لاہور (رفیعہ ناہید اکرام) چائلڈ پروٹیکشن بیورو میں مقیم’’ گمشدہ ‘‘بچے اپنے ادارے کیلئے باعث فخر بن گئے۔ ان بچوں نے گھر اور والدین سے دوری کی تلخی جھیلنے کے باوجود تعلیم پر توجہ دی اور اپنے پاؤں پر کھڑے ہوکر دنیا کو بتا دیا کہ ’’ ہر فرد ہے ملت کے مقدر کا ستارہ‘‘۔ دوسری جانب بیورو سٹاف نے بھی ان گمشدہ بچوں سے کوئی بھی خونی رشتہ نہ ہونے کے باوجود ان کی تعلیم و تربیت اور کردار سازی پر اپنا اخلاص اس جانثاری سے نچھاور کیا کہ انکی اداس اور بے سہارا زندگی میں گویا چراغاں ہو گیا۔ 4 برس کی عمر میںگمشدہ حالت میں بیورو پہنچنے والا بے سہارابچہ رضوان نوخیز اب 18 سالہ پراعتماد نوجوان ہے اور ٹیکنیکل کورس کر کے ایک سکلڈ پرسن بننے کے بعد اب ملک کی ایک ممتاز ڈریس ڈیزائنر کے سٹچنگ یونٹ میں خدمات انجام دے رہا ہے۔ 20 سالہ بابر صدیق بھی آجکل جی سی یونیورسٹی فیصل آباد کے لاہور کیمپس میں بی ایس کا طالبعلم ہے۔ قوت سماعت اور قوت گویائی سے محروم بچی آمنہ گل جب 16 برس قبل اپنی زندگی کی اگلی محرومی یعنی والدین سے بچھڑنے کا بوجھ اٹھائے جب یہاںپہنچی تین برس قبل بیورو انتظامیہ نے اس کی شادی امریکی شہریت کے حامل ایک تعلیم یافتہ برسر روزگار نوجوان سے کر دی جو آمنہ کی طرح معذور ہے، بیورو کے ایک آفیسر کی مدد سے نوائے وقت سے گفتگو میں آمنہ گل نے انتہائی خوشی سے کھنکتی آواز میں ہاتھ سے جہاز کے اڑنے کا اشارہ کر کے بتایا کہ وہ تو بس اب جانے ہی والی ہے، شادی کے بعد اپنے شوہر کے ساتھ خوشحال زندگی گزار رہی ہے۔ نوائے وقت سے گفتگو میں منیجر سی پی آئی نازیہ زیب نے بتایا کہ مختلف ماحول اور مختلف فیملی بیک گراؤنڈ سے یہاں پہنچنے والے بچے ہمیں بہت عزیز ہیں ہم یہاں کے ماحول اور توجہ سے ان کی کردار سازی بھی کرتے ہیں، بوائز ہاسٹل کے انچارج ظفر اقبال نے بتایا کہ سٹریٹ چلڈرن کی عادات دوسرے بچوں سے بہت مختلف ہوتی ہیں۔ ہم انکی کونسلنگ پر خصوصی توجہ دیتے ہیں۔ ہمیں فخر ہے ہماری کئی سال کی محنت اور توجہ کی وجہ سے آج یہ اپنے پاؤں پر کھڑے ہورہے ہیں۔