 2022ء میں ایک اور سنگِ میل عبور ہوا۔ ’’پھول‘‘ کی ادارت کی ذمہ داری نبھاتے ہوئے 19 سال مکمل ہو گئے۔ 18 جون 2003ء کو آبروئے صحافت مجید نظامی نے ناچیز پر اعتماد کرتے ہوئے ماہنامہ ’’پھول‘‘ کی ادارت کی اہم ذمہ داری سونپی جو الحمدللہ آج تک نبھا رہا ہوں۔ قصہ یوں ہوا کہ مئی میں ایڈیٹر پھول کی اسامی خالی ہوئی تو میرے دیرینہ دوست مزاح نگار ادیب حافظ مظفرمحسن نے میرے بارے تفصیلات اور ادبی خدمات کے بارے لکھ کر مجید نظامی صاحب کو بھجوا دیا۔ یہ بھی لکھا کہ میںبچوں کے ایک رسالے کے ایڈیٹر کے طور پر رسائل کے قومی مقابلے میں مسلسل تین سال تک پہلی اور دوسری پوزیشن حاصل کرتا رہا ہوں۔
 اسی شام مجید نظامی صاحب نے حافظ مظفرمحسن کو فون کر کے کہا کہ کل ان کو لے کر دفتر آجائیں۔ حافظ صاحب نے مجھے تفصیل بتائے بغیر کہا کہ کل صبح دس بجے اپنی ادارت میں شائع ہونے والے رسائل اور چند دستاویزات لے کر چیئرنگ کراس پہنچ جاؤ۔ 17 جون کی صبح وہ مجھے نوائے وقت کے دفتر لے گئے اور چند منٹ بعد میں صحافتی اور نظریاتی حوالے سے اپنے آئیڈیل مجید نظامی صاحب کے روبرو حافظ مظفرمحسن کے ہمراہ موجود تھا۔ انہوں نے دستاویزادت کا سرسری مشاہدہ کیا۔ چند سوالات کیے اور دس منٹ کے بعد ہی اپنے پی اے کو بلا کر کہا کہ یہ ’’پھول‘‘ کے نئے ایڈیٹر ہیں۔ یہ کل سے کام کا آغاز کریں گے۔ سچ پوچھیں تو خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہیں تھا۔ ادارہ نوائے وقت میں کام کرنے کا خواب تب دیکھا تھا جب بی اے کر رہا تھا تب مجیدنظامی صاحب کو خط لکھا تھا کہ مجھے صحافت کا شوق ہے اور نوائے وقت کی پالیسی سے متاثر ہوں اس لیے آپ کے ادارے میں کام کرنا چاہتا ہوں۔ ان کی اعلیٰ ظرفی کہ انہوں نے میرا خط ردی میں پھینکنے کے بجائے مجھے اس کا جواب لکھا کہ ہم کم از کم بی اے پاس سٹاف رکھتے ہیں۔ آپ بی اے کر لیں اس کے بعد رابطہ کریں۔ آپ کو موقع دیا جائے گا۔ یہ ان کی دوراندیشی تھی۔ اگر میں اسی وقت ادارے سے منسلک ہو جاتا تو شاید تعلیم ادھوری رہ جاتی۔ 18 جون 2003ء کو دیرینہ خواب پورا ہو رہا تھا۔ ابتدائی پانچ چھ ماہ نظامی صاحب کی طرف سے کارکردگی کے حوالے سے ’’نوٹس‘‘ ملتے رہے۔ میں نے پریشان ہو کر ایڈیٹوریل کے ایک بہت سینئر صاحب سے تذکرہ کیا تو وہ مسکرائے اور کہنے لگے کہ: ’’یہ نظامی کا سٹائل اور ورکرز کی تربیت کا انداز ہے۔ صبح کی میٹنگ میں اکثر آپ کے کام کی تعریف کرتے ہیں‘‘ تب میں مطمئن ہوا اور خوب محنت کی۔ پھر ’’پھول‘‘ کی کوئی تقریب کرواتا، ان کو دعوت دیتا تو یہی فرماتے کہ مصروفیات بہت ہیں کوشش کروں گا اور پھر وہ تشریف بھی لے آتے۔وہ ’’نوٹس‘‘ کے جھٹکے ہی نہیں دیتے تھے حوصلہ افزائی کے سرپرائز بھی دیتے تھے۔ابتدائی عرصے میں پھول کی سالگرہ کی تقریب منعقد کی۔ جس میں ملک بھر سے آنے والے ادیبوں کو ایوارڈ دیے تو بہت خوش ہوئے۔ ایک تعریفی خط مجھے اپنے ہاتھ سے لکھ کر دیا۔ ایک دفتر کی طرف سے ملا۔ تین ہزار روپے انعام دیے اور تین ہزار روپے ماہانہ تنخواہ میں اضافہ کیا۔
