بے نقاب اورنگ زیب اعوان
laghari768@gmail.com
کسی بھی معاشرے کی ترقی میں نوجوان کلیدی کردار ادا کرتے ہیں. اسی لیے نوجوان نسل کو کسی بھی معاشرے کا مستقبل قرار دیا جاتا ہے. اللہ تعالیٰ کے فضل وکرم سے پاکستان کی کل آبادی کا نصف حصہ نوجوان نسل پر مشتمل ہے. جو خداداد صلاحیتوں سے مالا مال ہے. بد قسمتی سے ہم نوجوان نسل سے کوئی مثبت کام لینے کی منصوبہ بندی نہیں کرتے. ہماری حکومتی اور اپوزیشن جماعتیں ان نوجوانوں کو اقتدار میں آنے کے لیے بطور سیڑھی استعمال کرتی ہیں . جیسے ہی اقتدار کے تخت پر براجمان ہوتے ہیں. نوجوان نسل کو بے یارو مددگار چھوڑ دیتے ہیں. نوجوانوں کے نام پر متعدد سیکمیں بنائی جاتی ہیں. جو محض کاغذات تک محدود رہتیں ہیں. ان پر عمل درآمد نہیں ہوتا. اگر ان سکیموں میں سے پچاس فیصد پر بھی کام ہو جائے. تو ملک کی تقدیر بدل سکتی ہے. مگر شاید ہماری ترجیحات میں ملکی ترقی اہمیت کی حامل نہیں. نوجوان اعلیٰ تعلیم حاصل کرکے ہاتھوں میں ڈگریاں تھامے روزگار کی تلاش میں دھکے کھاتے پھرتے ہیں. ستم ظرفی کی بات ہے. کہ ماسٹر اور پی ایچ ڈی کی ڈگری کا حامل نوجوان میٹرک اور ان پڑھ شخص کے زیر سایہ ملازمت کرتا ہے. کیونکہ ہمارے کرپٹ نظام سیاست کی یہی خوبی ہے. کہ کرپشن، ناجائز لوٹ مار کرنے والا شخص ارب پتی بن جاتا ہے. اور پڑھا لکھا ایماندار نوجوان محض ملازم بن کر رہ جاتا ہے. ہماری ملکی جامعات سے ہر سال ہزاروں کی تعداد میں مختلف شعبہ جات میں نوجوان ڈگریاں حاصل کرتے ہیں. مگر انہیں کہی نوکری نہیں ملتی. اس کی وجہ ان میں صلاحیتوں کی کمی کا فقدان نہیں. بلکہ حکومتی سطح پر ناقص منصوبہ بندی ہے. یہی نوجوان روشن مستقبل کا خواب آنکھوں میں سجائے بیرون ملک جانے کو ترجیح دیتے ہیں. کچھ کے پاس تو سرمایہ ہوتا ہے. جو اعلیٰ تعلیم کی غرض سے بیرون ملک مقیم ہو جاتے ہیں. زیادہ تر غریب طبقہ سے تعلق رکھنے والے نوجوان غیر قانونی طریقہ سے بیرون ملک جانے کے خواہشمند ہوتے ہیں. جو اپنے ملک میں بھوک و افلاس سے مرنے کی بجائے. غیر ممالک میں اپنی قسمت آزمائی کا فیصلہ کرتے ہیں. یہ جانتے ہوئے بھی کہ اس طریقہ سفر میں خطرات ہی خطرات ہیں. دنیا میں سب سے بڑا جرم غریب ہونا ہے. اس جرم کی سزا جو برداشت کرتا ہے. وہی جانتا ہے. ہماری حکومتیں ہر سال نوجوانوں کے لیے قومی بجٹ میں رقم مختص کرتی ہیں. مگر شاید یہ زبانی جمع خرچ کے سوا کچھ نہیں ہوتا. اگر سکیموں پر نیک نیتی سے عمل کیا جائے. تو نوجوان اس ملک میں معاشی انقلاب برپا کر دے. نوجوانوں کے لیے حکومتی ناقص منصوبہ بندی نے انہیں ذہنی بیماریوں میں مبتلا کر دیا ہے. ہمارے ڈاکٹر، انجینئر، وکیل، فلاسفر سبھی عدم تحفظ کا شکار ہیں. انہیں اپنے روزگار کی یقین دہانی نہیں ہوتی. اسی غیر یقینی معاشی صورتحال کی وجہ سے یہ مختلف ذہنی بیماریوں میں مبتلا ہو جاتے ہیں. اس کا حل وہ منشیات کے استعمال میں ڈھونڈنے ہیں. کیونکہ منشیات کے استعمال سے انہیں وقتی طور