سردار نامہ … وزیر احمد جو گیزئی
wazeerjogazi@gmail.com
سابق ڈپٹی سپیکر قومی اسمبلی
پاکستان گزشتہ کافی عرصے سے مالی مشکلا ت کا سامنا کر رہا ہے ،ایک طرف شدید معاشی بحران کا سامنا ہے تو دوسری جانب سیاسی عدم استحکام نے بھی معاشی صورتحال کو خراب کرنے میں کلیدی کردار ادا کیا ہے۔اس صورتحال میں ملکی معیشت اس حد تک خراب ہو گئی تھی کہ دنیا بھر میں اور پاکستان بھر میں پاکستان کے دیوالیہ ہونے کی باتیں کی جانے لگی تھیں۔اس صورتحال میں عوام بھی شدید پریشان اور کاروباری طبقہ بے چینی کا شکار تھا ،کچھ لوگ حسب معمول تباہی کی تاریخیں دینے لگے تھے کہ فلاں تاریخ کو دیوالیہ ہوں گے تو فلاں تاریخ کو دیوالیہ ہوں گے ،لیکن مثبت بات یہ ہے کہ پاکستان کا آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدہ ہو گیا ہے ،اور اس معاہدے سے نہ صرف موجودہ حالات میں سرمایہ کاروں کو ایک مثبت سگنل گیا ہے بلکہ ملک کے دیوالیہ ہونے کے خطرات بھی کم ہو ئے ہیں۔لیکن بات بھی ذہن میں رکھنے کی ضرورت ہے کہ آئی ایم ایف معاہدہ ایک عارضی ریلیف ضرور ہے ،لیکن مستقل بنیادوں پر معیشت کی بہتری کے لیے ہمیں دیر پا اقدامات کرنا ہو ں گے ،ادارہ جاتی اصلاحات نا گریز ہیں ان کی جانب بڑھنا ہو گا ،اور کام کرنا ہو گا۔نیت صاف ہونی چاہیے ،آگے بڑھنے کے راستے خود بخود نکلتے آتے ہیں۔ہمیں اس حوالے سے آگے بڑھنے کی ضرورت ہے اور ایک مربوط حکمت عملی کے تحت منظم انداز میں سب کو ساتھ لے کر آگے بڑھنے کی ضرورت ہے۔بہر حال اچھی بات ہے کہ آئی ایم ایف سے معاہدہ ہو گیا ہے ،آئی ایم ایف کے معاہدے سے موجودہ صورتحال میں ایک راستہ کھلا ہے اور ایک اور موقع ہے کہ معیشت کی سمت درست کی جائے۔پاکستان ایک بڑا ملک ہے اور پاکستان کو ایسے مسائل کا شکار نہیں ہونا چاہیے تھا ،لیکن بد قسمتی سے ہمارے حکمران ملک کو صیح راستے پر نہیں ڈال سکے۔معیشت کو ٹھیک کرنا ہے تو ٹیکس لگانے پڑیں گے ،اس کے بغیر معیشت چل نہیں سکتی ،مراعات یافتہ طبقات سے بھی ٹیکس لینا پڑے گا ،ایسے بھی طبقات ہیں جو کہ ٹھیک ٹھاک کمانے کے بعد بھی ٹیکس نہیں دیتے ہیں ،اس روش کو تبدیل کرنے کی ضرورت ہے ،سارے اپنے حصے کا ٹیکس نہیں دیں گے تو معیشت کیسے آگے بڑھے گی ؟ یہ بات ہم سب کے سوچنے کی ہے ،ملک کو کشکول سے چھٹکارا دلانا ہو گا ،اور اس کے لیے درست سمت میں قدم بڑھانے کی ضرورت ہے۔