’’غداری‘‘ کی تہمت سے گریز کریں 

صحافت وطن عزیز میں ’’آزاد‘‘ کبھی نہیں رہی۔ چند وقفے تاہم آتے رہے جنہوں نے اس کے ’’بے باک‘‘ ہوجانے کا تاثر پھیلایا۔ مبینہ ’’بیباکی‘‘ کے دنوں میں بھی چند اہم ترین موضوعات پر لیکن دیانت دارانہ سوالات اٹھانے کی سہولت کبھی نصیب نہیں ہوئی۔ جن موضوعات سے گریز ہوتا ہے انہیں ’’قومی سلامتی‘‘ کے خیمے میں ڈال دیا جاتا ہے۔ وقت کے ساتھ ساتھ یہ ’’خیمہ‘‘ پھیلتا ہی چلاجارہا ہے۔
رواں صدی کے آغاز میں ہمارے ہاں الیکٹرانک میڈیا متعارف ہوا تو عوام اس گماں میں مبتلا ہوگئے کہ اب ہر موضوع ٹی وی سکرینوں پر ’’کھل کے بیان‘‘ ہونا شروع ہوگیا ہے۔کراچی سے لسانی بنیادوں پر ابھری ایک جماعت تھی۔ اس کے امور کومگر زیر بحث نہیں لایا جاسکتا تھا۔ ٹی وی چینلوں کے مالک ہی نہیں ان کے لئے کام کرنے والے کراچی کے رہائشی ڈرائیور اور ٹیلی فون آپریٹر بھی گھبراہٹ میں یاد دلاتے کہ انہیں ’’اپنے گھر‘‘ بھی جانا ہوتا ہے۔ جو ’’آزادی‘‘ میسر رہی اسے سیاستدانوں ہی کو ’’چور اور لٹیرے‘‘ ثابت کرنے پر مرکوز رکھا گیا۔2007ء میں عدلیہ بحالی کی تحریک شروع ہوئی تو اس کی براہِ راست اور طویل کوریج نے ’’ریاست ہوگی ماں‘‘ والا خواب دکھایا۔ افتخار چودھری صاحب بالآخر اس تحریک کی بدولت اپنے منصب پر لوٹے تو خو د کو ’’مسیحا‘‘ ثابت کرنے کی ٹھان لی۔ میڈیا نے ان کی ’’مسیحائی‘‘ کا بھرپور ساتھ دیا۔ اس کے باوجود ایک منتخب وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کو ایک چٹھی نہ لکھنے کے جرم میں وزارت عظمیٰ سے فارغ کرنے والا فیصلہ ’’حیف ہے اس قوم پر‘‘ والے طعنے سے شروع ہوا۔
افتخار چودھری کی بحالی والی تحریک کے دوران ہی اسلام آباد میں لال مسجد والا واقعہ بھی رونما ہوا تھا۔ اسے جس انداز میں ہماری سکرینوں پر دکھایا گیا اس نے قومی سلامتی کے نگہبان اداروں کو مزید پریشان کردیا۔ٹی وی سکرینیں ان کو معاشرے میں خلفشار پھیلاتی نظر آئیں۔ اسی باعث فیصلہ ہوا کہ پاکستان میں دین کے نام پر فروغ پاتی دہشت گردی پر قابو پانا ہے تو میڈیا کو راہ راست پر لانا ہوگا۔ اس ہدف کے حصول کے لئے جنرل مشرف نے ’’ایمرجنسی پلس‘‘ کا اعلان کرتے ہوئے چند چہروں کو سکرینوں سے غائب کردیا۔ ’’نیک چلنی‘‘ کے وعدوں کے ساتھ بالآخر براہ راست نشریات کی اجازت ملی۔مجھ جیسے ’’تخریب کار‘‘ کو تاہم سکرین پر لوٹنے کے لئے چھ ماہ تک انتظار کرنا پڑا۔
بتدریج ہمارے ’’مائی باپ‘‘ نے ضٗ Generation Warبھی دریافت کرلی۔پانچویں پشت کی مذکورہ ابلاغی جنگ کی مبادیات بھی پرانی وضع کا مجھ ایسا صحافی ابھی تک سمجھ نہیں پایا ہے۔ اس جنگ نے مگر صحافیوں کو ’’غدار‘‘ اور ’’محبان وطن‘‘ کے درمیان تقسیم کردیا۔جو صحافی ’’غدار‘‘ ٹھہرائے گئے انہیں ہمارے ’’محب وطن‘‘ قرار پائے صحافی کامل نفرت وحقارت سے اپنے پروگراموں میں زیر بحث لاتے رہے۔ ان کی تصاویر مسلسل ٹی وی سکرینوں پر دکھائی جاتیں۔ عام پاکستانی کو اشتعال دلانے کی یہ ظالمانہ کاوش تھی۔ اسے روکنے کے بجائے ریاستی سرپرستی سے نوازا گیا۔