پر ذہنی سکون میسر آتا ہے. یہی وقتی سکون ان کی زندگیاں برباد کر دیتا ہے. معاشی عدم تحفظ منشیات کے بڑھتے ہوئے رجحان کی بڑی وجہ ہے. اسی طرح سے ہمارا فرسودہ نظام تعلیم نوجوان نسل کو منشیات کی طرف راغب کر رہا ہے. ہماری جامعات، میڈیکل کالجز میں آج بھی صدیوں پرانا نظام تعلیم رائج ہے. جس کے تحت نوجوان رٹہ سسٹم کی وجہ سے ذہنی تناؤ کا شکار رہتے ہیں. ان کا سلیبس اس قدر وسیع ہوتا ہے. جس کو یاد کرنے کرنے کے لیے انہیں رات بھر پڑھنا پڑتا ہے. جس کی وجہ سے نوجوان طالب علموں کی اکثریت منصوعی ذہنی مضبوطی کے لیے مختلف قسم کی منشیات کا استعمال کرتی ہے. یہ منشیات ان کے خون میں سرایت کر جاتی ہیں . انہیں پتہ بھی نہیں چلتا. کہ وہ کب اس نشہ کے مستقل عادی بن چکے ہیں. آجکل آئس نشہ کی ایک نئی قسم دریافت ہوئی ہے. جو نوجوان نسل میں بہت تیزی سے مقبول ہو رہی ہے. اکثر نوجوان اس کی زیادہ مقدار لینے کی وجہ سے اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں. اس حقیقت سے بھی آنکھیں نہیں چرائی جا سکتیں. کہ نوجوان نسل کی ذہنی پریشانیوں کے ساتھ ساتھ دیگر عناصر بھی منشیات کے پھیلاؤ کا سبب بن رہے ہیں. والدین کی عدم توجہ، اساتذہ کی طرف سے دوستانہ ماحول کا فقدان، غیر منصفانہ معاشی تقسیم جیسے عناصر اس ضامن میں اہم کردار ادا کرتے ہیں. موجودہ دور میں منشیات کے ساتھ ساتھ ہماری نوجوان نسل جنسی بے راہ روی کا بھی شکار ہو رہی ہے. آئے روز جنسی زیادتی کے کیسز میڈیا کی زینت بنتے ہیں. جن کو دیکھ اور سن کر حیرت ہوتی ہے. کہ کیا ہم اسلامی ملک میں رہتے ہیں. شاید جنہوں نے نوجوان نسل کو دین اسلام کی تعلیمات سے روشناس کروانا تھا. وہ سیاست کے میدان میں اپنی قسمت آزمائی میں مصروف عمل ہیں. نوجوان لڑکے اور لڑکیاں منشیات کے اس قدر عادی ہو چکے ہیں. کہ یہ نشے کی حالت میں اپنی نازیبا وڈیوز خود بناتے ہیں. اور سوشل میڈیا پر شیئر کرتے ہیں. پھر بدنامی کے ڈر سے عدالتوں میں مقدمہ درج کرتے ہیں. کہ فلاں لڑکے یا لڑکی نے اسے بلیک میل کرنے کے لیے اس کی نازیبا وڈیو بنانی تھی. ان سے معصومانہ سا سوال ہے. کہ وڈیو جس وقت بنی اس وقت آپ کو اینے فعل پر کوئی شرمندگی نہیں ہوئی. وڈیو وائر ہونے پر آپ کی عزت نفس مجروح ہوئی ہے. یہ منشیات ہی کا اثر ہے. کہ ہماری نوجوان نسل راہ راست سے بھٹک چکی ہے. منشیات فروشی کا کاروبار کرنے والے مفاد پرست بھی ہمارے معاشرے کی بربادی میں اپنا حصہ ڈال رہے ہیں. وہ تعلیمی اداروں تک کو بھی نہیں بخش رہے. نوجوان طالب علم ان کے کاروبار کے لیے سب زیادہ سود مند ہیں. ہماری پولیس و دیگر ادارے بلاشبہ اس کی روک تھام کے لیے متعدد اقدامات کر رہے ہیں. مگر انہیں اداروں میں چھپی ہوئی کالی بھڑیں جو ان لوگوں کی سرپرستی کرتے ہیں. ان تمام برائیوں کا ایک ہی حل ہے. حکومت اس مسئلہ پر سنجیدگی سے غور کرے. اور نوجوان نسل کی صلاحیتوں سے بھرپور استفادہ حاصل کرنے کے لیے مثبت اقدامات کرے. نوجوان