لیکن مسئلہ یہ بھی کہ ملک میں نہ عوام کو کوئی سہولیات ملتی ہیں ،نہ ہی سکولوں کی کو ئی حالت ہے اور نہ ہی سٹرکیں ٹھیک حالت میں ہیں ،عوام کے حکومت اور نظام پر اعتماد کو بحال کرنے کی ضرورت ہے ،ضرورت ہے کہ اشرافیہ پہلے سامنے آئے اور کہے کہ ہم ٹیکس دیں گے قربانی ہم دیں گے عوام کی باری بعد میں آئے گی ،یہ اشد ضروری ہے کہ عوام کو یہ اعتماد دیا جائے کہ ریاستی امور صاف شفاف طریقے سے چلائے جا رہے ہیں اور ان کا ٹیکس کا پیسہ انہی پر خرچ کیا جائے گا۔حکومت کو اپنے اخراجات میں کمی کرنا ہو گی ،عوام کی بدحالی کو خوشحالی میں تبدیل کرنا ہو گا ،دیہی علاقوں میں سہولیات میں اضافہ کرنا ہو گا ،دیہی علاقوں کی ترقی کے لیے ایک جامع روڈ میپ تشکیل دینے کی ضرورت ہے جو کہ عوام کو دور جدید کی سہولیات مہیا کرے اگر ایسا کر لیا جائے تو دیہی علاقوں میں بہتری سے معیار زندگی بھی بلند ہو گا ،پاکستان کی زرعی پیدا وار میں بھی بہتری آئے گی اور شہری علاقوں پر دبا? کم ہو گا۔پاکستان کو اس وقت معیشت کی بہتری کے لیے زراعت کے شعبے کی بہتری کی بھی اشد ضرورت ہے۔دیہات میں خوشحالی آنے سے ہی معیشت ٹھیک ہو گی۔پاکستان میں ضرورت پالیسیوں کے تسلسل کے لیے آگے بڑھنے کی ہے ،ایک ایسا معاشی پلان ہو نا چاہیے کہ جس پر کہ آئندہ 20سال تک آنے والی حکومتیں عمل پیرا رہیں اور ملک کو آگے کی جانب بڑھائیں یہی مسائل کا حل ہے۔پاکستان کو پاکستان کے عوام کو اقتصادی ترقی کی ضرورت ہے ،یہ بات ہمارے اکابرین کو سمجھنی چاہیے ،پاکستان میں ایک مڈل کلاس بنانے اور بڑھانے کی ضرورت ہے دولت کی مساوی تقسیم کے حوالے سے کام کرنے کی ضرورت ہے۔اسی طرح لک آگے بڑھے گا اور عوام کے حالات میں تبدیلی آئے گی۔آئی ایم ایف سے عوام کی جان اتنی آسانی سے چھوٹنے والی نہیں ہے الیکشن ہونے والے ہیں امید کرتے ہیں کہ الیکشن ملک میں ہوں اور وقت پر ہوں اور صاف اور شفاف ہوں اور ،عوامی مینڈیٹ رکھنے والی حکومت بر سر اقتدار آئے اس کے بعد ہی ملک کی معاشی سمت پر بھی بہتر انداز سے آگے بڑھا جاسکے گا۔لیکن الیکشن کے بعد آنی والی حکومت کو بھی آئی ایم ایف کے ساتھ چلنا پڑے گا ،عوام کے لیے مشکلات ہو ں گی لیکن بہر حال ایک نظام چلتا رہے گا ہمیں ضرورت اس بات کی ہے کہ اس بار اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ پالیسی کا تسلسل برقرار رہے اور ملک کو مصیبت سے نکالا جائے ،قرض پر معیشت چلانے والی پالیسی پر بھی نظر ثانی کرنے کی ضرورت ہے اس کے بغیر اب معاملات آگے بڑھیں گے نہیں ،جس معاشی دلدل میں ہم پھنس چکے ہیں اس سے نکلنے کا کوئی راستہ ہمیں نکالنا ہو گا اور سب کو مل کر نکالنا ہو گا بصورت دیگر تباہی ہی تباہی ہے۔