تحریک انصاف نے بھی اس ماحول کا بھرپور فائدہ اٹھایا۔ جو صحافی اس جماعت کے بیانیے پر دیانت دارانہ سوالات اٹھاتے انہیں سوشل میڈیا کی حرکیات وپلیٹ فارموں کا مہارت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے عوام کے روبرو ’’لفافے‘‘ثابت کردیا گیا۔کسی بھی نظریہ کے شدید ترین پرچارک صحافی کو بخوبی علم ہوتا ہے کہ وہ جو لکھ اور بول رہا ہے دیگر نظریات رکھنے والوں کو ہضم نہیں ہوگا۔ ردعمل آئے گا۔ایسے ردعمل کیلئے وہ ذہنی طورپر تیار ہوتا ہے۔تحریک انصاف نے مگر اپنے ناپسندیدہ صحافیوں کو روایتی ہی نہیں سوشل میڈیا پر بھی تواتر سے جھوٹی سچی تصاویر دکھاتے ہوئے ’’بکائو‘‘ کے علاوہ ’’غیر اخلاقی حرکتوں‘‘ میں ملوث بھی دکھانا شروع کردیا۔ ان کے بچے سکول جاتے ہوئے اس کی وجہ سے خوفزدہ محسوس کرنا شروع ہوگئے۔چند صحافیوں کی معاشی اور معاشرتی مشکلات سے کہیں بڑھ کر ’’لفافہ سازی‘‘ کے رحجان نے بالآخر میڈیا کو بحیثیت مجموعی عوام کے لئے ناقابل اعتبار بنادیا۔ صحافت اپنی ساکھ کھوچکی ہے۔اس کی تلافی اب ممکن ہی نہیں رہی۔ بدقسمتی مگر یہ بھی رہی کہ صحافت کی ساکھ تباہ کرنے میں ہمارے چند ساتھیوں ہی نے بھرپور کردار ادا کیا۔ ایسا کرتے ہوئے ایک لمحے کو بھی یہ نہ سوچا کہ درحقیقت وہ اسی شاخ کو کاٹ رہے ہیں جس پر بیٹھے وہ لوگوں کی نگاہ میں ’’حق گو ہیرو‘‘ تصور ہورہے ہیں۔
ناپسندیدہ صحافیوں کی ذلت ورسوائی یقینی بنانے والے قصوں کے ساتھ ریاستی اداروں نے ایسے لوگوں کے خلاف ملک بھر کے مختلف شہروں اور قصبوں میں ’’غداری‘‘ کے مقدمات درج کرنے کی روایت متعارف کروائی۔ سکرینوں سے غائب ہوا صحافی کامل بدحالی اور بے روزگاری کے دنوں میں 12سے 18شہروں کے تھانوں میں ان مقدمات کی وجہ سے ’’مطلوب‘‘ قرار پایا۔ ٹی وی سکرینوں پر چھائے صحافیوں کی اکثریت نے اس روایت کی مذمت کے بجائے اسے ’’قومی مفاد‘‘ میں واجب ثابت کرنا شروع کردیا۔
رواں برس کے اپریل میں عمران خان صاحب کی تحریک عدم اعتماد کے ہاتھوں وزارت عظمیٰ سے فراغت کے بعد صحافیوں کے ضمن میںاب انگریزی زبان والا Role Reversalہورہا ہے۔ 2014ء سے حب الوطنی کی مجسم علامت تصور ہوتے چند صحافی اب بذات خود ’’غداری‘‘ کے الزامات کا سامنا کررہے ہیں۔ ان میں سے کم از کم دو افراد نے تواتر کے ساتھ میری کردار کشی کے لئے جارحانہ رویہ اختیار کئے رکھا۔اس کے باوجود میں یہ التجا کرنے کو مجبور ہوں کہ جو صحافی ان دنوں کی حکومت یا ریاستی اداروں کو پسند نہیں آرہے ان کے خلاف’’غداری‘‘ کی تہمت لگانے سے خدارا اجتناب برتا جائے۔ ’’تعزیرات پاکستان‘‘ کا مجموعہ ایک ضخیم کتاب ہے۔ اس میں بے تحاشہ ایسی دفعات موجود ہیں جو صحافتی ضوابط کی دیدہ دلیر خلاف ورزی کرتے فرد کو جوابدہی کے لئے مجبور کرسکتی ہیں۔آپ کے پاس کسی صحافی کے خلاف واقعتا ٹھوس شواہد موجود ہیں جو اسے دیدہ دانستہ لوگوں کی پگڑیاں اچھالتا ثابت کرسکتا ہے تو ان دفعات کے تحت عدالتوں سے رجوع کریں۔ ’’غداری‘‘ کی تہمت میری دانست میں ماں بہن کی گالی سے زیادہ تکلیف دہ ہے۔ میرے بدترین ناقد پر بھی لگے تو مجھے دُکھ ہوتا ہے۔خدارا اس کا استعمال ترک کردیں۔

ای پیپر دی نیشن