نسل کو زیادہ سے زیادہ روزگار کے مواقع میسر کیے جانے. تاکہ انہیں بے روز گاری کی فکر لاحق نہ رہے. اسی طرح سے نوجوانوں کو اپنا کاروبار کرنے کے لیے آسان ترین شرائط پر قرضہ دیا جائے. نوجوان جب اپنا کاروبار کرے گا. تو وہ کم از کم دو سے تین لوگوں کو روزگار دے گا. اس طرح سے معاشرے سے بے روزگاری کے ناسور سے نجات بھی مل جائے گی. اور نوجوان نسل کو اپنا کاروبار کرنے کا موقع بھی میسر آئے گا. جب معاشرے معاشی و اخلاقی طور پر مضبوط ہوتے ہیں. تو جرائم میں کمی واقع ہوتی ہے . منشیات و دیگر نفسیاتی مسائل معاشی عدم استحکام کی وجہ سے ہیں. اگر حکومت وقت معاشی بد حالی پر قابو پا لیتی ہے. اور نوجوان نسل کی صلاحیتوں کو ابھارنے کیلیے مثبت اقدامات اختیار کرتی ہے. تو بلاشبہ ہمارا ملک چند سالوں میں ترقی یافتہ ممالک کی فہرست میں شامل ہو جائے. ہمارے پڑھے لکھے نوجوان جن کی ہمارے ملک میں کوئی قدر نہیں کی جاتی. وہ ترقی یافتہ ممالک میں جاکر ان کے لیے گراقدر خدمات سرانجام دیتے ہیں. دوسرے الفاظ میں وہ ان ممالک کی معیشت کو سہارا دیتے ہیں. پاکستانی نوجوانوں نے بیرون ممالک میں ایسے ایسے شاندار کارنامے سرانجام دئیے ہیں. کہ دنیا حیرت میں مبتلا ہو گئی. اور ان کی صلاحیتوں کا اعتراف کرتی ہے . مگر یہی نوجوان پاکستان میں بے روز گار پھرتے تھے. کاش ہماری حکومت بھی ان نوجوانوں کی صلاحیتوں سے استفادہ حاصل کرنے کی پالیسی تشکیل دے. منشیات کا نوجوان نسل میں بڑھتا ہوا رجحان معاشی بدحالی کی وجہ سے بھی ہے. اس کے ساتھ ساتھ اخلاقی تربیت کی کمی بھی اس کا سبب ہے. ہمیں اپنی نوجوان نسل کی فلاح و بہبود پر خوصی توجہ کی ضرورت ہے. دنیا معاشی طور پر ہم سے آگے ہو سکتی ہے. مگر افرادی قوت کے معاملہ میں ہم ان سے آگے ہے. ناقص منصوبہ بندی کی وجہ سے ہم اپنی افرادی قوت کا بھرپور استعمال نہیں کر پاتے. کرپشن، رشوت، بے روزگاری جیسے ناسور ہماری جڑیں کھوکھلی کر رہے ہیں. جس دن ہم نے ان جرائم کے خلاف بھوپور قانون سازی کر لی. اسی دن ہماری تقدیر بدل جائے گی. ستم ظرفی ہے. کہ ہم ریٹائرڈ ملازمین کو دوبارہ نوکری پر رکھ لیتے ہیں. جس سے کئی حق داروں کا حق سلب ہو جاتا ہے.. ہمیں اپنی نوجوان نسل پر اعتبار کرنا ہوگا. تبھی ہم اپنی خود ساختہ پریشانیوں سے نجات حاصل کر پائے گے. منشیات کی لعنت نوجوان نسل میں ذہنی الجھنوں کے سبب پیھل رہی ہے. حکومت کو اپنی عیاشیوں سے فرصت ملے. تو کبھی اس مسئلہ پر سنجیدگی سے غوروفکر کرے. اور اپنے مستقبل کا تحفظ یقینی بنائے. ہمارے نوجوان صلاحیتوں میں کسی سے کم نہیں. پھر بھی ہم ترقی کی دوڑ میں دنیا سے پیچھے کیوں ہے. وجہ ہماری ناقص منصوبہ بندی، عدم توجہ.
آئیے مل کر عہد کرے. کہ ہم اپنے روشن مستقبل کے لیے نوجوان نسل پر خصوصی توجہ مرکوز کرے گے. اور ان کی صلاحیتوں سے بھرپور استفادہ حاصل کرنے کے لیے خوصی کاوش کرے گے.
کتنا ظالم ہے یہ دشت حیات
انسان اپنی سانسیں بیچ کر بھی جی نہیں سکتا