وہ اکثر جب پھول کی تقریب میں شریک ہوتے تو اکاؤنٹس سے سو سو روپے والے نئے نوٹ منگواتے اور فرماتے کہ میری طرف سے تمام بچوں میں آئس کریم کے لیے تقسیم کروا دیں۔ ایک تقریب میں میں نے کہا کہ میں بھی بچہ ہوں تو سو روپے کا ایک نوٹ مجھے بھی دیا۔ میں نے کہا اپنے دستخط کر دیں۔ مسکرائے اور دستخط کر دیے۔ وہ نوٹ آج بھی میرے پاس محفوظ ہے۔
ایک روز ہمت کر کے میں نے ایک کالم لکھ کر انہیں بھجوا دیا۔دو دن کے بعد وہ کالم نوائے وقت میں شائع ہو گیا تو خوشی کی انتہاء نہ رہی۔امریکی جارحیت کے حوالے سے ایک کالم دفتر میں دیر تک بیٹھ کر لکھا اور نظامی صاحب کے گھر بھجوا دیا۔ اگلے روز اخبار دیکھا تو وہ صفحہ نمبر2پر نمایاں شائع کیا گیا تھا۔ یہ وہ حوصلہ افزائی تھی جو وہ اپنے ورکرز کی کرتے تھے۔
 میں آج تک ان کے اعتماد پر پورا اترنے کی کوشش کر رہا ہوں۔ 19 سال کا عرصہ کم نہیں ہوتا، کتنے مراحل گزرے، کئی تقریبات کروائیں، بہت سے ضخیم خاص نمبر شائع کیے، کئی نئے اور منفرد سلسلے شروع کیے، کئی سنگِ میل عبور کیے، میری اور ’’پھول‘‘ کی ادبی خدمات پر پاکستان کی یونیورسٹیوں میں ایم فل کی سطح کے پانچ تھیسس لکھے گئے۔ ادب اطفال پر چھ قومی کانفرنسیں، کئی سیمینارز اور انعامی مقابلے کروائے۔ الحمد للہ ’’پھول‘‘ کی سرکولیشن اور مقبولیت میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ زندگی میں کئی عروج و زوال آئے۔ دل کا بائی پاس آپریشن ہوا۔ گزشتہ سال پھر دل کا مسئلہ ہوا تو دو سٹنٹ پڑے۔ آج یہ اداریہ لکھتے ہوئے بائیں بازو کی ہڈی فریکچر ہے جو ایک موٹرسائیکل سوار کی لاپرواہی کی وجہ سے ہوئی۔ اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ اس دوران گھر یا ہسپتال میں ’’پھول‘‘ تیار کرتا رہا اور ایک بار بھی تعطل نہیں آیا اور نہ ہی کسی دوسرے پر انحصار کرنا پڑا۔ اس میں آپ سب کی دعائیں بھی شامل حال ہیں۔ مجیدنظامی صاحب کے انتقال کے بعد ان کی صاحبزادی محترمہ رمیزہ نظامی نے بھی اعتماد اور حوصلہ افزائی کا سلسلہ جاری رکھا ہے۔ ’’پھول‘‘ کو خوب سے خوب تر بنانے کی کوشش ہمیشہ جاری رکھوں گا۔ انشاء اللہ۔
جولائی مادرِ ملّتؒ اور ڈاکٹر مجید نظامیؒ کا مہینہ ہے ، آئیے ان دونوں شخصیات کے لیے زیادہ سے زیادہ ثواب اور جنت میں ان کے درجات کی بلندی اور میرے لیے اس طرح مزید سنگ میل عبور کرنے کی دعا کریں۔

ای پیپر دی نیشن